دادا ابو کی کتاب

1374

مسعود احمد برکاتی
ایک سو سال بعد بچے کس طرح پڑھا کریںگے ذرا یہ کہانی پڑھ کر دیکھیے تو۔
’’یہ خوب صورت ڈبّا کیسا ہے؟‘‘
’’یہ ڈبا نہیں‘ کتاب ہے۔‘‘
’’کتاب؟‘‘
’’ہاں بہت پرانی کتاب ہے۔‘‘
’’اچھا‘ کیا پہلے کتاب ایسی ہوتی تھی؟‘‘
’’ہاں‘ پہلے کتابیں کاغذ پر چھپتی تھیں۔‘‘
’’کتنا عرصہ پہلے؟‘‘
’’بہت پرانی بات ہے‘ دادا ابا کے بھی دادا ابا کے زمانے کی۔ یہ تو 2095 ہے نا ‘ اس کتاب پر1985ء لکھا ہے‘ سو سال سے بھی دس سال زیادہ ہوگئے۔‘‘
’’مگر یہ کتاب تمہیں ملی کہاں سے؟‘‘
’’ماریا! تم تو بہت سوال کرتی ہو‘ خیر سنو‘ وہ جو چھ منزلیں نیچے تہ خانہ ہے نا اس میں ایک اسٹور ہے‘ دادا ابا نے وہاں ایک الماری اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ اس میں یہ کتاب حفاظت سے رکھی تھی‘ وہ کہتے ہیںکہ یہ ان کے دادا کی کتاب ہے۔‘‘
’’چھا! حیرت ہے‘ یہ تو کاغذ پر چھپی ہوئی ہے۔ کاغذ بھی پلاسٹک کا نہیں۔ عجیب سا ہے‘ بھدا بھدا۔‘‘
’’ہاں‘ دادا ابا کے دادا ایسی ہی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘
’’مگر اس کے حروف تو بالکل خاموش ہیں‘ نہء ہلتے ہیں نہ بولتے ہیں۔‘‘
جاجی نے ماریا کے کہنے پر غور کیا اور کتاب کے اوراق الٹنے پلٹنے لگا۔ ایک صفحہ دیکھا تو اس کے حروف بالکل ویسے کے ویسے اپنی جگہ تھے جیسے کوئی چپ چاپ لیٹا ہو۔ نہ ہو آگے پیچھے حرکت کر رہی تھے اور نہ بول چال رہے تھے۔ ’’ٹی وی بک تو ایسی نہیں ہوتی۔ اس کے حروف تو چلتے اور بولتے ہیں۔‘‘ جاجی بولا۔ ماریا سے ضبط نہ ہوا‘ اس نے جاجی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’بھائی! سنو تو‘ کیا اتنی موٹی کتاب پڑھ کر پھینک دی جاتی تھی؟ ایک بار پڑھی اور بے کار؟ ہمارے کمپیوٹر ٹی وی میں تو پندرہ بیس لاکھ کتابیں ہوں گی۔‘‘
’’اور کیا‘ بلکہ اور زیادہ آسکتی ہیں۔ ایک ہارڈ ڈسک میں کئی کتابیں آسکتی ہیں۔‘‘
’’ہاں اور کیا‘ کون مصیبت اٹھائے اور اتنی موٹی موٹی کتابوں کے ڈھیر جمع کرتا رہے۔‘‘ ماریا بولی۔ جاجی‘ ماریا سے باتیں کرتے ہوئے کتاب کے اوراق پلٹتا رہا‘ کسی صفحے پر ایک تصویر تھی جس میں ایک بڑے سے کمرے میں استاد بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ ماریا کی نظر اس تصویر پر پڑی تو اس نے پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ جاجی نے بتایا ’’ماسٹر بچوںکو پڑھا رہا ہے۔‘‘
ایسا معلوم ہوا جیسے ماریا کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جائیں گی‘ وہ بولی ’’اسکول؟ ماسٹر؟ پہلے کیا اسکول گھر سے الگ ہوتا تھا اور ماسٹر مشینی ٹیچر کی طرح نہیں بلکہ ہماری طرح انسان ہوتے تھے؟ عجیب بات ہے۔‘‘
جاجی نے کہا ’’ہاں اس کتاب میں یہی لکھا ہے کہ جیسے پہلے زمانے میں ڈاکٹر انسان ہوتے تھے‘ اسی طرح استاد بھی انسان ہوتے تھے۔ آج کل کی طرح مشینی استاد نہیں تھے۔‘‘
ماریا بات کاٹ کر بولی ’’یہ تو بہت اچھا تھا۔ میں مشینی ماسٹر سے عاجز ہوں۔ ایک ہی بات طوطے کی طرح رٹے جاتا ہے‘ مجھے حیاتیات سے نفرت ہے مگر وہ مجھے اسی کا کام دیتا ہے۔ امی ناراض ہوئیں تو میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آتی۔ مشینی استاد اتنی جلدی بولتا ہے کہ بس… میرا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ آخر امی نے ٹائون سینٹر سے ایک ماہر کو بلوایا۔ اس نے مشینی استاد کو کھولا‘ پھر دوبارہ جوڑ دیا اور بولا کہ کوئی خاص بات نہیں‘ مشین کی رفتار ذرا تیز ہو گئی تھی۔ خیر اب میری سمجھ میں آنے لگا ہے۔‘‘
’’ارے ماریا سنو! ایک دن دادا ابا کہہ رہے تھے‘ ان کے دادا نے انہیں بتایا کہ اس زمانے میں کتابیں کاغذ پر چھپتی تھیں‘ اور انہیں موٹی موٹی کتابیں اٹھا کر اسکول جانا پڑتا تھا۔ا سکول بس لے جاتی تھی۔ اس زمانے میں آج کل کی طرح اسکول کا کمرہ‘ سونے کے کمرے کی طرح گھر میں نہیں ہوتا تھا۔ پھر فوٹو اسٹیٹ مشینیں ایجاد ہوئیں اور ہمیں حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ پھر بھی انہیں پڑھنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں علم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ کتابیں بہت چھپنے لگی تھیں۔
آج کل تو معلومات اتنی پھیل گئی ہیں کہ پہلے کی طرح کتابیں ہوں‘ تو انہیں پڑھنا تو کیا ان کی ورق گردانی کرنا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ یہ تو ہمارا مشینی استاد ہے جو پردے پر جلدی جلدی ہمارے سامنے معلومات گزارتا ہے اور ہم صرف اپنے کام کی معلومات پڑھ یا سن لیتے ہیں۔ اس طرح مہینوں کا کام منٹوں میں ہو جاتا ہے۔‘‘
ماریا نے کہا ’’ہم اس روز دادا ابا کے ساتھ یونیورسٹی کی لائبریری گئے‘ تو انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا کے زمانے میں اسی لائبریری میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ کتابیں رکھی جاسکتی تھیں‘ مگر اب تو صرف ایک سی ڈی میں ایک ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور ایسی لاکھوں سی ڈیز لائبریری میں رکھی ہیں۔‘‘ جاجی بولا ’’ہاں اور ان میں سے اپنی ضرورت کی کتاب تلاش بھی نہیں کرنی پڑتی‘ بس بٹن دبائو اس کتاب کی سی ڈی خود نکل آتی ہے۔ اسے کمپیوٹر میں لگا دو‘ کتاب کے صفحات خود بخود چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ساری کتاب پڑھو‘ جو سبق یاد کرنا ہے‘ رات کو ٹیپ ریکارڈ لگا کر سو جائو‘ جیسے کوئی آدمی تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے۔ صبح سو کر اٹھو گے تو سبق تمہارے ذہن نشین ہو چکا ہوگا۔‘‘ ماریا چپ رہ کر زیادہ لمبی بات نہیں سن سکتی تھی بیچ میں بول اٹھی ’’دادا ابا نے یہ بھی بتایا کہ سو سال سے پہلے اسکول گھر سے الگ ہوتا تھا اور بس سے جانا پڑتا تھا‘ کتنا مزا آتا ہوگا سب کے ساتھ جانے میں۔‘‘
’’ہاں واقعی بہت مزا آتا ہوگا‘ اب تو ہم بور ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو کیا اسکول میں سب مل کر پڑھتے تھے؟‘‘
’’ہاں‘ دادا ابا تو یہی بتا رہے تھے۔ ایک استاد کے کمرے میں جسے جماعت کہتے تھے‘ چالیس‘ پچاس بچے بیٹھتے تھے۔ سب ساتھ پڑھتے تھے اور پڑھنے کے بعد کمرے سے باہر نکل کر کھیلتے بھی تھے۔ پڑھنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ بھی ہوتا۔ جو بات کوئی بچہ بھول جاتا تو دوسرے بچوں سے پوچھ لیتا۔ آہاہا کیسے اچھے دن تھے۔‘‘
’‘کیا انسانی استاد بھی بھی ایسے ہی پڑھاتا تھا جیسے مشینی استاد پڑھاتا ہے؟‘‘
’’نہیں ایسے تھوڑی پڑھاتا تھا۔ وہ پڑھانے کے بعد سب بچوں سے پوچھتا تھا کہ سبق سمجھ میں آیا کہ نہیں؟ اور جن کی سمجھ میں نہیں آتا‘ وہ اسے دوبارہ سمجھاتا۔ گھر پر کام کرنے کو دیتا تھا۔ اچھے بچوں کو شاباش دیتا اور پیار بھی کرتا تھا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آرہا‘ ہمارا استاد تو ہماری بات بھی نہیں سن سکتا۔ ہم چاہیں کتنی ہی محنت سے اور دل لگا کر پڑھیں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کاش میں اس زمانے میں ہوتی اور بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ پڑھتی۔ پھر استاد سے سوال کرتی۔ میری محنت سے وہ خوش ہوتے‘ مجھے شاباش دیتے اور پیار کرتے۔‘‘
اور اگر سبق یاد نہیں ہوتا تو وہ ڈانٹتے بھی تو تھے۔‘‘
’’سچ؟ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ استاد کو ہمارا کتنا خیال ہے۔ یہ شفقت مشینی استاد میں کہاں؟‘‘ اتنے میں انہیں اپنی امی کی آواز سنائی دی‘ انہوں نے مشینی ٹیچر کو چالو کردیا تھا۔ ماریا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بوجھل قدموں سے اس کی طرف چل پڑی۔
nn

حصہ