احمد حاطب صدیقی
مرتب: اعظم طارق کوہستانی
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اعلائے کلمۃ الحق کی جس تحریک کو برپا کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی قائم کی، اُس کی طرف لوگوں کو راغب کرنے میں ان کی علمی، ادبی اورصحافتی نگارشات نے بنیادی اور اوّلین کرداراداکیا۔خود جماعتِ اسلامی کا قیام ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا مرہونِ منّت ہے۔ علاوہ ازیں تین جلدوں میں شائع ہونے والی کتاب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘کی جلد سوم کے متعلق کتاب کے مصنّف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کااپنا قول ہے :
’’یہ کتاب جماعتِ اسلامی کا سنگِ بنیاد ہے‘‘۔
تحریکِ جماعتِ اسلامی کی طرف راغب ہونے والوں کی بھاری اکثریت کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ ہی اُنھیں جماعتِ اسلامی کی برپا کی ہوئی انقلابی تحریک کی طرف کھینچ لایا۔علمی، ادبی اور صحافتی دُنیا پرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ذخیرۂتصانیف نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، اُنھیں ہرگز ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی طاقتور تحریر کے ذریعے سے اسلام کی جامعیت، کاملیت اور رہتی دنیا تک کے مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت کا لوہا عصر حاضر کی علمی اور نظریاتی دنیا سے منوا لینے کا جو کارنامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سرانجام دیا ہے، اُس کے سب ہی معترف ہیں۔
علمی دُنیا پر اثرات:
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معرکہ آرا تفسیر’’تفہیم القرآن‘‘نے بلامبالغہ لاکھوں زندگیوں کو متاثرکیا۔ خود اہلِ علم بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مولانا کے مخصوص علمی اور ادبی طرزِ بیان پر اُردو کے نامور ادیب و نقاد پروفیسر رشید احمد صدیقی نے جو بات کہی وہ ان تحریروں کے اثرات کے متعلق سوفیصد صادق ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
’’ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا، اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے‘‘۔
بابائے اُردو مولوی عبدالحق کا کہنا تھاکہ:
’’سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اُردو زبان کو شا یستگی عطاکی‘‘۔
معروف اسکالر اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی فرماتے ہیں:
’’مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے مدلل، پُر اثر اورخوب صورت نثر لکھنے کی صلاحیت عطا کی۔ اگر کوئی شخص ان کے افکار سے اختلاف رکھتا ہو تو بھی وہ ان کی نثر کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔اپنی خوب صورت اور قاری کو جذب کرنے والی اور اپنے سحر میں اسیر کرنے والی، ان کی نثر کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘۔ ایک دلچسپ بات، گورنمنٹ کالج سرگودھا کے زمانۂ طالب علمی میں ہمارے ایک استادتھے رحمت علی مسلم، کٹر قادیانی تھے اور علانیہ اس کا اظہار اور اقرار کرتے تھے۔ وہ کلاس میں کہا کرتے تھے کہ میں مولانا مودودی کا بطور بہت مداح ہوں۔ مجھے ان کے خیالات اور نظریات قطعاً ناپسند ہیں، مگر وہ بہت بڑے ادیب ہیں‘‘۔
ممتاز عالم دین اور مصنف مولانا زاہد الراشدی کہتے ہیں:
’’مولانا مودودیؒ صاحب کی مغرب پر تنقید بہت جان دار ہے۔اقبالؒ کے بعد مولانا مودودیؒ ہمارے اسلامی اسکالرز میں اس وجہ سے نمایاں ہیں کہ ان کی مغرب پر تنقید اور نقطۂ نظر جان دار ہے۔ان کی کتابیں ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ ، ’’تنقیحات‘‘ بہت مؤثر ہیں‘‘۔
مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒکی علمی تحریروں سے متاثر ہو کر بہت سے اہل علم ان کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ جماعتِ اسلامی نے علمی دُنیا میں بہت بڑی تعداد میں ایسے صاحبِ طرز علماء اور مصنفین کو رُوشناس کرایاجن کی تحریریں لوگوں کے دِلوں میں اُتر گئیںاور سیرتوں میں انقلاب آگیا۔ ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہونے کے نتیجے میںصاحبِ قلم اور صاحبِ تصنیف ہوگئے۔
علمی دُنیا میں مولانا مودودیؒ نے سب سے اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ معروف دینی موضوعات اور مخصوص فقہی معاملات کے علاوہ زندگی کے اُن مسائل پر بھی دینی نقطۂ نظر سے رہنمائی کی جن کو ’’دین ودُنیا کی تقسیم‘‘ کا قائل ذہن دین سے الگ اور خالص دُنیاوی معاملات میں شمار کرتا تھا۔ اسی تحریک کا اثر ہے کہ آج کی دُنیا میں کوئی معاملہ ایسا نہیں جس پر دینی نقطۂ نظر سے نقدوجرح نہ کی جاتی ہواور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے (ماضی کی طرح) اِسلام کے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دیا جاتاہو۔ دنیا کو کوئی بھی نیا مرحلہ درپیش ہو اُس پر دینی نقطۂ نظر سے تصنیفات اور تالیفات کا ڈھیر لگ جاتاہے۔
مولانا مودودیؒ کے تصنیف کردہ ذخیرۂ علم و ادب میں سے منتخب کتب کے تراجم دُنیا کی متعدد زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۷۵ نفوس سے شروع ہونے والی یہ تحریک آج دُنیا کے دُور دراز خطوں تک پھیل گئی ہے۔دیگر اسلامی تحریکوں کے ساتھ ساتھ دُنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں برصغیر (پاکستان،بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا) سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک معتدبہ تعداد میں موجود ہوں اور وہاں ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کا نظم قائم نہ ہو۔ اِس توسیعِ دعوت میں بڑا حصہ مولانا مودودیؒ کے تیار کردہ لٹریچر کاہے۔
ادبی دُنیا پر اثرات:
ہرمعاشرے میں علم و ادب پیش قدمی کرتاہے اور رائے عامہ اُس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔جن تحریکوںکو معاشرے کے ادیبوں اور شاعروں کی پشت پناہی حاصل ہوجائے وہ نہ صرف بڑی سرعت سے مقبول ہوتی ہیں بلکہ سوسائٹی کی بنیادی سطح تک اُتر کر مستحکم ہوجاتی ہیں۔ آج کی دُنیا سمعی وبصری ابلاغیات کی دُنیا ہے۔ اگرچہ کتب و رسائل کے مطالعہ کا رُجحان پورے معاشرے میں مجموعی طورپر کم ہوا ہے ، اِس کے باوجود رائے عامہ کی تشکیل کاکام اہلِ قلم ہی کے ہاتھوں ہو رہا ہے…ٹیلی وژن کے ڈرامے، خاکے، مزاحیہ پروگرام، دستاویزی فلمیں، تحقیقی رپورٹیں، مذاکرات ومکالمات کے پروگرام … سب کی باگ ڈور لکھنے والوںہی کے ہاتھ میں ہے۔ٹیلی وژن چینلوں کی بھر مار کے باوجود،اخبارات کی خواندگی کی شرح، ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔ برقی ذرایع ابلاغ پر اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ سیاسی اور نیم ادبی کالموں کی عوامی مقبولیت زیادہ ہے۔
جماعتِ اسلامی کے قیام کے وقت ادبی دُنیا پر ترقی پسند تحریک کا غلبہ تھا۔قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد مملکت خداداد پاکستان میں کیمونسٹوںکے لیے اگرچہ حکومتی سطح پر حالات سازگار نہ رہے، تاہم اشتراکی ادیبوں اور شاعروں نے کسی نہ کسی طرح (مطبوعہ اور ریڈیائی) سرکاری ذرائع ابلاغ پر غلبہ حاصل کرلیاتھا۔ نظریۂ پاکستان کے علمبردار شاعروادیب اِس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ ترقی پسندوں ہی نے اپنے نظریات کے مطابق نوزائیدہ مملکت کے ادبی تشخص کی تشکیل کی اور اُنھی کی تربیت یافتہ فوج آج بھی ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ کی مدد سے رائے عامہ پر اثر اندا ز ہورہی ہے۔سوشل اِزم کے سقوط کے ساتھ ہی ترقی پسند ادیبوں اور سوشلسٹوں کی اکثریت اپنا قبلہ بدل کر سرمایہ پرست، سیکولر اور لبرل ہوگئی۔مگررائے عامہ کی تشکیل کرنے والے ذرائع پر آج بھی انھی کا غلبہ ہے۔آج بھی پاکستان کے علمی اور ادبی محاذ پر تشکیک پھیلانے والے خیالات حملہ آور ہیں۔علمی اور تحقیقی تحریروں کے نام پر ’’انکارِ علم‘‘ کی تحریک چلائی جارہی ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’ہر علم غیر معتبر ہے‘‘۔ قوم میں نفسیاتی مایوسی پھیلائی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم کے نظریات اور خیالات کو صفر ثابت کیا جارہا ہے اور بیرونی افکار و نظریات کو طاقتور۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں نے بھی نامور ادباء اور شعراء کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ہوتے ہوتے اہلِ قلم کی ایک کہکشاں ان کے گرد مرتب ہوتی چلی گئی۔اِن میں مولانا مائل خیرآبادی، مولانا ماہرالقادری، ملک نصراﷲ خان عزیز، نعیم صدیقی، ملک غلام جیلانی (ادبی نام: جیلانی بی اے)، اسعد گیلانی، نسیم حجازی، عامر عثمانی، زکی کیفی،حفیظ میرٹھی، میم نسیم،محمود فاروقی، پروفیسر خورشید احمد،حفیظ الرحمٰن احسن، فروغ احمد، پروفیسر عنایت علی خان،وغیرہ وغیرہ سمیت بہت سے دیگر نام شامل ہیں اوراب تک شامل ہوتے ہی جارہے ہیں۔خواتین میں بھی آپا حمیدہ بیگم، اُم زبیر، بنت الاسلام، بنتِ مجتبیٰ مینا، سلمیٰ یاسمین نجمی اورفرزانہ چیمہ وغیرہ سمیت متعدد افسانہ نگار اور شاعرات نے مولانا مودودیؒ کی کھڑی کی ہوئی ادبِ اسلامی کی تحریک میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
۱۹۴۸ء میں مولانامودودیؒ کی تحریک پر ’’حلقۂ ادبِ اسلامی‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ اِس حلقہ سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں نے تخلیقی سطح پر توکوئی بہت بڑا کام سر انجام نہیں دیا، ماسوائے نعیم صدیقی کی چند معرکہ آراء نظموں کے۔(طوالت سے بچنے کے لیے مثالیں نہیں دی جارہی ہیں)۔ مگر تنقیدی سطح پر حلقۂ ادبِ اسلامی نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ادب میں فحاشی کانیانیا سیلاب آیا ہوا تھا۔مولانا مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’’پردہ‘‘ میں نومالتھوسی عالمی تحریک کے فحش ادب سے لے کر اُردو ادب میں در آنے والی فحاشیوں سمیت رائج الوقت فحش ادب پر دنداں شکن علمی و ادبی تنقید کی گئی۔ چراغِ راہ مشیر، کوثر، تسنیم اوردیگر جرائد نے ’’لچرلٹریچر‘‘ کی خوب خبر لی اورثابت کیا کہ اِن مغلظات کا ادب سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے نوآموزادیب اِس پھیلتی ہوئی وبا کی لپیٹ میں آجانے سے محفوظ رہے۔ فحش نگاروں کی ایسی مٹی پلید کی گئی کہ پاکستانی شعرو ادب کے گلشن میں یہ شجرِ خبیثہ مزید پھول سکا نہ پھل سکا۔
(جاری ہے)