پانی زندگی ہے، اللہ کے نام پر پانی دے دو

1328

قدسیہ ملک
۔’’قریشی صاحب! پانی آیا آپ کے گھر؟‘‘۔
’’نہیں، کہاں آیا! آج 30 روز ہوگئے، پانی کی ایک بوند نہیں آرہی نلکوں میں۔ نہانے، دھونے، وضوکرنے تک کا پانی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہر گلی سے ٹینکر نکل رہا ہے۔ ہماری تو ٹینکر ڈلوانے کی استطاعت بھی نہیں۔ خدا خیر کرے۔‘‘ قریشی صاحب اکرم صاحب کو بتاتے ہوئے روہانسے ہوگئے۔
’’آپ پریشان نہ ہوں، اللہ کرم کرے گا۔ ان شاء اللہ جلد پانی آجائے گا۔‘‘ اکرم صاحب جلدی سے بولے اور گھر کے لیے روانہ ہوگئے، کہ کہیں وہ دوبارہ واٹر بورڈ کو بددعائیں دینا نہ شروع کردیں۔ حقیقت میں وہ خود بھی واٹر بورڈ کی مجرمانہ غفلت پر مسلسل پریشان تھے۔ اسی مسلسل پریشانی کی وجہ سے خرابیِ صحت کے باعث ان کو ڈاکٹر نے ٹینشن لینے سے منع کیا ہوا تھا۔
اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ پانی قدرت کا ایک انمول تحفہ اور ہماری زندگی کا انتہائی اہم جزو ہے۔ پانی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی پلانا بہترین صدقہ ہے۔
بی بی سی کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400 علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی، گوشت خوری میں اضافے اور بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا۔
چلی سے لے کر میکسیکو تک، افریقہ سے لے کر جنوبی یورپ کے سیاحتی مقامات تک آبی مسائل میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ آبی مسائل کا شکار علاقوں یعنی ’واٹر اسٹریسڈ‘ علاقوں کا تعین اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ وہاں موجود پانی کے وسائل کے مقابلے میں وہاں زیرِ زمین ذخائر اور دیگر سطحی ذخائر سے کتنا پانی استعمال کیا جارہا ہے۔
پڑوسی ملک اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت بھی مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان جانے والے دریاؤں کا پانی روک کر آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے، لیکن عالمی برادری اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ کشمیر میں بھارت نے متعدد نئے بند تعمیر کیے اور مسلسل کررہا ہے۔ کشمیر پر قبضہ اور بھارتی آئین کی شق 370کو سبوتاژ کرنا، کشمیریوں کی نسل کُشی اور 48 روز سے کشمیری مسلمانوں پر کرفیو اور مظالم کے پہاڑ توڑنا بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ویسے بھی بھارت زمین سے پانی کھینچ کر استعمال کرنے کے معاملے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں پینے کے پانی کی 80 فیصد ضرورت اسی سے پوری کی جاتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی مدد سے بھارتی بند بازیوں پر توجہ دلائی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اقوام متحدہ زبانی دعووں اور وعدوں سے آگے نہیں بڑھ پارہی۔
وطنِ عزیز پانی کی قلت کے لحاظ سے دنیا کے 15بدترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔ آج کالا باغ ڈیم ملکی ترقی کے لیے نہیں بلکہ ملکی زندگی کے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔ فرینڈزآف پاکستان ڈیموکریٹک پاکستان (FOPDP) نے کچھ عرصہ پہلے کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کا ترجیحی بنیادوں پر ازسرِنوجائزہ لینے کی تجویز دی تھی۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں پاکستانی حکومتیں آبی منصوبوں میں صرف اور صرف دو چھوٹے چھوٹے اضافے کرپائی ہیں جن میں ’غازی بروتھا‘ اور ’ہائیڈروالیکٹریسٹی‘ کی گنجائش میں اضافہ سرفہرست ہے جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ مون سون کی بارشوں میں لاکھوں کیوسک پانی سمندر کے پیٹ میں اتر جاتا ہے اور ہم نے کالا باغ ڈیم کو سیاست کی سُولی پرچڑھا رکھا ہے۔
صوبہ سندھ کے بارہ لاکھ سے زائد آبادی والے صحرائی علاقے تھرپارکر میں زندگی کا تمام تر انحصار مون سون میں ہونے والی بارشوں کے پانی پر ہے، کیونکہ یہاں قلتِ آب کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کبھی بھی حکومتی سطح پر خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ علاقہ گزشتہ دنوں شدید خشک سالی کا شکار ہوا جس کے باعث سو سے زیادہ انسان اور سیکڑوں کی تعداد میں مویشی لقمۂ اجل بنے۔
سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے گنجان آبادی والے شہروں میں سے ایک شہرکراچی کی آبادی تو ہر سال بڑھ رہی ہے، مگر پانی کی فراہمی کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام تادمِ تحریر موجود ہی نہیں۔کراچی میں گزشتہ 13 سال سے پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ کراچی میں یومیہ بارہ سو ملین گیلن پانی کی طلب ہے اور رسد بمشکل پانچ سو ملین گیلن ہے۔ یومیہ 80 ایم جی ڈی حب ڈیم اور باقی کا 420 ایم جی ڈی پانی پیپری سے فراہم کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ ’’کے فور‘‘ کئی سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ قیامت خیز گرمی اور اس پر پانی کی قلت سے کراچی کے شہری شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں بلدیہ ٹائون، اورنگی ٹائون، کیماڑی، حسین آباد اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ واٹر بورڈ حکام کے مطابق شہر بھر میں صرف چھ قانونی ہائیڈرینٹ موجود ہیں جن کو یومیہ اٹھارہ ایم جی ڈی پانی دیا جاتا ہے۔
وزارتِ منصوبہ بندی کے سالانہ پلان 14-2013ء میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 9 فیصد ہے، جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 40 فیصد ہے۔
اسی طرح فلڈ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ 2013ء￿ کے مطابق پاکستان کے مشرقی اور مغربی دریاؤں میں سالانہ 144 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا ہے جس کا صرف 96.8 فیصد حصہ صوبوں کے استعمال میں آتا ہے اور بقیہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایک ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ ’’بحریہ ٹاؤن کراچی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈملوٹی انٹرسیکشن سے 3 انچ قطر کے چار کنکشن جاری کیے گئے ہیں۔‘‘
یہ کراچی کا پانی ہے، اور اس کا رخ بحریہ ٹاؤن کی جانب موڑا جانا پہلے سے پانی کی کمی کے شکار 2 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے مزید مشکلات کھڑی کردے گا، جہاں شہری یا تو ٹینکر مافیا کے ہاتھوں مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں، یا پھر میونسپلٹی کے نلکوں کے سامنے قطاریں بنانے پر۔ محمد سلیم وائس آف انڈیجینیس کمیونٹی امپاورمنٹ نامی تنظیم کے صدر ہیں۔ یہ کراچی اور اس کے مضافات کے اُن مقامی لوگوں کی تنظیم ہے جنہیں اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ محمد سلیم کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے انتہائی گہرے کنویں کھودے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں پانی کا واحد ذریعہ یعنی زیرِ زمین پانی میلوں تک تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔
12 سال قبل سندھ ہائی کورٹ میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور دیگر کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے 567/2004 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (جو کہ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں) نے نیسلے پاکستان کو NaClass No.106، دیہہ چوہڑ، ملیر میں پانی کی بوتلیں تیار کرنے کا پلانٹ لگانے سے روک دیا تھا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے توانائی اور آبی امور کے ماہر جہانزیب مراد کے مطابق اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم نے صرف ایک ڈیم کی گنجائش کو بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن نئے ڈیموں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست کی نذر کردیا ہے، جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی ہم اس ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے سے سب سے زیادہ نقصان سندھ اور جنوبی پنجاب کو ہوگا اور سندھ سے ہی سب سے زیادہ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے ایک بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دے سکیں اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بھی شروع کرسکیں۔‘‘
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر عرفان چودھری کے خیال میں پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے، اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک متاثر ہورہے ہیں، ’’مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لیے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیرزمین جذب نہیں ہوتی، اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں، اس لیے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے ڈیموں کو تعمیر کرنے کے لیے پہلے ہمیں بہت سے سیاسی مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہمیں گوٹھ اور دیہات کی سطح پر چھوٹے اسٹوریج ٹینک بنانے چاہئیں، جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی نہریں بنانی چاہئیں، اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور سیلابی شکل اختیار کرلے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں، اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔‘‘۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انرجی کے ماہر فیصل بلوچ کے مطابق اس رین پیٹرن کو بہتر کرنے کے لیے شجرکاری بہت ضروری ہے، ’’پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کئی ممالک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے تجربے ہوئے ہیں لیکن اب کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ان بڑے ڈیموں کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے کئی ممالک میں ان ڈیموں کو بتدریج ختم کیا جارہا ہے۔ ڈیموں کے لیے ایک خطیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے، جب کہ اس سے سیاسی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مصنوعی جھیلیں بناکر پانی کو ذخیرہ کرنا چاہیے، جس سے نیچرل اکوافر ریچارج ہوگا۔
اس بات کو سب جانتے ہیں کہ جہاں پانی نہیں وہاں زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ پانی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ آج ہم پانی کی اہمیت کو سمجھ کر پانی کو محفوظ کریں، اور پانی کا بے دریغ استعمال نہ کریں تو کل ہم اپنی آنے والی نسلوں کوایک پُرسکون اور مستحکم مستقبل دے سکتے ہیں۔

حصہ