قائد اعظم علی جناح اور مہاتما گاندھی بلاشبہ برصغیر پاک ہند کی جدوجہد آزادی کے لازوال کردار ہیں۔ جن کی ولولہ انگیز جدوجہد کی بنیاد پر ہی سرکار برطانیہ کو مجبور ہوکر ہندوستان تقسیم کرنا پڑا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کی جدوجہد میں فرق صرف اتنا ہے کہ مہاتما گاندھی کی تمام جدوجہد کا مقصد انگریز سے آزادی تھا۔ وہ ہندوستان کو آزاد تو دیکھنا چاہتے تھے مگر منقسم ہندوستان نہیں۔ جبکہ قائد اعظم علی جناح کی تمام سیاسی جدوجہد کا مقصد انگریز اور ہندو بالادستی دونوں سے مکمل طور پر آزادی تھا۔ اس اعتبار سے قائد اعظم علی جناح کو بیک وقت دو محاذوں پر جدوجہد کرنا پڑی۔ آزادی کے جدوجہد کے پہلے حصے میں مہاتما گاندھی اور قائد اعظم دونوں ایک پیج پر تھے یعنی کہ بہر طور انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔ مگر جدوجہد کا دوسرا حصہ زیادہ دشوار اور صبر آزما تھا جس میں گاندھی جی اور قائد اعظم علی جناح ایک دوسرے کے حریف تھے۔
انگریز سرکار نے ہندوستان کو آزادی تو دے دی مگر ساتھ ہی ساتھ جب تک انگریز کو یہ یقین نہیں ہوگیا کہ اس کے وفادار یعنی انگریز سرکار( حکومت برطانیہ ) کے خیر خواہ کابینہ میں موجود ہیں حکومت حوالے نہیں کی۔ سازشوں کے اس گندے کھیل کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہندوؤں کے لئے آزادی کی جدوجہد کا ہیرو ، جو ہر اعتبار سے ان کے لئے دیوتا کا درجہ رکھتا تھا اس گاندھی کو آزادی کے صرف پانچ مہینے بعد 30 جنوری 1948 کو قتل کروا دیا گیا۔ ہر چند کہ قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سولی پر لٹکایا جاجکا مگر یہ سوال اپنی جگہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا کہ نتھو رام گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے تھا کہ نہیں۔؟ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مہاتما گاندھی جیسی تاریخی شخصیت کے قتل کے بعد اس وقت کے ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نیہندو مہاسبھا آر ایس ایس پر عارضی پابندی بھی عائد کی تھی۔ اگر تو قتل کرنے والوں کا تعلق ہندو شدت پسند تنظیم سے نہیں تھا تو پھر ہندو مہاسبھا آر ایس ایس پر پابندی کا جواز کیا تھا ؟ عدالتی کاروائی کے ریکارڈ کے مطابق دوران جرح ملزم نتھو رام گوڈسے نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ گاندھی قیام پاکستان کے لیے ذمہ دار تھے اور مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ ’میں نے اس شخص پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے لاکھوں ہندوؤں کو بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔
‘ نتھو رام کے اس اقرار کے علاوہ بھی ایک بات جو زد عام تھی وہ یہ کہ گا ندھی جی عنقریب ‘ پاکستان ” کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ قائد اعظم سے ملاقات کے علاوہ دونوں نوآزاد مملکتوں کے تعلقات کو بہتر رکھنے پر بھی بات کریں گے۔ ( گاندھی جی کا یہی وہ خطرناک فیصلہ تھا جو متعصب ہندو اور انگریز حکومت دونوں ہی کے لئے ناقابل قبول تھا ) تھامس ویبر کی حال میں شائع ہونی والی ایک کتاب ‘گاندھی ایز ڈسائپل اینڈ منٹور’ میں مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ” گاندھی کی زندگی میں ایک ایسا دور آیا کہ وہ عیسائی اور اسلام مذہب کے ماہرین کے قریب آئے، ان کے دماغ میں مذہب تبدیل کرنے کا خیال بھی آیا لیکن انھوں نے سوچا کہ پہلے اپنے مذہب کو مناسب طریقے سے سمجھنے کے بعد ہی وہ ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے۔” گاندھی جی کے قتل کا معمہ ابھی تک زندہ ہے۔حال ہی میں ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہو ل گاندھی نے چند برس قبل انتخابات کے دوران یہ بیان دیا کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا۔ جس کے جواب میں شدت پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس نیراہول گاندھی کے خلاف عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔ جس پر راہو ل گاندھی نیمقدمہ خارج کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ راہول کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جو کچھ راہل گاندھی نے کہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے، اور حکومت کے ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گاندھی جی کے قتل پر ہونے والی اس نئی عدالتی بحث پر راہول گاندھی پر ہتک عزت کا مقدمہ چلتا ہے یا پھر گاندھی جی کے سیاسی قتل کے درپردہ محرکات کی قلعی کھلتی ہے۔ اگر اس مقدمے کی کاروائی آگے بڑھتی ہے تو پھر یقینا آزاد ہندوستان کے پہلے سیاسی قتل کی تمام پرتیں اور باریکیاں دوبارہ سے قانون کی کسوٹی پر پرکھی جا سکیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں گاندھی جی کوایک زیرک مدبر ،سیاسی رہنما اور ہندو دھرم کے عقائد و جذبات کو ابھارنے والی شخصیت کے طور پر جانا مانا جاتا تھا اور جانا جاتا رہے گا۔ گاندھی کی تمام زندگی سیاسی جدوجہد اور ہندوستانی عوام کو ان کا حق دلانے کی کوششوں سے عبارت ہے۔ 1893 سے 1914 کے عرصے تک گاندھی جنوبی افریقہ میں مقیم تھے جہاں انھوں نے ہندوستانی عوام کے حقوق کے لیے مہم چلائی- یہ وہ وقت تھا جب کے سفید فام انگریز کالے مقامی افریقنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ اس حوالے سے ان کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب’ساؤتھ افریقن گاندھی اور ا سٹریچر بیریئر آف ایمپائر‘ میں نہایت وضاحت کے ساتھ سا ؤ تھ افریقہ میں ان کے قیام ،کردار اور جدوجہد پر ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین کے مطابق جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران گاندھی نے ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو ’افریقیوں اور افریقی نڑاد مختلف مخلوط نسل کے لوگوں کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے الگ رکھا تھا۔ اگرچہ افریق? میں بسنے والے ہندوستانیوں کے سیاسی حقوق بھی ان کی رنگت اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کے زیر اثر ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیے گئے تھے۔ گاندھی جی افریق? میں بسنے والے مقامی افریقنز کو وحشی اور اجڈ تصور کرتے تھے جبکہ ان کے مقابلے پر ساؤتھ افریقہ میں آباد ہندوستانی باشندوں کو مقامی افریقنز سے بہتر قرار دیتے تھے۔ اس طرح گاندھی جی نے نسلی امتیاز برتے جانے والے رویے پر انگریز کی حمایت کی تھی۔ 1893 میں اپنے قیام کے دوران ساؤتھ افریقہ کی سفید فام پارلیمنٹ کو لکھے گئے ایک خط میں گاندھی لکھتے ہیں کہ ’برطانوی نو آبادیوں میں عام تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ ہندوستانی دوسروں سے بہتر ہیں، اور اگر ایسا ہے تو وہ وحشی افریقی باشندوں کے مقابلے میں واقعی بہتر ہیں”۔ اس بارے میں ان کا ایک اور خط جو منظر عام پر آیا وہ تھا ایک کچی آبادی جو کولی لوکیشن کے نام سے موسوم تھی اس کچی آبادی میں ہندوستانیوں کے ساتھ افریقیوں کی بھی بڑی تعداد آباد تھی۔ 1904 میں گاندھی جوہانسبرگ کے صحت کے ادارے کے ایک عہدیدار کو لکھتے ہیں کہ “کونسل سے ’کافروں کو ہر صورت نکالا جائے۔ مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہندوستانیوں اور کافروں کے ایک ساتھ رہنے پر مجھے شدید تحفظات ہیں۔‘ ( کافروں سے ان کی مراد مقامی کالے افریقن تھے ) اس میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ہندوستانی باشندوں کے لئے ان کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گاندھی جی نے اپنے ساؤتھ افریقہ میں اپنے قیام کے دوران کبھی بھی مقامی افریقنوں کے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔اس کے برعکس انہوں نے افریقی باشندوں پر زیادہ محصولات لگانے کی حمایت کی اور حکمرانوں کی جانب سے ان باشندوں پر کیے جانے والے مظالم پر آنکھیں بند کئے رکھیں۔ گاندھی جی کی شخصیت کے دو پہلو ہیں ایک جانب تو ہندوستانیوں کے حقوق کا محافظ دکھا ئی دیتے ہیں۔دوسری جانب افریقی باشندوں کے لیے آواز نہ اٹھاکر سفید فام اقلیتی حکمرانوں کے حمایتی ہیں۔ گاندھی جی کی شخصیت پر مزید بھی بات ہو سکتی ہے مگر طوالت سے بچنے کیلئے موضوع پر ہی رہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ تاہم تحریک آزادی ہندوستان کے اس عظیم رہنما کے سیاسی کارناموں سے انکار ممکن نہیں۔ اپنے جنوبی افریقا میں قیام اور وکالت کی پریکٹس کے دوران گاندھی جی نے ساؤتھ افریقہ میں آباد ہندوستانیوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے سول نافرمانی کا استعمال کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپس چلے آئے اور کسانوں اور ہاریوں مزدوردں کے ساتھ محصولات کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالی۔ بھارت کو انگریز سے آزاد کروانے کے لئے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لئے انگریز حکومت پر دباؤ ڈالنے کی خا طر عدم تعاون تحریک کی ابتداء کی۔ 1942ء میں انہوں نے بھارت چھوڑو سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ اس طویل ترین جدوجہد کے دوران ہندوستان اور ساؤتھ افریق? دونوں ہی جگہ قید و بند کی سختیاں بھی برداشت کیں۔ اور اپنے دیس کو انگریز کے چنگل سے لئے آزاد کروانے کے لئے دن رات ایک کرد ئیے انگریز نے ہندوستان سے جو حاصل کرنا تھا وہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے خوب پیٹ بھر کر حاصل کرلیا تھا مگر اب بھی جاتے جاتے بہت کچھ اپنے حق میں کرنا چاہتا تھا ہندوستان میں انگریز کو مہاتما گاندھی اور جوہر لال نہرو میں سے کسی ا یک کا انتخاب کرنا تھا۔ بوڑھا اور ضدی گاندھی انگریز سرکار کے لئے بھی خطرہ بنتا جارہا تھا اس کے مقابلے پر نہرو نسبتاً جوان اور انگریز کے زیادہ قریب تھا۔ مذہبی اعتبار سے تو گاندھی جی کا کوئی نعم البدل نہیں تھا مگر انگریز سرکار کی ترجیح تھی کہ نہرو ہی انگریز کے اشاروں پر بلا چوں چرا کام کرسکتا ہے۔ پھر مہاتما گاندھی قتل کروادیئے گئے یہ سانحہ جاننے کے لئے آپ کو ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ 1933 میں کے ایماء پر حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا تب بھی گاندھی جی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کانگریس کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ چناچہ انگریز نے نہرو پر اعتماد کیا اور گاندھی جی کو مروانے کا فیصلہ کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 30 جنوری 1948ء کو گاندھی جب ایک مذہبی تقریب میں خطا ب کے لئے اسٹیج کی جانب بڑھے قاتل نتھو رام گوڈسے نے اپنی دھوتی میں چپے پستول سے یکے بعد دیگرے چار گولیاں ان پر داغ دیں۔ بناء کسی طبی امداد کے مہاتما گاندھی کی روح پرواز کرگئی۔ نتھو رام گوڈسے کا تعلق ایک ہندو قوم پرست اور دہشت گرد تنظیم ہندو مہاسبھا سے تھا۔ یہ تنظیم سمجھتی تھی کہ گاندھی پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں گوڈسے اور اسکا ساتھی سازش کار نارائین آپٹے کو عدالتی کارروائی کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئی دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں’ ہائے- رام ‘لکھا ہوا ہے۔ ہائے کی جگہ ہندو تاریخ نگاروں نے ‘ہے رام’ لکھا اور کہا کہ یہ گاندھی کے آخری الفاظ ہیں۔ جبکہ حقیقت یوں ہے کہ گاندھی کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ” ہائے۔رام !” تاریخی بددیانتی اور خیانت ہے کہ ہائے کا لفظ دانستہ حذف کردیا گیا۔ گاندھی کا قتل کسی طور پر بھی اچانک اور جذباتی عمل نہیں تھا۔ یہ ایک سوچا سمجھا اور دور رس منصوبہ تھا۔ اس سے پہلے بھی گاندھی پر تین بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ جب انھوں نے کانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا۔
nn