بچوں کو متحرک بنائیں

1103

قاضی ذوالفقار احمد
والدین اکثر ایک سوال جو اُن کی نظر میں خاصا مشکل ہے، پوچھتے ہیں: آپ کس طرح ایسے بچے کو متحرک کریں گے جس نے ساکت و جامد رہنے کی قسم کھا رکھی ہو؟ جو پڑھنے لکھنے اور کچھ سیکھنے کی کوئی خواہش ہی نہ رکھتا ہو؟ جسے کوئی آرزو ہی نہ ہو؟ جو کسی بات کے لیے کوشش کرنے سے باغی ہو، اور جس کے پیش نظر مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ ایسے ساکت و جامد بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ اسکولوں میں متحرک ہونے کی کوئی تحریک نہ پاکر نااہلی تو ایک طرف، ناکامی سے دوچار ہورہے ہیں۔ تحریک دینے، متحرک کرنے، آمادہ کرنے وغیرہ کے الفاظ آج کل اسکول اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کے ہونٹوں پر جاری و ساری رہتے ہیں، کیوں کہ بہت کم بچے ایسے ہیں جو کچھ کرنے پر ازخود آمادہ ہوں۔ اسکول میں بچوں کو متحرک کرنے کے لیے کوئی تحریک دینے والی قوت موجود نہیں ہے۔ واقعی ان کے اندر یہ خواہش ہی موجود نہیں کہ انہیں کوشش کرنا ہے، پڑھنا ہے، آگے بڑھنا ہے، جیتنا ہے یا کامیاب ہونا ہے۔
بطور والدین آپ ایسے ساکت و جامد اور غور و فکر سے عاری بچوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس کا پہلا جواب صحت مند غذا ہے، کیوں کہ خوراک بچے کی ذہنی نشوونما میں سب سے زیادہ عمل دخل رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر جو بچہ وٹامن سی کی کمی کا شکار ہے وہ کاہلی، بے حسی، کٹھور پن اور بے زاری کا شکار رہتا ہے۔ طبعی طور پر نو سال سے لے کر نوّے سال تک کے افراد مستقبل کے بارے میں پُرجوش رہتے ہیں، ان میں نااہلی کے آثار ہونے بھی نہیں چاہئیں، تاہم اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا ضروری اور اہم ہے کہ کسی بھی قسم کا دبائو انسانی جسم میں ڈرامائی طور پر وٹا من سی کی کمی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ وٹا من سی ہی ہے جو بچوں اور بوڑھوں کی ذہنی صحت کا ذمہ دار ہے۔ یہ وٹامن بچوں کی صحت، توانائی اور ان کو آمادۂ عمل رکھنے کے لیے انتہائی مؤثر غذائی عنصر ہے۔
وٹامن سی کے علاوہ آپ کے بچے کو تن درست و توانا رکھنے کے لیے وٹامن بی کی مختلف اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان وٹامنز یا ان میں سے کسی ایک کی کمی فوری طور پر بے حسی، آنکھوں میں چمک کی کمی، پریشانی اور دبائو پیدا کردیتی ہے۔ کسی بچے کا افسردہ چہرہ اس بات کی دلیل ہے کہ بچے کو وٹا من بی کی کسی قسم کی کمی ہے۔ ان اقسام میں نیاسین اور وٹامن بی 6 ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں وٹامن بی کے جملہ مرکبات میں موجود ہوتی ہیں۔ وٹامن بی گروپ کا ایک عنصر فولک ایسڈ ہے، اس کی کمی سے زندگی سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کی واضح علامت بے حسی ہے جو بتدریج دماغ سے کام لینے کی صلاحیت کے عمل کو سست کردیتی ہے۔ رنگارنگ نفیس کھانوں اور مرغن غذائوں کے ساتھ نمک، چینی، چربی اور دیگر اِدھر اُدھر کی ذائقے دار نِک سُک کی بنی اشیا جو اسکولوں کے باہر خوانچے والوں اور دکانوں سے دستیاب ہیں، ان کا استعمال انتہائی نقصان دہ اور منفی اثرات رکھتا ہے۔ یہ اشیا نہ صرف بچے کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں بلکہ اس کے رویوں اور شخصیت میں بھی بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ خود صحیح معنوں میں متحرک ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کا بچہ یا بچے بھی زندگی کی عمومی سرگرمیوں میں جوش و خروش سے متحرک ہوں گے۔ اگر آپ ماضی کے بجائے مستقبل پر نظر رکھنے والے فرد ہیںتو آپ کا بچہ بھی ایسی ہی سوچ اختیار کرے گا۔ اگر آپ کے مشاغل، دل چسپیاں اور منصوبے اپنے اندر جان رکھتے ہیں اور آپ کا عمومی رویہ زندگی کے روشن پہلوئوں پر یقین رکھنے والا ہے تو بچے بھی شعوری اور لاشعوری طور پر اسی رنگ میں رنگ جائیں گے۔
بچے کے متعلق اندازہ لگانے کے لیے اُس سے کچھ سوالات کیجیے:
-1 تمہارا کیا خیال ہے کہ تم آج سے دو سال بعد، پانچ سال بعد اور دس سال بعد کیا کررہے ہو گے؟
-2 جب تم لان میں کھیلنا بند کردو گے تو اندازہ لگائو کہ میں نے وہاں کیا کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے؟
-3 مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ خزاں کے اس موسم میں مَیں شام کے اوقات میں کیا کروں؟ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ میں شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت حاصل کروں، لیکن ساتھ ساتھ مجھے وزن بھی کم کرنا ہے اور کمپیوٹر کے چند کورس بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تم میری رہنمائی کرو۔
بچوں کو ایسے لوگوں سے ملائیں جو متحرک ہیں، جن کے پاس خواہشیں ہیں، منصوبے ہیں اور عمل ہے۔
آمادگی یعنی تحریک دینے، تحریک حاصل کرنے کے بارے میں ابتدا میں دیے گئے والدین کے پیچیدہ سوال کے جواب کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ کچھ تھوڑا سا ’’سراغ رسانی‘‘ کا کام بھی کریں۔ بچوں کی پرورش اور تربیت میں اہمیت ہی اس بات کی ہے کہ آپ اپنے چشم و چراغ کی ضروریات سے آگاہ ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ کس بات پر اُس کا دماغ ٹک، ٹک کر اٹھتا ہے۔ اس نکتے پر پوری توجہ دیں کہ آپ کے بچے کی بہترین ترجیحات کیا ہیں اور اُس کا رجحان کیسا ہے؟ اس شعور کے بعد آپ بچے کی دلچسپیوں اور مشاغل کے حوالے سے اس کی پوری پوری ہمت افزائی کریں، اپنے بچے کی زندگی کے ہر پہلو میں اپنی دلچسپی کا عملی اظہار کریں اور اُس کے حقِ انتخاب کے استعمال کے لیے اُس کے سامنے زیادہ سے زیادہ ترجیحات پیش کریں تاکہ وہ بہترین کا انتخاب کرسکے۔
آج کے دور میں بچے کے لیے بہت انتخابی ترجیحات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے، ان میں سے وہ پسند کا کھیل منتخب کرسکتا ہے۔ بہت سے اسکولوں میں اندرون خانہ کھیلے جانے والے کھیلوں کے کلب موجود ہیں، اور بیرونِ خانہ کھیلے جانے والے کھیلوں کے اداروںکی بھی کوئی کمی نہیں۔ آپ ایسے کلبوں تک پہنچنے میں ان کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
بچوںکو متحرک کرنے کے لیے کسی معاملے پر دبائو نہ ڈالیں۔ بچوں کے لیے پریشانی پیدا کریں اور نہ خود فکر کا شکار ہوں۔ بس ان کو ماحول اور تحفظ مہیا کریں۔ اگر وہ اچانک وزیراعظم بننے کے ارادے کا اظہار کرتے ہیں تو قہقہہ لگا کر ان کی اونچی سوچ کا ٹھٹھا نہ اڑائیں۔ وہ جو بنتے ہیں بننے دیں۔ اگر وہ لباس ڈیزائن کرنے والے، آگ بجھانے والے یا ایسے ہی کسی اور پیشے کا ذکر کرتے ہیں تو ان پر خفا نہ ہوں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ تیرنا چاہتے ہیں یا سائیکلوں کی دوڑ میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان کی پیٹھ ٹھونکیں، شاباش دیں، بلکہ تھوڑی سی اداکاری کرکے وہ بننے کی کوشش کریں جو بننے کا بچے انتخاب کررہے ہیں۔ ان کے خوابوں کو محض خیالی پلائو یا خارج از امکان نہ سمجھیں۔ انہیں مختلف کام کرتے ہوئے لوگ دکھائیں۔ کارخانوں، فیکٹریوں، دکانوں وغیرہ پر لے جائیں، ان کو ترغیب دیں کہ وہ کاموں کو سرانجام پاتے ہوئے دیکھنے میں لطف اور تسکین محسوس کریں اور خود بھی کسی کام کو کرنے کا چیلنج قبول کریں۔
بچوں کو آمادۂ عمل کرنے کے لیے بہت سے پرانے اقوال موجود ہیں۔ ایسے اقوال آج بھی حقیقت ہیں۔ گاہے بگاہے بچوں کو ایسے اقوال سناتے رہیں۔ ان اقوال سے متعلق کوئی کہانی موجود ہو تو وہ بھی بچوں کو سنائیں، ان کو بتائیں کہ:
٭ بہت سے عمر رسیدہ لوگ اپنے اسکول کے زمانے کو اپنی زندگی کا بہترین دور قرار دیتے ہیں۔
٭ایسے افراد جنہوں نے اسکول میں اپنا وقت ضائع کیا آج پچھتاتے ہیں کہ کاش وہ پھر سے بچے بن جائیں اور اسکول جائیں اور بہترین تعلیم حاصل کریں۔
٭ ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ کی وضاحت کریں۔
٭ ٹھوس تعلیم کے ذریعے حاصل کی جانے والی اعلیٰ اسناد کسی من پسند ملازمت کی ضمانت نہیں، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اچھا تعلیم یافتہ فرد ہی آگے آگے ہوتا۔
٭ اسکول جو کچھ پیش کرتا ہے اس میں حصہ لینے سے ایک مطمئن اور آسودہ زندگی کی بنیاد میسر آتی ہے۔
آپ اپنے بچوں کو مستقبل میں جھانکنے اور زندگی کے روشن پہلو پر نظر رکھنے کی تعلیم دے کر انہیں متحرک کرسکتے ہیں۔

حصہ