دلنشیں

350

مریم روشن

بڑی بھابھی بریانی کے ہر دوسرے لقمے کے بعد اپنی قرآن کلاس کا احوال شروع کردیتیں، جس میں ابھی کچھ ہی دن پہلے جانا شروع کیا تھا۔ ان کو داستان گوئی میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ بات شروع کرتیں سوئی دھاگے سے اور اختتام ہوتا سوئی گیس کے مقام کی اہمیت اور ملکی مسائل پر سیر حاصل گفتگو پر۔ سنانے کا انداز اتنا دل چسپ کہ سب دم بخود سنتے ہی چلے جاتے۔ وہ آواز کے اتار چڑھائو سے ایک سماں باندھتیں، یہاں تک کہ کبھی چولہے پہ رکھی ہنڈیا کے جلنے کی بُو، کبھی اطلاعی گھنٹی، تو کبھی کسی بچے کی لڑائی سے سلسلہ تھمتا۔ اور سب ہڑبڑا کے کہانیوں کے سحر سے نکل کر معمول کے کام شروع کرتے۔
مگر آج تو بات ہی اور تھی۔ سلیقے سے دوپٹہ ماتھے پہ جمائے وہ بڑے بھیا کو قصہ سنا رہی تھیں۔ مارے عقیدت کے رائتے کا چمچ اپنی پلیٹ میں ڈالنے کے بجائے برابر بیٹھی مونا کی پلیٹ میں ڈال رہی تھیں، جو خوشی خوشی رائتہ پی رہی تھی کہ بریانی اس کو سخت ناپسند تھی، اور آج اماں جوش میں چاول کے بجائے صرف رائتہ پلائیں تو بھلا اس سے مزے کی بات کیا ہو!
’’کیا منظر ہوتا ہے، گویا کہ فرشتے صفیں باندھے ہمارے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں، اور پھر مدرسے کا انداز، گلابی دوپٹے پہ لگی روپہلی بیل میں دمکتا پُرنور چہرہ، اور جب آخرت کے متعلق آیات پڑھتی ہیں تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں بھئی، لیکن کیا کہنے۔ اپنے آپ کو دعوتِ دین کے لیے وقف کرلیا پے۔ ہلکی سی بالیاں کان میں، دو چوڑیاں ہاتھ میں۔‘‘
قصہ دیر تک چلتا لیکن بڑی اماں نے قہوے کی فرمائش کردی تو اٹھ گئیں۔ اُس دن سے تو سارے گھر کی شامت ہی آ گئی۔ صبح شام قرآن کلاس کے بارے میں باتیں ہوتیں۔ مس اساورہ، ان کے دھیمے لہجے، ان کے لباس، زیور، خاندان، سبھی کا ذکرِ خیر ہوتا۔
’’یااللہ بھابھی آپ تو اساورہ بیگم پہ پی ایچ ڈی کرلیں۔‘‘ منجھلی بھابھی نے تنگ آکر کہا۔
اُس دن بھی بڑی بھابھی اپنے میاں صاحب کو شام کی چائے کے ساتھ مس اساورہ کی خوش مزاجی کے بارے میں بتا رہی تھیں کہ بی اماں نے بلایا۔
’’جی اماں!‘‘
’’لگتا ہے جوئیں چڑھ گئی ہے۔ ہمارے بالوں میں ذرا تیل ڈال دو۔‘‘ بی اماں نے بے چینی سے کہا۔
’’جی اماں ڈالتی ہوں۔‘‘
بڑی بھابھی نے دھیمے ہاتھ سے تیل لگانا شروع کیا۔
’’واہ کیا سکون مل رہا ہے۔ اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ سنہری کناری لگے دبیز تخت پوش پہ عنابی مخمل کے گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ہماری دادی جان آسمانی غرارے میں چاندی سا پان دان کھولے بیٹھی ہوتیں۔ ایک سبز پتا اٹھا نفاست سے کتھا، سونف سجا منہ میں رکھتیں۔ مہندی رچی سرخ ہتھیلی، کان میں چنبیلی، کاجل سے سجی آنکھیں، موٹا سنہری پراندہ۔ جب اٹھتیں تو پاؤں کی پائل دھیمے سے آواز دیتی۔ ہم وہیں ان کے پاس جا لیٹتے تو چاندی کے پیالے میں تین تیل ملا کے اپنی نرم نرم انگلیوں سے ہمارے سر میں لگاتیں۔ دھیمی سی موتیا چنبیلی کی خوشبو سے سانس مہکنے لگتی۔‘‘
بڑی بھابھی کو جتنا قصے سنانے کا شوق تھا، اتنا سننے کا بھی تھا، ماضی کے دل فریب دور میں کھو سی گئیں۔
’’امی! امی!‘‘ مونا بھاں بھاں کرتی آئی تو ان کو یاد آیا۔
’’امی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’اچھا اماں میں ذرا بچوں کو کچھ کھانے کو دوں۔‘‘ تیل کی بوتل کو ڈھکن لگاتے اٹھیں۔ ’’آپ کے قصے سن کے اتنا اچھا لگتا ہے، دل چاہتا ہے بس یوں ہی سنتے رہیں، عجیب سا سرور، بعض دفعہ تو لگتا ہے آنکھوں میں کاجل کی دھار ڈالے کوئی دوشیزہ مہندی لگی ہتھیلی،گجرے پہنے ابھی پردے سے جھانکے گی۔‘‘ بڑی بھابھی نے خوشگوار لہجے میں اماں بی سے کہا۔
’’بہو رانی! جب دور دیس کے اَن دیکھے قصے کہانیاں تمہارے تصور میں یہ رنگ بھرتے ہیں تو اپنے میاں کے سامنے جو نقشہ تم کھینچتی ہو، اس کو کیا محسوس ہوتا ہوگا۔‘‘
پاؤں چپل میں ڈالتے بھابھی ایک دم ساکت ہوگئیں۔
’’بیٹے عورت میں مرد کے لیے بے پناہ کشش ہے، اور وہ عورت جس کو آنکھ سے نہ دیکھا ہو صرف کان سے سننا ہو اُس کی تصویر کیا دل فریب بنتی ہوگی۔ تمہاری قرآن ٹیچر ہوں یا سہیلی… قصے سناتے ہوئے ان کا ذکر شوہر، بھائی، بیٹے کے سامنے نہ کیا کرو۔‘‘
’’جی اماں!‘‘ بھابھی کی آواز بالکل دھیمی ہوگئی تھی۔
اماں نے مسکراتے ہوئے قرشیہ کی سلائی اٹھائی اور نواسی کے لیے پرس بُننے لگیں، سر میں خارش تو پہلے بھی نہ تھی، مگر بہو رانی کے نرم ہاتھوں کی مالش نے بڑا سکون دیا تھا۔

چھوٹے چھوٹے ہنر ، وقت کی ضرورت
اقراء سحر

اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہمارے ہاتھ ہیں جنھیں ہم روزمرہ کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن انھیں سمجھ داری سے استعمال کرکے بے شمار فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہی فوائد میں ہاتھ کا ہنر شامل ہے۔ یوں تو اس میں بہت سی چیزیں آتی ہیں مثلاً ہاتھ سے کشیدہ کاری، سلائی وغیرہ، لیکن یہاں ذکر کچھ مختلف قسم کے ہنر کا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں، اور وہ ہے ہاتھ سے بنے پھولوں کے زیورات۔ ان زیورات کو بنانے کے لیے کچھ اجزاء درکار ہوتے ہیں جن کو پکاکر ایک خاص قسم کی ڈو تیار کی جاتی ہے۔ اس ڈو سے ہاتھوں کی تکنیک کے ذریعے انتہائی مہارت سے مختلف اقسام کے رنگوں کے پھول اور پتیاں تیار کی جاتی ہیں، جنھیں موتیوں سے آراستہ کرکے خوب صورت شکل دی جاتی ہے جس میں خواتین کے لیے زیورات مثلاً انگوٹھیاں، پائل،کنگن، ہار، بالیاں وغیرہ شامل ہیں، بنائے جاتے ہیں۔
اس قسم کی جیولری آج کل اسکول، کالج کی بچیوں میں بہت مقبول ہے۔ بچیاں اسے بہت شوق سے نہ صرف خریدتی ہیں بلکہ سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کرتی ہیں۔ اس طرح کی جیولری کا استعمال شادی بیاہ، سالگرہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس ہنر کو سیکھنے کے لیے جہاں چیزیں اور سکھانے والے کا ساتھ ہونا چاہیے وہاں دل چسپی، وقت اور محنت بھی درکار ہوتی ہے۔ مگر تھوڑی سی توجہ سے ایک بار سیکھ لیں تو گھر بیٹھے اسے ذریعہ معاش بنا سکتے ہیں۔ اس مقصدکے لیے زیورات بناکر مختلف مواقع پر ہونے والی نمائش میں بھی رکھے جا سکتے ہیں اور گھر بیٹھے آن لائن ڈسپلے کرکے بھی فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ یہ خوبی بھی اللہ نے بہت کم لوگوں میں رکھی ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی اس خوبی کو پہچان لیتے ہیں وہ اس سے بے شمار قسم کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں، خود کو بااعتماد انسان بناسکتے ہیں۔
آج کل کے دور میں بچیوں کو اس قسم کے چھوٹے چھوٹے ہنر سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی زندگی میں حالات کا بھرپور مقابلہ کرسکیں۔ اب اداروں میں مکمل طور پر ایسے ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں سے کم وقت اور کم پیسوں میں ہنرمند اساتذہ کی زیرِنگرانی یہ ہنر سیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ کرتے رہنا، آگے بڑھتے رہنا ایک باشعور انسان کے لیے بہت ضروری ہے، اور سیکھنے سکھانے کا عمل تو انسان کی زندگی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ اب یہ اُس پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کس انداز میں اپنی زندگی میں شامل کرکے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ ہنر سیکھیں اور سکھائیں، اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو آسان بنائیں۔
nn

بچوں کے منہ اور دانتوں کی صفائی
روزانہ اپنے بچے کے منہ کی صفائی کیجیے، چاہے اسے ایک دانت بھی نہ آیا ہو۔ بچوں کو دودھ پلانے کے بعد ان کے مسوڑوں کی صفائی کیجیے۔ اس مقصد کے لیے آپ انگلی پر گیلا کپڑا لپیٹ کر مسوڑوں پر نفاست کے ساتھ بھی پھیر سکتی ہیں، بس اس دوران یہ دھیان رکھیے کہ بچوں کے مسوڑوں پر زیادہ دباؤ نہ ڈالا جا رہا ہو۔آپ انگلی پر گیلا کپڑا لپیٹ کر مسوڑوں پر نفاست کے ساتھ بھی پھیر سکتی ہیں۔
جیسے ہی بچوں کے دانت نکل آئیں تو روزانہ دن میں 2 بار نونہالوں کے لیے دستیاب خصوصی ٹوتھ برش اور ہلکے (Miled) ٹوتھ پیسٹ سے ان کے دانت صاف کریں، اور جب آپ کے بچے کے 2 دانت ایک دوسرے کو چھونا شروع کردیں تو ان کی دھاگے سے فلاسنگ بھی شروع کردیجیے۔
سوتے وقت فیڈر نہ دیں: جب بچوں کے سونے کا وقت ہو تو انہیں جوس اور فارمولا دودھ سے بھری فیڈر نہ دیجیے، کیونکہ ان میں شکر شامل ہوتی ہے جو ان کے دانتوں پر چپک جاتی ہے اور پھر دانتوں کی سڑن کا سبب بن سکتی ہے۔

کوششوں کے جگنو ہی فصلِ گل اُگاتے ہیں

کرن وسیم (سعودی عرب)
جارحانہ لفظوں سے
خارزار وادی میں
ظلم کم نہیں ہوتا
شر ختم نہیں ہوتا
تار تار آنچل میں
سربریدہ لاشوں میں
زندگی نہیں آتی
تیرگی نہیں جاتی
جارحانہ لفظوں سے
شور کم نہیں ہوتا
درد کم نہیں ہوتا
ماں کی بھیگی آنکھوں میں
انتظار کی گھڑیاں
خون بن کے بہتی ہیں
بے قرار رہتی ہیں
جارحانہ لفظوں سے
زخم دھل نہیں سکتے
قفل کھل نہیں سکتے
بے حسی کی چادر میں
بے ضمیر اندھوں کو
تم سنا نہیں سکتے
کچھ دکھا نہیں سکتے.
جارحانہ لفظوں سے
شامِ غم نہیں ڈھلتی
یاسیت نہیں ٹلتی
مجرمانہ ذہنوں کا
ظلم کے خداؤں کا
کچھ بگڑ نہیں سکتا
حل نکل نہیں سکتا
سوز کے اندھیروں میں
کوششوں کے جگنو ہی
روشنی جگاتے ہیں
زندگی دکھاتے ہیں
راستہ کٹھن ہو تو
اپنے زورِ بازو سے
فصلِ گل اگاتے ہیں
راستے سجاتے ہیں.
جارحانہ لفظوں سے
مشکلیں نہیں ٹلتیں
منزلیں نہیں ملتیں

حصہ