افروز عنایت
تبسم: (دکھ سے) ساجد میں تو ہر تہوار، ہرخوشی غمی پر اپنے تمام رشتے داروں کا خیال رکھتی ہوں، دعوتیں کرتی ہوں، لیکن بڑے دکھ کی بات ہے کہ مجھے اور میری فیملی کو تو کوئی اس طرح عزت نہیں دیتا…
ساجد : (بڑی بردباری سے) تبسم بیگم آپ تو ان سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ رب العزت نے آپ کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ آپ رشتے داروں کا حق ادا کررہی ہیں اور … (ہنستے ہوئے) آپ کے دل میں یہ خوبی پیدا کی ہے کہ آپ خوش دلی سے یہ کام انجام بھی دے رہی ہیں۔ اس لیے دل میں کسی اور خیال کو نہ لائیں کہ آپ کی نیکی کم ہوجائے…
تبسم شوہر کی بات پر مسکرائی اور کہنے لگی: ہاں اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے اس قابل کیا ہے اور توفیق بھی عطا کی ہے کہ میں یہ سب کرسکتی ہوں۔
ساجد کی بات کچھ غلط بھی نہیں۔ رب العزت جسے نیکی کی توفیق عطا کرے اور جسے ہدایت دے وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ میں اپنے اردگرد بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں جنہیں رب العزت نے ہر قسم کے وسائل سے نوازا ہے لیکن انہیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنی ذات سے کسی ضرورت مند کی مدد کریں، یا ان کے لیے کچھ آسانی فراہم کریں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو کم وسائل، کم طاقتور ہونے کے باوجود اپنے آس پاس رہنے والوں کا نہ صرف خیال رکھتے ہیں بلکہ اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں۔ یہی دینِ اسلام کی تعلیم بھی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے خود بھی فیضیاب ہوں اور دوسروں کو بھی اس کا مزہ چکھائیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں اس کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں، وہ اللہ رب العزت کی ہر نعمت سے دوسروں کو فیض پہنچاتے اور تسکین حاصل کرتے کہ رب نے انہیں یہ توفیق عطا کی کہ وہ اس نیکی کو سر انجام دے سکتے ہیں۔ بلکہ ہر نیکی کو حاصل کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں سے سبقت کی کوشش کرتے کہ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔
اللہ اپنے بندوں کو نفع و سُکھ پہنچانے والے سے راضی ہوتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا ’’خدا کے نزدیک سب سے پیارا شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کو اللہ نے مال عطا کیا تھا، ساتھ میں یہ توفیق بھی عطا کی کہ اسے فراخ دلی سے جہاد اور لوگوں کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے۔ حضرت عمرؓ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جائیں۔ دونوں کو اللہ نے توفیق عطا کی تھی، لیکن سبقت حضرت ابوبکرؓ لے جاتے (سبحان اللہ)۔ نیکی کے کام سرانجام دینے کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ جائز ہے ، البتہ نیت کا خالص ہونا شرط ہے۔
آپؐ کے پاس کوئی ضرورت مند یا سائل آجاتا تو صحابہؓ کرام کی یہ کوشش ہوتی کہ یہ سعادت ہم حاصل کریں اور سائل کے کام آئیں، یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ آپؐ سے پوچھتے کہ اگر ہماری توفیق نہ ہو کہ کسی کو ہدیہ وغیرہ دے سکیں تو؟ آپؐ فرماتے کہ کسی کو مسکرا کر دیکھنا بھی ہدیہ کے برابر ہے (مفہوم)۔ ایک صحابی آپؐ کی خدمت میں بھوک و پیاس کی حالت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے پہلے اپنے گھر سے معلوم کیا تاکہ انہیں کچھ کھانے کے لیے منگوا کر دیں، لیکن آپؐ کے گھر سے کچھ نہ ملا تو آپؐ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ کون ان کی مہمان نوازی کرے گا۔ ایک صحابی (انصاری) نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مہمان نوازی میں کروں گا۔ وہ صحابی، مہمان کو گھر لے گئے۔ ان کی بیوی نے بتایا کہ گھر میں صرف بچوں کے لیے تھوڑا ساکھانا ہے۔ صحابی نے کہا کہ بچوں کو کسی بہانے سے سلا دو اور چراغ بھی بہانے سے بجھا دینا، مہمان کے آگے کھانا آئے گا تو وہ اندھیرے میں سمجھے گا کہ ہم بھی اُس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں۔ اس طرح اللہ کے اس بندے نے گھر والوں کے ساتھ رات فاقے میں گزاری۔ اس قسم کے ایثار کی توفیق ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، اللہ جسے چاہے ہدایت عطا کرے اور جسے چاہے توفیق دے۔ ایسے ہی اللہ کے بندے اپنی نیکی اور احسان کو سامنے والے کے سامنے جتاتے بھی نہیں کہ کہیں ہماری نیکی ضائع نہ جائے اور سامنے والا شرمندہ بھی ہو، جیسا کہ مذکورہ بالا واقعے سے ظاہر ہے۔ ہر بندے کی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی طاقت، اپنی ذہانت یا اپنے وسائل سے نیک نیتی سے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی رب سے توفیق مانگے۔ میں یہاں استانی کنیز فاطمہ کا ذکر ضرور کروں گی۔ یہ خاتون گرچہ بیمار ہیں، وسائل کی کمی ہے، بہت سی پریشانیوں میں مبتلا رہتی ہیں، لیکن اللہ نے انہیں دینِ اسلام کی تعلیم سے نوازا ہے جو کسی خزانے سے کم نہیں۔ ان کی ہر گھڑی یہ کوشش اور دعا رہتی ہے کہ اللہ مجھے اس علم کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور نیک نیتی کی بدولت اللہ نے انہیں ہمت اور توفیق عطا کی ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم دوسروں میں تقسیم کررہی ہیں (اللہ انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے)۔
اس خاتون سے ہمیں بھی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں، اور اللہ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم کسی کی مدد نہیں بھی کرسکتے تو اُس کے لیے آسانیاں پیدا کریں، مشکلات نہیں… ایک دوسرے کو آسانیاں فراہم کرنا بھی عبادت ہے۔ مثلاً راستے میں گند، کچرا نہ پھیلائیں، اپنی گاڑی ایسی جگہ پارک نہ کریں کہ دوسروں کو دشواری ہو، اپنے گھر میں T.V وغیرہ کی آواز اونچی نہ رکھیں کہ پڑوسیوں کو بے آرامی ہو، غریبوں کے سامنے خصوصاً اپنے مال و دولت کی نمود و نمائش سے پرہیز کریں تاکہ انہیں دکھ و تکلیف نہ ہو، گھر میں بزرگ ہیں تو ان کے آرام و سکون میں خلل نہ پیدا کریں وغیرہ وغیرہ۔ گزشتہ دنوں ایک چھوٹا سا واقعہ پڑھنے کا موقع ملا جسے آپ سے ضرور شیئر کروں گی، کہ اللہ ہمیں بھی اس طرح کرنے اور اس طرح کی سوچ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے…
دو سگے بھائیوں میں سے بڑے بھائی کی مالی پوزیشن مستحکم تھی، جبکہ چھوٹا بھائی بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ دونوں بھائی آپس میں ملتے جلتے، لیکن چھوٹا، بڑے بھائی سے یوں لگتا کہ کتراتا ہے۔ بڑے بھائی نے ایک بزرگ سے اس بارے میں پوچھا تو بزرگ نے فرمایا: تُو بڑا ہے اور مالدار بھی، اللہ نے تجھے بہت کچھ دیا ہے، تُو اپنے اندر یہ توفیق پیدا کر کہ جب اپنے چھوٹے بھائی سے ملے تو نہ صرف خندہ پیشانی سے ملے بلکہ اسے پیار سے کوئی ہدیہ بھی دے تو وہ ضرور تجھ سے خوش ہوگا…
بڑے بھائی نے سوچا تو اسے واقعی شرمندگی ہوئی کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں سوچی۔ لہٰذا اگلی بار جب وہ چھوٹے بھائی سے ملا تو بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا، جس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا۔ محبت اور ہدیہ دینے کی توفیق اللہ بندوں میں پیدا کرے۔ اپنے لیے رب سے دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ رب العزت ہمیں یہ توفیق عطا کرکہ ہم اپنی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچائیں۔ اللہ ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم رزقِ حرام اور گناہوں کے کاموں سے محفوظ رہیں۔ اللہ ہمیں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو کرنے کی توفیق عطا کر، اور اللہ ہر وہ کام ہم سے لے جس سے تُو راضی ہوجائے۔ ہمیں اپنی اولاد کی بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنے کی توفیق عطا کر… یقین کریں رب العزت بڑا کریم ہے۔ ہم ارادہ کریں گے تو وہ ضرور ہمیں توفیق و ہدایت عطا کرے گا۔ وہ ہمارے لیے ایسے اسباب پیدا کرے گا کہ ہم آسانی سے ہر نیک کام کو کرنے کی توفیق حاصل کر پائیں گے۔
غرض کہ نیک کام کی توفیق کے لیے بھی اپنے رب سے دعا کرنی چاہیے۔