آپ کو جملہ کچھ عجیب سا لگے گا ۔پاک بھارت سخت ترین تناؤ یا کشیدگی ، یقین کریں کہ اب توڈرامہ لگتی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاک بھارت سخت کشیدگی ظاہر کرنے کا ڈرامہ ہر سطح پر دن بہ دن ایک بودی اور بے کار ایکٹنگ کے ساتھ دَم توڑتا نظر آرہا ہے ۔غصہ میں مت آئیں۔ ذراترتیب دیکھ لیں پر فیصلہ کریں۔اچھا یہ بتا دوں کہ ہمارا موضوع سوشل میڈیا ہے ۔ میں اسی دائرے میں بات کرونگا۔چلیں پہلے کچھ پیچھے لے کے جاتے ہیں ۔ہمارے پیارے ، ہینڈسم ، زیرک وزیر اعظم کا دورہ امریکہ ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ۔ اِسی دوران امریکی صدر کا اہم اعلان یا پیشکش کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاک اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کو تیار ہیں۔اس حیرت انگیز ، غیر متوقع اعلان یا بیان پر سب کو حیرانی ہوئی ۔بھارت نے اس کے جواب میں واضح طور پر کسی کی ثالثی قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ پاکستانی حکومت و میڈیا و سوشل میڈیا سب اس دورے کی بھر پور کامیابی کا راگ الاپتے رہے۔ چند ہی دن گزرے کہ مقبوضہ کشمیر سے خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ مزید افواج تعینات ، اسکولوں کی چھٹیاں، سیاحوں کو واپسی کا حکم ہو گیا۔
اب 5 اگست کا دن آگیا اور بھارت نے کشمیر کی الگ حیثیت والے آرٹیکل370 کو اپنی پارلیمانی عددی طاقت سے ختم کر دیا۔اس کے بعد عملاً مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے اپنا حصہ بنا دیا۔ ممکنہ احتجاج سے بچنے یا قابو کرنے کے لیے بھارت نے اپنے منصوبے کے مطابق اقدام اٹھائے۔ آج 26 دن بعد بھی مقبوضہ وادی بدترین کرفیو کا شکار ہے ۔ نہ نماز، نہ عید، نہ جنازہ ، نہ علاج، نہ غذا، نہ اسکول،نہ ٹیلی فون، نہ انٹرنیٹ۔
بھارتی میڈیا اس دوران یہی منظر کشی کرتا رہا کہ سب امن ہے، سب پر سکون ہیں، سب کچھ نارمل ہے ۔دوسری جانب وہ بین الاقوامی صحافی جن کے پاس سیٹلائٹ ٹیلی فون کی سہولت تھی ، کچھ دن بعد ان کی رپورٹوں نے بھارتی درندگی کا چہرہ دُنیاکو دکھا دیا۔ تا حال مقبوضہ کشمیر کے کچھ علاقوں کی لینڈ لائن ٹیلی فون بحال کی گئی ہے لیکن مزید مصدقہ اطلاعات و حالات نہیں پہنچ پا رہے کہ ساری کشمیری سیاسی قیادت سخت قید و بند ونگرانی میں ہیں۔اب اس دوران پاکستان میں کیا ہو رہا تھا یہ دیکھیں ۔پاکستان نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس چلایا ، قرارداد پہ قرارداد، اظہار یکجہتی کا بھرپور سرکاری دعویٰ ۔پاک فوج بھی حکومت کے ساتھ کشمیریوں کے حق میں اظہار یکجہتی کے ایک ہی موقف پر قائم نظر آئی۔ بھارتی درندگی اس حد تک بارڈر پر بڑھ گئی کہ وادی نیلم میں ممنوعہ کلسٹر بم پھینکے گئے پھر کئی پاک فوج کے کئی جوانوں کی شہادت سمیت انتہائی جارحانہ اقدامات سب نے دیکھے۔ پاکستان نے کیا جواب دیا اس کی کہیں کوئی واضح تفصیل آئی ایس پی آرکے سوا موجود نہیں۔بھارتی میڈیا پر تو سب ’بھارت کی جے ‘ہی چلتا رہا ۔
اب پاکستانی حکومت کے ’مشتبہ ‘رویوں کو دیکھیں ۔ پاکستان میں سب سے پہلے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں حکومت و اپوزیشن ہی لڑتی نظرا ٓئی ۔ ایسی ایسی تجاویز آئیں اور آکر نکل گئیں کہ کیا ذکر کریں،بس یہ نتیجہ نکلا کہ ان اجلاس سے بھارت کو مزید دو تین دن مل گئے ۔سب سے اہم بات وزیر اعظم پاکستان کا نصف گھنٹہ کا شاندار خطاب تھا۔ آپ یقین کریں وزیر اعظم پاکستان بننے کے بعد عمران خان کے تمام خطابات ایک سے ایک خوبی کے حامل رہے ہیں اور بہت اچھی ، شاندار گفتگو کی گئی۔پہلی مرتبہ اسمبلی فلور پر کسی وزیراعظم نے بھارت کے ’ہندوتوا‘ راج کے نظریات کا مکروہ چہرہ دکھایا ۔ آر ایس ایس کی متعصبانہ سوچ ، گائے کے گوشت پر مسلم نسل کشی پر بات کی گئی ۔یہی نہیں قائد اعظم علیہ رحمہ کے پاکستان بننے کے وژن کو ٹریبیوٹ دیا گیا ۔دو قومی نظریہ کی روح پر بات کی گئی ، انگریز کے بعد ہندو راج کی غلامی سے بچانے کی بات کی گئی۔ہندوستان میںمسلمانوں کی حالت زار اور دو قومی نظریہ کی فتح پر بات کی گئی۔بھارت کے نظریات اور متعصبانہ، تنگ نظر ،مسلم دشمن سوچ پر بات کی گئی ۔مدینہ کی ریاست ، حضرت علی ؓ، نظریہ اور دین کی بات کی گئی۔ وزیر اعظم پاکستان نے صاف کہاکہ بھارت نے اپنے نظریات کے نفوذ کی خاطر تمام عالمی معاہدے ، شملہ، جنیوا، اپنی عدالت، عالمی عدالت، اقوام متحدہ اور اپنی پارلیمنٹ سمیت سب کو روند دیا۔اب آپ اندازہ کریں کہ یہ باتیں کرنے والا پاکستان کا وزیر اعظم تھا اور مخاطب پوری دنیا کے عوام سمیت پاکستان کے تمام اراکین پارلیمنٹ بھی تھے ۔بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان کی بات کی گئی صرف نام نہیں دونوں کے عمل کو ظاہر کر کے ۔یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا وہ صرف اللہ کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ مجھے تو خطاب سن کر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب وزیر اعظم کوئی بہت بڑا یا اہم پیش قدمی والا اعلان کریں گے کیونکہ وہ تو سب کچھ سمجھ گئے ہیں۔ویسے وزیر اعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے بدترین جنگی جرائم اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کے خلاف ناقابل بیان اقدامات کیے ہیں جنہیں عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سامنے لائیں مگر ساری دنیا خاموش ہی رہی۔انہوں نے پوری دنیا کو ری ایکٹ کرنے اور اپنے بنائے قوانین کو اپ ہولڈ کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرین گے تو ساری دنیا کو نقصان ہوگا۔مگر افسوس…بس مذمت کا اظہار، احتجاج، سفارتی تعلقات منقطع، عالمی برادری سے رجوع ، اقوام متحدہ جانے کے سوا کچھ نہ ہوسکا۔ اس کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے 26 اگست کو قوم سے خطاب کیا اس میں دوبارہ یہی بہترین گفتگو کی ۔پاکستان کے نظریہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جوڑا ، بھارتی متعصبانہ آر ایس ایس کے نظریہ کو ایک بار پھر دہرایا۔
دنیا بھرمیں موجود پاکستانی و کشمیری برادری نے لندن، فرانس، اٹلی و دیگر ممالک میں اچھے احتجاجی مظاہرے کیے۔پاکستانی حکومت کی سفارتی کوششوںکانام نہاد حاصل یہ ہوا کہ چین کی سفارش پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طے ہو گیا ۔ یہ بات کسی کو نہیں بتائی گئی کہ چین بھی اپنے کشمیر ( لداخ) کے لیے یہ اجلاس بلا رہا ہے۔بہر حال آج تک سیکیورٹی کونسل کا تحریری اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔ یہ ضرور ہوا کہ اجلاس کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے چند علاقوں کی ٹیلی فون لینڈ لائن کھولنے کا عندیہ دے دیا۔اب آپ دیکھیں کہ ٹرمپ کی خاموشی، بلکہ دیگر تمام ممالک بشمول ترکی کی جانب سے بھی معنی خیز خاموشی ( ایک دو ہلکے بیانات خاموشی ہی کہلائیں گے)۔ مسلم ممالک ہو ں یا غیر مسلم ممالک آپ اٹھا کر دیکھ لیں سب خاموش ہی نظر آئیں۔کیوں؟؟کیا انہیں معلوم تھاکہ ڈیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان صرف اپنا احتجاج رجسٹر کرانے کا ڈرامہ کرے گا ۔ آپ دیکھیں کہ عملاً یہی ہو رہا ہے ۔ 14 اگست کو ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ سے منسوب کیا گیا اور ہر جگہ حیرت انگیز طور پر آزاد کشمیر کے پرچم لہرائے گئے ۔ جیساکہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ تم نے مقبوضہ کو بھارت بنا دیا تو ہم ’آزاد کشمیر کو پاکستان ‘بنائیں گے ۔میں نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کا پرچم الگ ہے اور آزاد کشمیر کا الگ۔ آزاد کشمیر ایک الگ ریاست ہے جس کا اپنا صدر، وزیر اعظم ،اسمبلی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر ۵ اگست سے پہلے وزیر اعلیٰ کی حد تک الگ ریاست کی طرح تھا ۔اب 5ستمبر آنے کو ہے یعنی ایک ماہ بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں ایک ماہ پہلے تھے جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا چکا ہے ۔ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول پر بھارت نے باڑھ لگادی۔بھارتی جارحیت کے جواب میں بھر پور زبانی احتجاج کے سوا کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ بدترین حالات میں ایک پاکستانی کاروباری شخص کی بیٹی کی شادی میں گانے بجانے کے لیے بھارتی گلومار میکا سنگھ کو ایک ما ہ کا ویزہ جاری کر دیا گیا۔اس پر بھی خوب شور مچا۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کیبل آپریٹرز کو سختی سے بھارتی مواد نشر کرنے پر پابندی لگا دی سینما فلمیں تو پہلے ہی بند کر دی گئی تھیں ۔ایک نیوز چینل کی نشریات میں بھارتی گانا چل گیا تو نشریات رکوا دی گئی۔پاکستان کے اہم سیاسی رہنما وزیر ریلوے شیخ رشید نے سمجھوتا ایکسپریس بند کر نے کا اعلان کر دیا۔تمام تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ویسے نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ بس اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ ہم پوری دنیا میں سب کو بھارت کے انسانیت سوز اقدامات سے آگاہ کریں گے۔یہ سب چلتا رہا ایسے میں سوشل میڈیا پر روزانہ کے حساب سے کئی ہیش ٹیگ بطور ٹرینڈ دونوں جانب سے ابھرتے رہے۔پاکستانی اپنے مطابق ، جبکہ بھارتی اپنے مطابق کشمیر پر اپنا موقف پیش کرتے رہے۔
یہ سب چل ہی رہا تھاکہ اسی دوران سعودی عرب نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ۔ سب تلملا اٹھے اور پھر مودی نے وہ ایوارڈ وصول بھی کر لیا ، پورے عرب میڈیا میں اس ایوارڈ کی گونج سنائی دیتی رہی اخبارات کے پورے پورے سپلیمنٹ مودی کی تصاویر سے بھرے پڑے تھے ۔ وہاں بھارت میں اور خود مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کا بہتا لہو دوسری جانب خادم حرمین شریفین کی جانب سے مسلمانوں کے قاتل کو ایوارڈ نوازنا شدید ری ایکشن کا باعث بن گیا۔ لوگ یہ بھول گئے کہ ایوارڈتو بھارت کی سعودی شاہی خاندان سے وفاداری کی وجہ سے دیا گیا نہ کہ مسلمانوں کے قتل عام کے بدلے۔ ٹائمنگ صحیح نہیں تھی البتہ یہ کام چار مہینے بعد بھیہوتا تو مودی تب بھی مسلمانوںکا قاتل ہی کہلاتا ۔ یہ دھبہ تو اسے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے زمانے سے ہی ملا ہوا ہے۔اب اس نے سعودی شاہی خاندان کی مفرور بیٹی کو بحفاظت لوٹانے کے صلہ میں عربوں نے ایوارڈ دیا ، کچھ سرمایہ کاری بھی کی تو اس کو کشمیر سے جوڑنا اصولاً تو درست نہیں تھا ۔خصوصاً جب ہمیں سعودی عرب کی حکومتوں کا ماضی خصوصاًمصر، فلسطین کے تناظرمیں بھی معلوم ہو ۔ بہر حال لوگوں نے خوب آڑے ہاتھ لیا مگر معصوم سادہ لوح لوگوں کی اکثریت پاکستان سے پوچھنا یہ بھول گئی کہ مودی کو فضائی راستہ کیوں فراہم کیا گیا ۔جبکہ تمام تجارتی تعلقات ختم کر دیئے گئے تھے ۔اس عمل نے پاکستانی احتجاج کے ڈرامے پر مہر ثبت کر دی ۔ دو دن بعد یہکہنا شروع کیا گیا کہ ہم سوچ رہے ہیںکہ بھارت کو اربوں روپے کی بچت کرانے والے فضائی راستہ کو بند کر دیں ۔ یہ دیکھ لیں اب بھی سوچ رہے ہیں ۔ اتنا کنٹرولڈ میڈیاتھا ، لوگوں کو اتنی اہم ترین بات احتجاج ، جمعہ کی دوپہر نکلنے اور عالمی سفارت کاری کے نام پر ہضم کرا دی گئی ۔ آج بھی بھارتی سفارتخانے پاکستان میں دھڑلے سے کام کر رہے ہیں ، کرتار پور راہداری پر بھی بیان ہمارے سامنے ہے کہ اس پر کام جاری رہے گا ۔ بس تو پھر آپ سمجھ لیں کہ بودے احتجاجی مظاہروں سے کیا برآمد ہوگا؟بات یہاں نہیں رکی تو پھر کشمیر ایشو پر چیمپئن سیاسی و مذہبی جذباتی جماعتوں کو مظاہروں ، ریلیوں والی ’ٹرک کی بتی‘ کے پیچھے لگا دیا۔ یقین کریں سب کے سوشل میڈیا ، میڈیا بیان سب کا جائزہ لیا ہے ، کسی کے پاس کوئی حل نہیں ، کوئی روڈ میپ نہیں کہ کیا ہوگا؟ کیسے مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا، یا بھارتی تسلط سے آزاد ہوگا۔ اقوا م متحدہ کی قراردادیں تو خود اقوام متحدہ نہیں منوا سکا۔شملہ معاہدے کے تحت کشمیر کو پاک بھارت معاملہ قرار دے کر تیسرے فریق کی گنجائش ختم کی گئی۔ کوئی ٹیکنیکل بات کرنے کو تیار ہی نہیں یا جانتا ہی نہیں ؟ایسے میں یہی بیانیہ سب سے زیادہ وزنی نظر آتا ہے کہ پاک بھارت ڈیل ہو چکی ہے ، یہی وہ ثالثی ہے جسے امریکہ کرانے جا رہا تھا۔ یہ ساری باتیں یا کڑیاں کیوں جوڑنی پڑی ؟آپ کہیں گے کہ اس میں سوشل میڈیا کہاں ہے۔ بہر حال تمام باتیں سوشل میڈیا مباحث کے تناظر ہی میں یکجا کی گئی ہیں ۔
چلیں ایک اہم بات جو وجہ بنی آج کی تحریر کا ۔ یو ٹیوب پر جب آپ اپنا اکاؤنٹ سائن ان کرکے کھولتے ہیں تو الٹے ہاتھ پر ایک بار میں ٹرینڈنگ کا پیج ہوتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے ریجن یا جہاں سے آپ نے اکاؤنٹ آن کیا ہووہاں ، ا س خطہ میں کون کون سی ویڈیوز ٹاپ ٹرینڈ کر ہی ہیں یا جو ویڈیوز پیسہ کما رہی ہیں۔وہ لسٹ دیکھی تو مزید اندازہ ہوا کہ عوام بھی شاید اس ڈرامہ کو سمجھ گئی ہے ۔ پہلے نمبر پر ARYکا ڈرامہ حسد کی26ویں قسط تھی کوئی 22ملین ویوز کے ساتھ ، مگر دوسرے نمبر پربھارتی ٹی سیریز کا جاری کردہ میوزک ویڈیو تھا جو کہ مجموعی طورپر 47ملین ویوز کے ساتھ تھا لیکن پاکستان میں دوسرے نمبر پر تھا۔تیسری ویڈیو ہم ٹی وی کے ڈرامہ انا کا پرومو تھا مگر چوتھا پھر ایک بھارتی میوزک ویڈیو ہی تھا جسے یش راج فلمز نے جاری کیا تھا۔پانچویں ویڈیو حمزہ عباسی اور نیمل خاور کی شادی کی رخصتی کی ویڈیو تھی لیکن چھٹے نمبر پر بھارتی فلم میرا منہ چڑا رہی تھی۔اب آپ اندازہ کرلیں کہ ہم کس طرح سے ان بھارتی ٹیکس پیئر اداروں کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر خوب رقم پہنچا رہے ہیں جسے وہ اپنے خزانے میں ٹیکس کی صورت جمع کراتے ہیں اور اُنہی ٹیکسز سے بھارت اپنی آرمی کو پالتا ہے ، بم بناتا ہے ۔