نعیم الرحمن
(دوسرا اور آخری حصہ)
فنون کے دورِ نو کے مدیر نیر حیات قاسمی ’’حرفِ ثانی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’کچھ لوگ جو دوسروں کے مقابلے میں زندگی جینے کا فن اور سلیقہ بہتر جانتے ہیں، وہ اپنی استطاعت سے واقف ہوتے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ گنجائش کہاں پر ہے اور انتہا کہاں ہوتی ہے۔ بطور اشرف المخلوقات اپنی حیثیت کو پہچاننا، خالق مخلوقات کے عطا کردہ اس مقام و مرتبے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذمے داریوں سے واقف ہونا، نہ تو خودساختہ بلندیوں کے لیے ہمکنا اور نہ ہی پستیوں میں پھسل کر سسکنا… یوں وہ ان سب معاملات کے بارے میں بہتر فیصلے اور عمل کی استطاعت حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جیتا جاگتا انسان، روشن فکر سے جگمگاتا ذہن، احساس کی شدت سے دھڑکتا دل، ہمدرد اور مددگار انسان، احمد ندیم قاسمی کی دل کش شناخت اوڑھے، سردمہری کے جاڑے میں، محبتوں اور عقیدتوں کی گرمی میں، ذاتی عناد کے حبس میں، اپنوں کی جدائی کی خزاں میں اور امیدکی مہکتی بہار میں غرضیکہ ہر موسم میں نو دہائیوں تک چوپال ِ زیست پر براجمان رہا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی عزت، وقار اور مرتبہ دنیاوی زندگی کے دوران اور اس کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ندیم صاحب کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے جو اگرچہ تعداد میں محدود ہوتے ہیں، مگر اپنے طرزِعمل کی بہ دولت لامحدود ہوجاتے ہیں۔ انسان، اس کی پہچان، مرتبہ اور عظمت… ندیم صاحب کا سب سے پسندیدہ موضوع ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ندیم صاحب کا فلسفۂ زیست اسی سوچ کے گرد گردش کرتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی تخلیقات، گفتگو اور طرزِعمل سے اسی جان دار رویّے کا اظہار کیا۔ وہ اس انتہائی اہمیت کے حامل نقطے تک کیونکر پہنچ پائے؟ احمد ندیم قاسمی صاحب 90 برس تک ہمارے درمیان رہے۔ ان کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے آج ایک دہائی سے زائد مدت بیت چکی ہے، مگر ان کی آواز ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ کی گونج آج بھی وادیوں سے پلٹتی ہے اور کائنات کے سروں کو جا چھوتی ہے۔ وہ رہنما مشعل ’فنون‘ کی صورت آج بھی روشن ہے جس کے بارے میں وہ خود کہہ گئے تھے کہ ’’میں شب کے مسافروںکی خاطر، مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں‘‘، اور نئی نسل سے ان کی مضبوط امیدیں ’’امکان پہ اس قدر یقین ہے، صحراؤں میں بیج ڈال آؤں‘‘ کے مانند آج کونپلوں کی صورت لہلہا رہی ہیں۔‘‘
جس کے بعد قاسمی صاحب کی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے’’بین السطور‘‘ کے عنوان سے اس بارے میں لکھا ہے: ’’جب میں جماعت ششم میں تھی تو گھر میں سب سے پہلے ’فنون‘ کا نام سنا۔ میرے ابا احمد ندیم قاسمی کے دوست احباب جب بھی ہمارے گھر آتے تو ان سب کی گفتگو میں اسی کا ذکر رہتا۔ مہینوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ میں جب بھی یہ نام سنتی تو سوچتی یہ فنون کون ہے؟ فنون کا پہلا شمارہ آیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک ضخیم اور خوب صورت مہکتا دمکتا ادبی رسالہ ہے۔ یہ اُن رسالوں سے جو ابّا ہمیں پڑھنے کے لیے دیتے مثلاً ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’بچوں کی دنیا‘‘، ’’نونہال‘‘، ’’پھلواری‘‘، ’’کھلونا‘‘ وغیرہ اور ڈائجسٹوں سے بالکل مختلف تھا۔ میرے ابّا جی کی آنکھوں میں اس کے لیے پیار ہی پیار تھا۔ اس کے بعد جب بھی فنون کا نیا شمارہ آتا، ابا ہمیں یوں دکھاتے جیسے کوئی بے حد قیمتی، نایاب اور قابل ِ دید تحفہ ہے۔ یوں تو وہ اپنی نئی کتابیں بھی اسی طرح چمکتی آنکھوں سے اور پیارکے ساتھ دیتے لیکن اس وقت وہ قدرے شرمائے ہوئے سے ہوتے۔ جب ہمیں ادب سمجھ آنے لگا تو وہ اس میں شامل چیزوں کے بارے میں ہمیں وضاحت سے بتاتے۔ ابّاجی اپنی اَن گنت مصروفیات سے جب فرصت پاتے تو یا تو مطالعہ کرتے یا پھر شعر، افسانہ، مضمون،کالم، خطوط یاکچھ بھی تحریرکرتے اور اسی دورانیے میں فنون کے لیے آئی ڈھیروں ڈھیر ڈاک بھی دیکھتے اور انتخاب بھی کرتے جاتے۔‘‘
ان تین ابتدائی تحریروں میں ’فنون‘ کے اجرا، احمد ندیم قاسمی کا طرزِ زندگی، فنون کے لیے ان کی لگن اورلگاؤ واضح ہوتے ہیں۔ اور ان کی حیات میں فنون کا مقام بھی قاری کے سامنے آتا ہے۔ نمبرکے آغاز میں قاسمی صاحب کی چند منتخب حمد و نعت دی گئی ہیں، جن کے بعد 14 اگست 1947ء کی شب پشاور ریڈیو سے نشر ہونے والے احمد ندیم قاسمی صاحب کے دو قومی نغموں کے عکس دیئے گئے ہیں جو انتہائی نایاب اور یادگار ہیں۔ قاسمی صاحب کے ملّی نغموں اور ترانوں کا انتخاب بھی بہت خوب ہے، جن میں چھ ستمبر اورکشمیرکے حوالے سے کلام بھی شامل ہے۔
ندیم صدی نمبر میں یوم ِ آزادی پاکستان کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ان کے دو ملّی نغمے ان کی اپنی تحریر میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ تاریخی نوعیت کے نغمات ہیں، جن میں پہلا زندہ باد پاکستان کا ایک جزکچھ یوں ہے:
اک مالاکے موتی ہیںہم، ایک فلک کے تارے
یک مقصدیک منزل ہیں ہم اوریکجان ہیںسارے
روحانی ایکے نے سنوارے بگڑے کام ہمارے
ایک خداہے ایک نبی ہے ایک اپنا قرآن
زندہ باد پاکستان
پہلی جلدکے مضامین اور مقالات میں قاسمی صاحب کے فن اور شخصیت کے ہرگوشے پر تحریریں شامل ہیں۔ فنون کے مستقل ادیب محمد ارشاد نے ’’افکارِ ندیم‘‘ اور ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’احمد ندیم قاسمی کا پہلا افسانہ‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ امین راحت چغتائی نے ’’احمد ندیم قاسمی کی نظریاتی شخصیت‘‘ پر بہت عمدہ مضمون تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر جمال نقوی نے ’’قلم سے ندیم کی محبت‘‘پر قلم فرسائی کی ہے۔ پروفیسر قیصر نجفی نے ’’احمد ندیم قاسمی کی نظم نگاری‘‘ پر عمدہ مضمون لکھا ہے۔ مشہور ڈراما اور افسانہ نگار اصغر ندیم سید نے ’’احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں نچلے طبقے کے کردار‘‘ کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ نگار اور ’استعارہ‘ کے مدیر ڈاکٹر امجد طفیل نے ’’احمد ندیم قاسمی کے افسانے، ایک مختصرجائزہ‘‘ پیش کیا ہے۔ ایک بہت اہم مضمون نعیم بیگ نے ’’ندیم کا فنون… سفر کے ترپن سال‘‘ میں فنون کی ادارت کی نصف صدی کا جائزہ لیا ہے۔
تجزیے کے عنوان سے نامور مصنفین اور ناقدین کے قلم سے احمد ندیم قاسمی کی شاعری اور افسانہ نگاری کے مجموعوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس سے قارئین کے لیے ان کے فن کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔ اس حصے میں ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا غلام رسول مہر، سید عابد علی عابد، ڈاکٹر میاں مشتاق احمد، سید وقارعظیم، ڈاکٹر سلیم اختر اور علی حیدر ملک جیسے صاحبِ قلم افراد نے قاسمی صاحب کے فن کا جائزہ لیا ہے۔ ندیم کی کتابوں سے متعلق کچھ اوّلین تجزیاتی تبصرے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں آغا خلش کاشمیری نے ’’دھڑکنیں‘‘، چودھری محمد اقبال نے ’’انگڑائیاں‘‘، ڈاکٹر تاثیر نے ’’شعلۂ گل‘‘ اور مولانا عبدالمجید سالک اور پروفیسر ممتاز حسین نے ’’دشتِ وفا‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے تشکیلی دورکی اہم یادگار میں احمد ندیم قاسمی کے نام محمدحسن عسکری کے 33 خطوط مع ان کے عکس کے درج ہیں۔ ’’ہمہ جہت ندیم‘‘ میں احمد ندیم قاسمی کے بڑے بھائی پیرزادہ محمد بخش کی ’’شاہ‘‘ اور’’ندیم کا بچپن‘‘ کے نام سے قاسمی صاحب کے بارے میں یادیں پہلی جلدکا اختصاص ہے، جس میں احمد ندیم قاسمی کے بارے میں ایسی معلومات ہیں جو کہیں اور دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ ندیم صاحب کے بارے میں مولانا عبدالمجید سالک، سید احتشام حسین، محمد خالد اختر، فکر تونسوی، ہاجرہ مسرور، حمید اختر، محمد کاظم، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اشفاق احمد، خدیجہ مستور، گلزار، عزیز حامد مدنی، مسعود اشعر، ڈاکٹر نثار ترابی، نفیسہ قاسمی اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے دلچسپ اور معلومات افزا مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ امجد علی شاکر اور اعجاز رضوی کے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں دو دلچسپ خاکے بھی شامل ہیں۔ جبکہ ’’نذرِندیم‘‘ میں شعراء کا غزلوں اورگل پاشی میں نظموں کے ذریعے قاسمی صاحب کوخراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نیرحیات قاسمی نے ’’ندیم کون‘‘ کے نام سے ایک دلچسپ افسانہ بھی تحریر کیا ہے۔ اس جلد میں احمد ندیم قاسمی، ان کے والد، والدہ، بھائی، اہلیہ اور اہلِِ خانہ کی کئی یادگار تصاویر نے اس کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔
ندیم صدی نمبرکی دوسری جلد میں احمد ندیم قاسمی کے دو کلیدی خطبات، ’’روزنِ در‘‘کے زیر عنوان قاسمی صاحب کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر سلیم اختر، مستنصر حسین تارڑ اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے اہم مضامین شامل ہیں۔ ’’ندیم خزینے‘‘ میں ان کی مختلف کتابوں کے دیباچے اور انتساب، افکارِندیم نمبرکے لیے مدیر کے نام قاسمی صاحب کا خط، موسیقار سجاد سرور نیازی، سعادت حسن منٹو، بشیر موجدکے خاکے، رحیم گل کے ناول ’’جنت کی تلاش‘‘، افسانہ نگار اُم عمارہ، شاعر شکیب جلالی کے ’’روشنی اے روشنی‘‘، اور قاسمی صاحب کے چند منتخب کالم دیے گئے ہیں۔ ’’نایاب ندیم‘‘ کے زیرعنوان احمد ندیم قاسمی کی آپ بیتی کے چند اوراق اور ان کی کچھ نایاب تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ ان کے چند نامکمل افسانے بھی شامل ہیں۔ ’’تاثرات‘‘ میں عظیم ادیب وشاعرکے بارے میں فراق گورکھپوری، سیدابوالخیرکشفی، حنیف رامے، نندکشور ورما، آصف ثاقب، عبداللہ جاوید، گلزار اور بے شمار لوگوں کی تحریروں نے قاسمی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکیا ہے۔’’ یادداشتیں‘‘ کے نام سے جیلانی بانو، علی تنہا، آصف ثاقب، سلطان سکون، محمداظہارالحق اور دیگر نے ان کی یادیں تازہ کی ہیں۔ ’’نوادراتِ ندیم‘‘ میں قاسمی صاحب کی تحریروں کے عکس، نقوش اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے دیگر پرچوں کے عکس اورکئی نایاب اور یادگار چیزیں شامل کی گئی ہیں۔ دوسری جلد کے اختتام پر ’’ندیم گفتگو‘‘ کے نام سے احمد ندیم قاسمی کے یادگار انٹرویوز، خطوط میں قاسمی صاحب کے مختلف افراد اور نامور لوگوں کے ان کے نام خطوط جمع کیے گئے ہیں۔ ’’بچوں کا ندیم‘‘ میں بچوںکے لیے قاسمی صاحب کی شعری اور نثری تصانیف بھی شامل ہیں۔ ’’پنجابی دریچہ‘‘، ’’ندیم صدی تقریبات کا احوال‘‘ بھی اس جلد میں شامل ہے۔
غرض ’فنون‘ کا ’’احمد ندیم قاسمی صدی نمبر‘‘ اردوکے صاحبِ طرز و اسلوب شاعر و ادیب کے شایان ِ شان ہے اور اس میں ندیم صاحب کے بارے میں ہر قسم کی معلومات شامل کی گئی ہیں۔ یہ نمبر بھرپور اور جامع ہے۔ مستقبل کے محققین کے لیے اہم دستاویزکی حیثیت رکھتا ہے۔
دور افتادہ زمینوں میں اپنے شہر کی یاد
شاہدہ حسن
پانی پہ کھِلا وہ شہر
ساحل پہ بسا وہ شہر
شب دھیان میں کیا سوئی
خوابوں میں ملا وہ شہر
اشکوں کی روانی میں
ڈوبا ابھرا وہ شہر
چہرہ چہرہ مجھ میں
تصویر ہوا وہ شہر
یاد آئے بہت وہ دن
تھا شہر ِ دعا وہ شہر
سوتا تھا نہ اک پل کو
کیا زندہ تھا وہ شہر!!
خورشید بکف رستے
سایوں سا گھنا وہ شہر
ہر زخم پہ اک مرہم
خود زخم نما وہ شہر
جلتے ہوئے ہونٹوں کو
بہتا دریا وہ شہر
ہر تن پہ برس اٹھتا
بادل سے لدا وہ شہر
رہ رہ کے مہک دیتا
خوشبو سے بھرا وہ شہر
ہر روز نئی شامیں
ہر روز نیا وہ شہر
اب دیکھا جو چھوکر
پتھر سا لگا وہ شہر
تکتا ہی رہا مجھ کو
رویا نہ ہنسا وہ شہر
ٹوٹے ہوئے دل سب کے
ٹکڑا ٹکڑا وہ شہر
سیلاب میں بہتے لوگ
آندھی میں گھِرا وہ شہر
غزل
نزہت عباسی