فاختہ

1053

مریم شہزاد
احمد اور علی آج دوپہر کو نانو کے ساتھ سونے کے لیے لیٹے تو دونوں کو ہی نیند نہیں آ رہی تھی مگر علی تو کہانی سنتے سنتے سو گیا مگر احمد کو نیند نہیں آرہی تھی نانو بھی اب سو چکی تھی اس نے لیٹے لیٹے کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا ہٹادیا اور آسمان کو دیکھنے لگا ادھر سے ادھر اڑتے پرندوں کو دیکھ کر اس کو بہت اچھا لگ رہا تھا کبھی کوئی کوا دائیں سے بائیں جاتا تو کبھی کوئی چڑیا، کبھی چیل ادھر سے ادھر تو کبھی کبوتر، پر پھیلائے مست مگن اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرتے سب پرندے اپنی اپنی منزل کو جا رہے تھے اتنے میں ایک فاختہ کھڑکی کی جالی پر آکر بیٹھ گئی، وہ شیشے کے اندر نہیں دیکھ سکتی تھی مگر احمد کو وہ صاف نظر آرہی تھی تھوری ہی دیر میں دوسری فاختہ بھی اس کے قریب آکر بیٹھ گئی، اس کو اندر کمرے میں لیٹے احمد اور علی صاف نظر آ رہے تھے اس نے پہلے والی فاختہ سے چپکے سے پوچھا۔
“تم یہاں آکر کیوں بیٹھ گئی؟ اگر بچوں نے تم کو پکڑ لیا تو؟”
“مگر یہاں تو کوئی نہیں ہے” اس نے شیشے کے اندر دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
“تم اس طرف آکر دیکھو، ویسے دونوں بچے سو رہے ہیں”۔
“چلو پھر خیر ہے میں تو تھک گئی تھی اس لیے آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئی، جیسے ہی بچے اٹھیں گے تو میں بھی اڑ جاؤ گی”۔
احمد نے سوچا کہ ان سے بات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
“بی فاختہ! بات سنو،” احمد نے آہستہ سے کہا۔
فاختہ جو سونے ہی لگی تھی احمد کی آواز سن کر ہربڑا کر اٹھ گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ کہاں سے آواز آرہی ہے اور اڑنے کے لیے لگی احمدجلدی سے بولا۔
“پلیز، پلیز، ابھی اڑنا نہیں، مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے”
فاختہ پہلے تو گھبرائی پھر احمد کو دیکھا تو اس کو لگا کہ یہ واقعی اچھا بچہ لگ رہا ہے اس سے بات کر لیتی ہوں۔
“میں تم کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گا” احمد نے ایک بار پھر یقین دلایا تو وہ واپس آرام سے بیٹھ کر اس کی بات سننے لگی۔
“میں بھی آسمان کی سیر کرنا چاہتا ہوں، تمہاری طرح اڑنا چاہتا ہوں”۔
فاختہ یہ سن کر ہنسنے لگی۔
“تم کیوں ہنس رہی ہو”؟ احمد نے پوچھا ۔
“تم نے بات ہی ایسی کی ہے، کوئی چڑیا، مینا، کبوتر یا کوئی اور پرندہ ہو جو تم اڑو گے، تم تو انسان ہو” فاختہ بولی۔
ہاں مجھے معلوم ہے، مگر میرا پھر بھی دل چاہتا ہے کہ میں آسمان کی سیر کروں، احمد نے کہا۔
“صرف تمہارا ہی دل نہیں چاہتا بلکہ سب انسانوں کا دل چاہتا ہے، اسی لیے جہاز ایجاد کیا ہے” فاختہ نے کہا۔
“مگر ہم تو جہاز کے اندر ہوتے ہیں، تو خود تھوڑی اڑتے ہیں، خود اڑنے کا تو الگ ہی مزا ہوتا ہوگا”۔
“اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ عقل دی ہے اور وہ اس کو استعمال کر کے نئی نئی چیزیں بناتا رہتا ہے، اور پہلے اس نے جہاز بنایا پھر ہیلی کاپٹر جیٹ ہوائی جہاز پھر راکٹ، کتنی ہی چیزیں ہیں آسمان کی سیر کے لیے، اور ہاں ایک غبارے کی شکل کی بھی تو چیز ہے اس کے ساتھ میں نے دیکھا ہے کوئی بیٹھنے کی چیز ہوتی ہے اس میں بھی بیٹھ کر آسمان کی سیر کرتے ہیں” فاختہ نے کہا تو احمد نے کہا “ہاں پیراشوٹ بھی تو ہوتا ہے”۔
“اور کیا ابھی تو تم چھوٹے سے ہو نا جب بڑے ہوجاؤ گے تو تب تم بھی آرام سے سیر کرنا”۔
فاختہ کو اس کی دوست بلانے آگئی تو وہ احمد کو ٹاٹا، بائے بائے کر کے اڑ گئی اور احمد نیند کی وادی میں کھو گیا، جہاں وہ خود کو پرندوں کے ساتھ اڑتا دیکھ رہا تھا ۔

حصہ