مناہل امجد
ایک بہت بڑے گھنے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا جنگل بھی تھا جس کو اونچے اور نیچے پہاڑوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا اس کے بیچوں بیچ ایک تالاب بھی تھا جس پر اس منی جنگل کے چرند پرند پانی پیا کرتے درختوں کے سائے تلے آرام بھی کرتے یہ جنگل کیا ایک ایسا خوبصورت وادی تھی جہاں سکون تھا کسی کو کسی کا خوف نہیں تھا دراصل اس چھوٹی بستی میں جنگل کے بادشاہ شیر کا گزر نہیں تھا یعنی بغیر بادشاہت کے گزارا ہو رہا تھا۔ مگر یہ کیسے ممکن تھامعاملہ یوں ہی چلتا رہے ایسے میں بندر میاں کو شہزادہ کہلوانا شروع کر دیا نا صرف کہلوانا شروع کر دیا بلکہ وہ روز شام کے وقت اس انداز سے نکلتا جیسے کوئی شہزادہ جا رہا ہے جب جانووں نے اس کے اس عمل پر کوئی توجہ نہیں دی تو بندر میاں نے اپنے سے کمزور جانوروں کو سنانا بھی شروع کر دیا تاکہ وہ اس کے فرماں بردار بن جائیں اس طرح بہت سے جانوروں نے اس کی حکمرانی تسلیم کرلی تو اس نے ایک روز ایک اجلاس عام طلب کیا اس میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا جنگل کے باسی حیران تھے کہ بندر کو کیا سوجی جو بادشاہ بن بیٹھا ایک گیدڑ نے کہا کہ بھائی بندر جنگل کی بادشاہت کا حق تو شیر کو حاصل ہے آپ کیسے بادشاہ ہو سکتے ہو آپ اپنے آپ کو شہزادہ کہلاتے کہلاتے بادشاہ بن گئے بندر نے کہا ٹھیک ہے جنگل کا بادشاہ تو شیر ہی ہوتا ہے لیکن کوئی شیر نہیں ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ متحرک ہوں تمہارے کام آسکتا ہوں میری بادشاہت سے تم کو فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں شکر کرو یہاں شیر کی بادشاہت نہیں ورنہ تمہارا جینا حرام ہو جاتا اسے تو روز اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ایک تازہ دم شکار مطلوب ہوتا اور تم اس کے پیٹ کا ایندھن بنتے میری بادشاہت میں ایسا نہیں ہوتا سکون سے رہو اور مزے کرو اس طرح بندر کی من چاہی بادشاہت کا سکہ چلنے لگا اور جانور اس احکامات کو بجا لانے کو تیار رہتے اس طرح بندر بادشاہ کے تو مزے ہی آگے اب تو اپنے کھانے کے لیے بھی نہیں نکلے ایک اونچے درخت پر اپنے محل میں بیٹھ کر حکم دیتے کہ میرے کھانے کے لیے وہ چیز لائی جائے اور فوری لائی جائے بندر نت نئی فرمائشوں سے سب بے زار ہو گئے اور سوچنے لگے کس طرح اس مصنوعی بادشاہت سے نجات حاصل کی جائے۔
تمام چرند پرند بندر کی بادشاہت سے پریشان تھے اور دعا کررہے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات ملے کہ ایک روز جنگل کے اصل بادشاہ شیر کی ایک بھرپور دھاڑ سنائی دی سب اس طرف متوجہ ہو گئے بادشاہ سلامت نے فوری طور پر دربار طلب کیا اور کہا کہ جنگل کا یہ گوشہ ہماری نظروں سے اوجھل رہا اب ایسا نہیں ہو گا ہماری حکمرانی ہو گی اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی سب جانوروں کے درمیان بیٹھا نقلی بادشاہ بھی یہ کارروائی دیکھ رہا تھا اور سہما جا رہا تھا لومڑی ایک چالاک جانور ہے بول پڑی بادشاہ سلامت یہاں تو بندر نے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا ہوا ہے اور وہ ہم پر مظالم ڈھاتا ہے ہمیں اذیت پہنچاتا ہے ہماری زندگی عذاب بنی ہوئی ہے یہ سن کر بادشاہ سلامت نے بندر کی طرف غضب ناک انداز میں دیکھا اور اپنے قریب بلا کر پہلے تو خوب ڈانٹا کہ تم کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنی بادشاہت کا رعب جمائو، سب کو تکلیف پہنچائو تمہاری غیر قانونی بادشاہت کی سزا یہ ہے آج سے تم سب جانوروں کے خادم ہو ان کے آرام اور خوراک کا خیال رکھو گے ان کے درمیان انصاف کرو گے اس طرح سے مصنوعی بادشاہت کے خاتمے سے جنگل کے پاسیوں نے سکھ کا سانس لیا۔