ڈاکٹر نثار احمد نثار
زبان و ادب کی ترقی میں کراچی پریس کلب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس ادارے کے تحت روزانہ کی بنیادوں پر مختلف موضوعات پر تقاریب ہوتی رہتی ہیں اسی تناظر میں جمعرات 24 اکتوبر کو ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی صدر نے کی۔ رضوان اور مبشر میر مہمانان خصوصی تھے‘ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس ادبی نشست کا موضوع تھا ’’پاکستانی بیانیہ اور ابلاغِ عامہ‘‘ منیف رضا نے کہا کہ کیا ہم مغرب کے بیانیے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بیانیہ زندہ رکھ پائیں گے۔ راشد عزیز نے کہا کہ قوموں کے عروج و زوال میں زبان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم ایک آزاد ملک تو ہیں لیکن ہمارے اوپر غیروں کا تسلط ہے‘ ہم پاکستانی بیانیے کو رائج کرنے میں ناکام ہیں‘ ہمیں اس بیانیے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے تاکہ ہم ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو سکیں۔ زاہد حسین نے کہا کہ ہم انگریزی بولتے ہیں‘ ہمارے بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں‘ ہمارا تعلیمی نصاب مغربی اقدار سے جڑا ہوا ہے‘ ہمیں اس کے حصار سے نکلنا ہوگا اور آنے والی نسلوں کو پاکستانی بیانیے سے جوڑنا ہوگا۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے کہا کہ بیانیے کا مطلب اپنے ہونے کا اعلان کرنا ہے۔ بیانیہ علم لسانیات بھی ہے اور علم ریاضیات کا حصہ بھی۔ ہر ملک کا بیانیہ اس کی ترقی کا ضامن ہے پاکستانی بیانیہ ایک تحریک ہے‘ یہ پاکستان کے تمام طبقات کو جوڑنے کا نام ہے‘ ہمیں اس طرف سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہے ورنہ آنے والے وقتوں میں ہم اور بھی مشکلات میں گھر جائیں گے۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ بہ حیثیت پاکستانی ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستانی بیانیے کی تحریک میں شامل ہوں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی ایک عرصے سے پاکستانی بیانیے پر کام کر رہے ہیں کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی اس حوالے سے قابل مبارک باد ہے کہ اس نے پاکستانی بیانیے کے سلسلے میں ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ اس محفل میں بہت اہم شخصیات موجود ہیں امید ہے کہ یہ تحریک آگے بڑھے گی۔ مبشر میر نے کہا کہ آج کی تقریب میں شریک ہر شخص ایک ادارہ ہے‘ یہ بڑی کامیاب نشست ہے۔ انہوں نے مذاکرے کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ نو آبادی نظام کے اثرات ہمیشہ چلتے رہے ہیں اور تادیر یہ اثر قائم رہے گا۔ کسی بھی ریاست کا مضبوط ہونا اس کے نظامِ عدل سے مشروط ہے ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھایئے اور پاکستانی بیانیے کی تحریک میں شامل ہو جایئے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ پاکستانی بیانیہ یا قومی بیانیہ وہ ہوگا جو ہمارے ملک کی تہذیب و تمدن سے جڑا ہوگا‘ پاکستانی بیانیہ اردو بیانیہ نہیں ہے پاکستان کی تمام تہذیبوں کو ملا کر پاکستانی بیانیہ بنتا ہے اور یہ کام قومی تعلیمی نصاب کے نفاذ سے ممکن ہے موجودہ پاکستانی نظامِ تعلیم میں تبدیلیاں لایئے تو پاکستانی بیانیہ خود بخود طے پا جائے گا۔ پاکستانیت کو نصاب میں شامل کیجیے اور ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں جاری کر دیجیے یہ اس زمانے کی ضرورت ہے‘ اس طرف توجہ دیجیے۔ پاکستانی بیانیہ نافذ کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنی ہوگی کیوں کہ اس ملک میں بیورو کریسی بہت طاقتور ہے۔
اعجاز رحمانی اب ہم میں نہیں رہے
نعت گوئی اور غزل کے حوالے سے ایک معتبر شاعر اعجاز رحمانی اب ہم میں نہیں رہے‘ وہ طویل علالت کے بعد 26 اکتوبر 2019ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ وہ 12 فروری 1936ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور 1954 کو پاکستان آئے۔ ان کی تصانیف میں اعجاز مصطفی‘ پہلی کرن‘ آخری روشنی‘ کاغذ کے سفینے‘ افکار کی خوشبو‘ غبارِ اَنا‘ لہو کا آبشار‘ لمحوں کی زنجیر‘ چراغِ مدحت‘ جذبوں کی زبان اور خوشبو کا سفر سمیت بہت سی اہم تالیفات بھی شامل ہیں۔
ان کی نماز جنازہ میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی موجود تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ ان کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
بچے ہمارے عہد کے وحشت گزیدہ ہیں
بے وقت کے شعور نے دانائی چھین لی
آئے تو کیسے آئے زبانوں پہ دل کی بات
دورِ منافقت نے تو سچائی چھین لی
میرے لہو میں زہر سماعت اُتر گیا
اندر کے شور نے مری تنہائی چھین لی
خاموش بام و در ہیں دریچے اداس ہیں
کس نے مرے مکان کی گویائی چھین لی
٭
سونے نہ دیا ہم کو زنداںکے نگہبانوں نے
جب آنکھ ذرا جھپکی زنجیر ہلا دی ہے
٭
ہو گا کل احتساب پتھر کا
آج تو آئنے کی باری ہے
٭
کل رات میں مدد کے لیے چیختا رہا
نکلا مگر نہ میرا پڑوسی مکان سے
٭
نسیم شیخ کی کتاب ’’موجِ نسیمی‘‘ کی تقریب پزیرائی اور مشاعرہ
۔22 اکتوبر بروز منگل نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام نسیم شیخ کے مجموعہ کلام ’’موج نسیمی‘‘ کی تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیاگیا۔ اس پروگرام کے صدر پروفیسر جاذب قریشی تھے۔ رونق حیات اور ڈاکٹر شاداب احسانی مہمانانِ خصوصی تھے۔ حجاب عباسی‘ غلام علی وفا اور سلمان صدیقی مہمانانِ اعزازی تھے۔ واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کے پہلے حصے میں نسیم شیخ کے فن اور شخصیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے رونق حیات نے کہا کہ نسیم شیخ ایک سینئر شاعر ہیں جو کہ ہمارے ادبی منظر نامے میں متحرک نظر آتے ہیں‘ یہ زود گو شاعر ہیں‘ ان کی حوصلہ افزائی کرنا قابل ستائش اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہو‘ لیکن یہ ادارہ اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ قلم کاروں کے مسائل بڑھ رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ نسیم شیخ علم عروض سے واقف ہیں‘ موجِ نسیمی سے پہلے ان کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ زبان و ادب کے لیے مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر صنف سخن کلچر سے جنم لیتی ہے جو بھی صنفِ سخن اپنے معاشرے سے نہیں جڑ پاتی وہ ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو وہ دوہے سے جڑ گئی ہے اسی لیے غزل کا ہر شعر ایک نظم کے برابر ہے۔ اس کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون سمویا جاسکتا ہے۔ فی زمانہ غزل کے ساتھ ساتھ دوسری اصنافِ سخن پر بھی کام ہو رہا ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ لوگ شاعری سے جڑے ہوئے ہیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ آج کی تقریب بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ہم نسیم شیخ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جن کی شاعری میں امیجنری پائی ہے ان کا اسلوب بہت سادہ اور پُرکشش ہے انہیں لفظوں کی نشست و برخواست کا سلیقہ آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ نسیم شیخ مزید ترقی کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سخاوت علی نادر نے اپنی تنظیم نگار ادب کے تحت بہت اچھے اچھے پروگرام منعقد کیے ہیں ان کے ساتھی بھی ادب سے مخلص ہیں ان کے پروگرام کراچی کے تمام علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں ان کے مشاعروں میں سامعین بھی موجود ہیں آج کی یہ تقریب ایک کامیاب تقریب ہے۔ اس موقع پر شاعر علی شاعر نے کلماتِ تشکر پیش کیا جب کہ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ کراچی میں بہت سی ادبی تنظیمیں قائم ہیں تاہم ان میں باہمی اشتراک نہیں ہو پارہا جب کہ ادب کے فروغ کے لیے قلم کاروں کا اتحاد ضروری ہے۔ صاحبِ اعزاز نسیم شیخ نے کہا کہ وہ نگارِ ادب پاکستان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں یہ پروگرام ترتیب دیا۔ امیدہے کہ نگار ادب کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اس تقریب میں محمد عمر علی نے تلاوتِ کلام ِمجید کی سعادت حاصل کی جب کہ واحد رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ بیٹھک بہلول گلشن اقبال کراچی کی اس تقریب میں صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ زاہد حسین‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ احمد سعید خان‘ رشید طالب‘ زیب النساء زیبی‘ جمیل ادیب سید‘ آصف حسین آصف‘ نطر فاطمی‘ شاعر علی شاعر‘ چاند علی‘ شائق شہاب‘ تنویر سخن‘ سعد الدین سعد‘ یاسر سعید صدیقی‘ حنیف عابد‘ مجید محور‘ سراج الدین سراج‘ سخاوت علی نادر‘ نسیم شیخ‘ کامران مغل اور الیاس شامی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ بزم نگار ادب پاکستان کی جانب سے نسیم شیخ کو شیلڈ پیش کی گئی۔
کربلا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ پروفیسر شاداب احسانی
کربلا حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ رثائی ادب میں کربلا کا تذکرہ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ جب خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا گیا تو حضرت امام حسینؓ نے اسلامی اقدار کی بحالی کے لیے کربلا میں اپنی اور 72 ساتھیوں کی جانیں قربان کرکے ہمیں یہ سبق دیا کہ حق و صداقت کا پرچار عین عبادت ہے۔ حسینی راستے پر چل کر ہم دین اسلام کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے سلام گزار ادبی فورم کے تحت ڈاکٹر حسن عباس کی رہائش گاہ پر ’’محفل مسالمہ‘‘ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رثائی ادب نے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے لیے مجالس کا انعقاد ہماری تہذیب کا حصہ ہے‘ ہر زمانے میں ذکر حسین ہوا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ اس محفل سلام میں جن شعرا نے حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا ان میں صاحبِ صدر کوثر نقوی‘ اختر سعیدی‘ عقیل عباس جعفری‘ سردار محشر لکھنوی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ سمیع نقوی‘ خمار زیدی‘ اختر رضوی‘ زیب النسا زیبی‘ زاہد حسین سید‘ ضیا زیدی‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ شجاع الزماں‘ وسیم عباس‘ رئیس حیدر زیدی‘ ذوالفقار حیدر پرواز اور ناظم مشاعرہ الحاج نجمی شامل تھے۔ ناظم مشاعرہ نے کہا کہ ا س طرح کی محفلیں رثائی ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے بہت ضروری ہیں نیز محفل ِ سلام میں شریک ہونا باعث ثواب ہے۔ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اہلِ بیت کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ حسن مظاہر زیدی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ غمِ حسین ہماری زندگی کا محور و مرکز ہے‘ ہم کربلا سے بہت کچھ سیکھتے ہیں‘ اہل بیت کی محبت سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔اس وقت ساری دنیا میں دو بڑے بڑے طبقات ہیں ایک حسینی اور دوسرا یزیدی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم اہلِ بیت کے ساتھ ہیں تو ہمیں دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہوگی۔