مشاعروں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا، معروف شاعر سلیم فوز کی جسارت میگزین سے گفتگو
نثار احمد نثار
سلیم فوز 28 فروری 1965ء کو پاکستان کے شہر خانیوال میں پیدا ہوئے۔ نام سلیم احمد رکھا گیا‘ ابتدائی تعلیم محمدی اسکول شاہ فیصل کالونی کراچی اور پھر ثانوی تعلیم بلدیہ اسکول شاہ فیصل کالونی سے حاصل کی۔ جامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر سے بی ایس سی پری انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تاحال کراچی میں رہائش پزیر ہیں۔ شاعری کا باقاعدہ آغاز 1985-86 میں کیا اور شاعروں کے ساتھ ساتھ معروف ادبی جرائد و رسائل میں کلام کی اشاعت اسی زمانے سے شروع ہوئی۔ پہلا شعری مجموعہ ’’سبھی چہرے تمہارے ہیں‘‘ 1999 میں شائع ہوا جس کا دیباچہ نامور نقاد ڈاکٹر وزیر آغا نے تحریر فرمایا جب کہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے مفصل مضمون تحریر فرمایا۔ معروف شعرا جناب حمایت علی شاعر جناب شبنم رومانی جناب سحر انصاری نے فلیپ پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’کوئی تم سے مخاطب ہے‘‘ 2007 میں شائع ہوا۔گزشتہ ہفتے راقم الحروف نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: شاعری میں علمِ عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیے۔
سلیم فوز: شاعری میں علمِ عروض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یاد رکھیے شاعری پہلے آئی عروض بعد میں دریافت ہوا۔ جو شعرا شاعری کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں انہیں علم عروض سیکھنا نہیں پڑتا‘ خدا کوئی کام نامکمل نہیں کرتا وہ جسے شاعری کی صلاحیت ودیعت فرماتا ہے تو اس کے لوازمات کی ساتھ ودیعت فرماتا ہے‘ شاعر تو ڈھلا ڈھلایا آتا ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کتنے اہم ہیں؟ کیا موجودہ زمانے میں یہ دونوں ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں؟
سلیم فوز: پرنٹ میڈیا نے تو ہمیشہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں مثبت کردار ادا کیا ہے‘ الیکٹرانک میڈیا بھی جب صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان تک محدود رہا اردو زبان و ادب کے فروغ میں پیش پیش رہا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کی بہتات کا خمیازہ اردو زبان و ادب تاحال بھگت رہے ہیں اور جدید الیکٹرانک میڈیا کے منفی اثرات کے بادل اب مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی اس قدر فراوانی اردو ادب کی ترویج و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی اور یہ ذرائع ابلاغ اردو زبان و ادب کے محافظ کے طور پر سامنے آتے لیکن صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
جسارت میگزین: حکومتی سطح پر اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں کیا وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہے ہیں؟
سلیم فوز: جس طرح حکومت کے باقی تمام ادارے ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اسی طرح اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بنائے گئے ادارے بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ دیکھیے اردو زبان ایک تہذیب کا نام ہے اور ہمارے اداروں پر ہمیشہ بدتہذیبوں کی حکمرانی رہی ہے۔
جسارت میگزین: انسانی زندگی اور سماج پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
سلیم فوز: انسانی زندگی یا سماج پر شاعری ہمیشہ اثر انداز ہوئی ہے اور ہر ہر سطح پر ہر زمانے میں شاعری نے اور شاعر نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ شاعری ہی ہے جو فکر کے دریچے وا کرتی ہے‘ جذبے کو زندہ رکھتی ہے اور فہم و ادراک کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ نتیجتاً غوروفکر کرنے والا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
جسارت میگزین: کراچی میں ہونے والے مشاعروں/تنقیدی نشستوں کی صورت حال پر تبصرہ کیجیے گا۔
سلیم فوز: کراچی میں ہونے والے مشاعرے نہ ہونے سے بہتر ہے کہ ہوتے رہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مشاعرے میں شہر کے تمام اہم شعرا کو مدعو کیا جاتا تھا اور اہم شعرا کی شرکت سے ہی مشاعرہ ہوتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے اب پندرہ غیر اہم افراد جمع ہو کر مشاعرہ یا نشست کا انعقاد کر لیتے ہیں اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کوئی اہم شاعر شریک ہے یا نہیں۔ جب ہمارے مشاعرے اور شعری نشست کا یہ حال ہو جائے تو تنقیدی نشت اور تنقید کا جنازہ نکل جانے پر کیا تعجب کیا جائے۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
سلیم فوز: ترقی پسند تحریک کے اردو ادب پر مثبت اثرات دکھائی دیتے ہیں اس دورانیے میں خصوصاً شاعری خوش گوار تجربات سے گزری اور نئی فضا اپنا رنگ گہرا کرتی چلی گئی۔
جسارت میگزین: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تجربات ہمارے ادب میں کامیاب ہوئے؟
سلیم فوز: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فلسفے پر ڈاکٹر وزیر آغا‘ ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور ناصر عباس نیر نے بہت تفصیل سے لکھا ہے یہاں تفصیل بیان کی گئی تو آپ کا صفحہ کم پڑ جائے گا۔ جہاں تک ان تجربات کی ادب میں کامیابی کا سوال ہے تو ان گنجلک تجربات کی کامیابی کی کوئی خطرہ خواہ مثال سامنے نہیں آئی‘ کوئی بھی تجربہ نیچر کے خلاف کامیاب ہوتا نہیں دیکھا گیا۔
جسارت میگزین: اصنافِ سخن میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نثری نظم کامیاب ہوئی؟ کیا نثر نظم کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے ہے؟
سلیم فوز: نثری نظم کی کوئی حیثیت نہیں‘ پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ شاعری ہمیشہ وہی زندہ رہتی ہے جو حافظے میںرہنے کا ہنر جانتی ہے۔ نثری نظم کا کوئی شاعر رول ماڈل کا درجہ حاصل نہیں کرسکا اور نہ ہی کوئی ایسی نثری نظم سامنے آئی جسے شاہکار کا درجہ دیا جائے۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟
سلیم فوز: اردو زبان اپنے چولے بدلتی رہے گی‘ فی زمانہ اس کی بنیادیں ہل چکی ہیں‘ جو قوم اپنی تہذیب اور ثقافت کی حفاظت نہیں کرسکتی وہ اپنی زبان کی حفاظت بھی نہیں کرسکتی اس کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
جسارت میگزین: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نفاذِ اردو کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ عملی طور پر اردو کا نفاذ کیوں نہیں ہورہا؟
سلیم فوز: آپ اردو کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں یہاں تو اردو زبان کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ قیام پاکستان کے لیے جو تحریک چلی کیا وہ انگریزی میں چلی تھی یا سندھی‘ پنجابی‘ پشتو میں چلی تھی؟ قیام پاکستان سے پہلے بھی اردو کا راج تھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی اردو کا راج ہونا چاہیے۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ کیا نعت میں تنقید کی گنجائش نکل سکتی ہے؟
سلیم فوز: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے تو ایک طویل بحث کے متقاضی ہیں۔ اتنا کہوں گا ہمارے اساتذہ ان تقاضوں کو پورا کر رہے تھے اور آج کا نعت نگار پٹڑی سے اتر گیا ہے۔ رہی بات نعت میں تنقید کی گنجائش کی تو بھائی نعت میں تو سخت تنقید کی گنجائش ہے اس میں تو رَتی برابر بھی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
جسارت میگزین: بہت سے کہتے ہیں کہ اردو ادب روبہ زوال ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں اگر اردو ادب روبہ زوال ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟
سلیم فوز: اب سے کوئی چالیس برس قبل پیر و مرشد سلیم احمد نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ادب مر چکا ہے اور آپ یقین جانیے میں سمجھ گیا تھا کہ ہمارے چراغ نہیں جلیں گے‘ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں ہر دہائی میں دو‘ تین بڑے اور اہم نام مل جائیں گے جب کہ گزشتہ چار دہائیوں میں اس سطح کا کوئی ایک نام بھی سامنے نہیں آسکا جس سے سلیم احمد کے نظریہ کو تقویت ملتی ہے۔ اچھا صرف ادب نہیں فنون لطیفہ کے تمام شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں سب سے بڑی وجہ تو علم کی کمی ہے۔ جتنا کچھ ہمارے اساتذہ جانتے تھے ہم اتنا نہیں جانتے دوسری وجہ زمانہ ہے جو زمانہ ہم سے پہلے لکھنے والوں کو میسر آیا اگر ہمیں بھی وہ زمانہ میسر آتا تو یقینا ہم میں سے بھی کئی اہم نام مقبولیت کی سند پاتے۔ ہم سے مراد ہم سب اس عہد کے لکھنے والے ہیں۔ جو گزشتہ چالیس برس سے اپنا خون جلا رہے ہیں اور اجالا نہیں کر پا رہے۔ بے قدری کے سیلاب میں بہے جارہے ہیں۔ بقول اجمل سراج
سُن یہ رونا نہیں گرانی کا
یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے
جسارت میگزین: آج کل کچھ ادبی تنظیمیں نظریہ ضرورت کے تحت چندہ لے کر صدارت اور مہمان خصوصی/مہمان اعزازی بناتی ہیں جو کہ ان مناصب کے حق دار نہیں ہوتے‘ آپ اس سلسلے میں کچھ کہیں گے؟
سلیم فوز: کیا شاعر اس مہنگائی کے دور میں تقریبات کا خرچا برداشت کر سکتا ہے‘ جب کہ اصل شاعر مفلوک الحال ہی ملے گا پہلے بھی یہ کام ادب پرور شخصیات انجام دیتی تھیں اور ادبی تقریبات کا خرچا اپنے ذمے لیتی تھیں شاعر نے یہ کام کبھی نہیں کیا فرق صرف یہ ہے کہ ان شخصیات میں نمود و نماش کی خواہش نہیں تھی پس پردہ رہ کر خدمت کرتی تھیں اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں قلم کاروں کے اہم مسائل کون سے ہیںیا آج کے قلم کار کن مسائل سے دو چار ہیں‘ آپ کے نزدیک یہ مسائل کس طرح حل ہو سکتے ہیں؟
سلیم فوز: قلم کاروںکے مسائل تو ہر دور میں رہے ہیں اور یہ مسائل حل ہونے بھی نہیں چاہئیں۔ مسائل ہی تو قلم کار کا ایندھن ہوتے ہیں یاد رکھیے تخلیق کبھی بھی آسودگی سے جنم نہیں لیتی اس لیے تخلیق کار کو آسودہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قربانی تو تخلیق کار کو دینی پڑتی ہے اگر کوئی چاہیے کہ اسے آسودگی بھی میسر آجائے اورتخلیق بھی تو یہ ممکن نہیں۔
جسارت میگزین: کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی سنیارٹی کا تعین کس طرح کیا جانا چاہیے؟
سلیم فوز: کلام کا معیار ہی شاعر یا شاعرہ کا مقام طے کرتا ہے۔ آپ دیکھتے کہ کتنے ہی عمر رسیدہ شعرا کو جن کی شعری عمر بھی زیادہ ہوتی ہے ان سے نسبتاً کم عمر اور کم شعری عمر رکھنے والے شعرا سے پہلے پڑھوایا جاتا ہے اس طرح معیار کی نشان دہی ہوتی ہے البتہ ہم عصر شعرا میں قریب قریب ایک ہی معیار رکھنے والے شعرا میں شعری عمر کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
جسارت میگزین: کیا آپ قارئین کی آسانی کے لیے شاعر اور متشاعر کا فرق بتائیں گے؟
سلیم فوز: کوئی شاعر نہ ہو اور شاعر ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے متشاعر کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ شاعر اور متشاعر میں فرق کیسے کیا جائے؟ دیکھیے ہر مصرع موزوں کرلینے والا شاعر نہیں ہوتا‘ متشاعر بھی مصرع موزوں کر لینے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے ور علم عروض کا ماہر بھی متشاعر ہو سکتا ہے۔ دوسروں سے کلام لکھوا کر پڑھنے والا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اب رہا شاعر تو غالب نے فرمایا:۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائی سروش ہے
شاعر جب کلام پڑھتا ہے تو اس کے مصرعے‘ اس کی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں اور غیبی مضامین سامعین اور قارئین کے دلوں پر اثر کرتے ہیں جب کہ متشاعر غیبی مضامین سے محروم ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں متشاعروں کا سلسلہ کب شروع ہوا تھا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ آج کل کچھ مال دار متشاعر و متشاعرات اپنے نام سے کتابیں شائع کرا رہے ہیں اور تقریب پزیرائی بھی ہمارے بہت سے اہم لوگ ان تقاریب کی صدارت کرتے تبصرہ کرتے ہیں جب کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ متشاعر ہیں‘ آپ اس صورت حال پر کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
سلیم فوز: آپ کا سوال بہت طویل ہے‘ وہ جو آپ نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب پوچھے تھے ناں جب سے متشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے ہی شاعری روبہ زوال ہے اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے اور جن ایسے لوگوں کو آپ اہم کہہ رہے ہیں جو متشاعروں کی کتابوں کی صدارت کرتے ہیں اور مضامین پڑھتے ہیں وہ ہرگز ہرگز اہم نہیں ہیں اور اگر آج ہم اہم ہیں تو کل اہم نہیں رہیں گے۔
جسارت میگزین: کیا مشاعروں میں شریک شعرا و شاعرات کو معاوضہ دینا چاہیے کیا ان کے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرنا چاہیے؟
سلیم فوز: مشاعرہ اگر ایسے ادارے کروا رہے ہیں جو مالی طور پر مستحکم ہیں تو شاعر کو معاوضہ ملنا چاہیے اور شاعر کو لانے اور واپس پہنچانے کی سہولت بھی ملنی چاہیے بلکہ جو نچلی سطح کے مشاعرے میں ان میںبھی شاعر کو معاوضہ دینا چاہیے کم بجٹ ہے تو کم شاعر بلائیں لیکن معاوضہ دیں۔
جسارت میگزین: آپ مبتدی قلم کاروں کے بارے میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
سلیم فوز: مبتدی قلم کاروں سے گزارش ہے سہل پسند اختیار نہ کریں شاعری ایک خارزار ہے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہے۔
جسارت میگزین: اردو ادب میں گروہ بندی نے اردو ادب کو کیا نقصان پہنچایا اس کے کچھ فوائد بھی ہیں‘ آپ اس پر تبصرہ کریں۔
سلیم فوز: اردو کے پرچے کی طرح آپ سوالات ایسے کر رہے ہیں جن کے جوابات طویل ہوتے ہیں اور مجھے اختصار سے کام لینا پڑتا ہے۔ ادبی گروہ بندیاں اساتذہ کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اردو ادب کو ان سے کئی نقصان نہیں پہنچا البتہ فائدہ ضرور پہنچا ہے۔ یہ گروہ بندیاں کسوٹی کا کام سر انجام دیتی ہیں۔
جسارت میگزین: کیا مشاعرے اردو ادب کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں؟
سلیم فوز: یقینا مشاعرے ہماری تہذیب اور ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔