عدلیہ اور حکومت ۔۔۔ کیا سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ؟۔

872

سیاست دان حکومت اور ملک کے نظام کے حوالے سے کچھ بھی بول سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں مگر معاملہ اس وقت تشویش ناک نظر آتا ہے جب اہم ادارے یا اداروں کے سربراہاں کی جانب سے غیر معمولی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ملک ، حکومت اور قوم کے حوالے سے بعض ادارے کچھ بھی کہیں انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا ، صحافی و دانشور بھی ان اداروں کے حوالے سے لب کشائی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ خوف کا عالم تو یہ ہے کہ صحافی حضرات کو مذکورہ اداروں کے سربراہان کے اپنے بیانات پر تبصرہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے یا انہیں ان پر تبصرہ کرنے سے خوف آتا ہے کہ ان کی ’’ توہین‘‘ نہ ہوجائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالت عظمیٰ میں بدھ کو وکلا اور سائلین کے لیے موبائل ایپ اور ویب سائٹ کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے 2 روز قبل جس کیس پر بات کی اس پر کوئی بیان نہیں دینا چاہتا لیکن کسی کو باہر جانے کی اجازت عمران خان نے خود دی تھی ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کی بھی بات کی ، انہوں نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتواء ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، 3ہزار ججوں نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے جن میں صرف تین چار طاقتورلوگوں کے مقدمات شامل ہیں،وسائل کے بغیر ہم نے بہت کچھ کیا، ان ہی وسائل میں 25 سال سے زیر التوامقدمات ختم کر دیے،ہم نے ماڈل کورٹس بنائے کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹا،ہم نے ماڈل کورٹس کا اشتہار نہیں لگوایا،،116 اضلاع ہیں 17 اضلاع میں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، ہمارے زمانے میں سائلین کو جج کے منشی کو پیسے دینا پڑتے تھے،منشیوں کو معلومات کے لیے اخراجات کرنے پڑتے تھے،اب تمام معلومات ایک کلک پر موجود ہیں جن سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے،ویب سائٹ کو مزید بہتر کیا گیا ہے،یہ اقدامات سائلین کو سہولت دینے میں بہت آگے تک جائیں گے،کوئٹہ کے کیس کا ماہ میں عدالت عظمیٰ سے فیصلہ ہوا، 2 دن پہلے ایک قتل کیس کا وڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی ہے، وزیراعظم جب وسائل دیں گے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ انہوںنے کہا کہ ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دیے، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے، 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتوا نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتوا مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التوا نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے، تمام اپیلیں ناتواں لوگوں کی ہیں طاقتور اور کمزور میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا اور اب سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہمیں طاقتوروں کا طعنہ نہ دیں‘ ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، ججوں پر تنقید اوراعتراض میں تھوڑی احتیاط کریں۔
چیف جسٹس پاکستان کی تقریر سن کر ایسا محسوس ہوا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب پر اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ بھی شبہ ہوا کہ ’’چیف صاحب‘‘ کو سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حوالے سے ریمارکس پسند ہی نہیں آئے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی تقریر میں وضاحت کرنا پڑی کہ ’’وزیر اعظم نے دو روز قبل جس کیس پر بات کی اس پر کوئی بیان نہیں دینا چاہتا لیکن کسی کو باہر جانے کی اجازت عمران خان نے خود دی تھی ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔‘‘
چیف جسٹس کی اس بات سے بہت لوگوں کے ساتھ میرے ذہن میں بھی یہ بات آئی کہ اگر سابق وزیراعظم کے حوالے سے موجودہ وزیراعظم کا فیصلہ درست نہیں تھا تو کیا عدالت عظمٰی ایسے فیصلے کو غیر مؤثر قرار نہیں دے سکتی تھی۔ چیف جسٹس نے سرے عام یہ کہا کہ اس فیصلے کے لیے عدالت نے جزویات طے کیں ، کسی کو باہر جانے کی اجازت تو وزیراعظم نے خود دی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کی عدالت کے فیصلے پر تنقید اور اس پر چیف جسٹس کے مذکورہ ردعمل سے ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ اور حکومت میں ’’سرد جنگ‘‘ شروع ہوچکی ہے۔ جب کہ اس سے قبل یہ تاثر مل رہا تھا کہ مملکت کے کم ازکم چار میں سے دو ستوں پارلیمنٹ اور عدلیہ میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن سابق وزیراعظم اور مجرم میاں نواز کی علاج کی غرض سے لندن روانگی سے یہ پیدا ہونے والی لفظی جنگ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک میں کچھ غلط ہوچکا ہے اور ادارے ایک دوسرے کو اس غلطی کا قصور وار ٹھہرانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے عدلیہ کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ 116 میں سے 17 اضلاع ایسے ہیں جہاں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں رہا ، تاہم چیف جسٹس نے 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے جن میں صرف 3 یا چار طاقتور لوگوں کے مقدمات ہیں۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر بتایا ہے کہ ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا اور اب سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ سابق آرمی چیف کے مقدمے کا انہوں قبل از وقت ذکر کیوں کیا ؟
ملک کی سیاسی صورت حال تو جے یو آئی فضل کے دھرنے کے ختم ہونے کے بعد سے مستحکم نظر آرہی ہے مگر حکومت اور عدلیہ کے سربراہ کے درمیان گرم جملوں سے ’’دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔‘‘ اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے، آمین۔

حصہ