قدسیہ ملک
میرے بچو! ہمارے بھی تو بچے ہوئے ہیں۔ہم نے بھی تو بچوں کے ساتھ پورے گھر کے کام کئے ہیں اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں کہ تم لوگ کہو کہ یہ پرانے وقتوں کی کہانیاں میں تمہیں سنارہی ہوں۔تم سب جانتے ہی ہو کہ ہم نے تم سب کواعلیٰ تعلیم بھی اسی لیے دلوائی ہے کہ تم اچھے برے کا فرق جان سکو۔تمہارے والد اور میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن تم سب جانتے ہوکہ ہم نے گھر کاہر قسم کا کام کیا ہے کبھی مجھے بچوں کی مجبوری آڑے نہیں آئی۔ہمیشہ اپنا کام وقت پر کیا۔ساتھ ساتھ بچے بھی ہوتے گئے۔ بچے پیدا کرنا پھر ان کی اچھی پرورش کرنا بالکل آسان کام نہیں۔اسی کے لیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔پھر جاکر بچوں کی بہترین پرورش ہوتی ہے۔اب تم لوگ والدین کے منصب پر اتنی آسانی کے ساتھ تھوڑی فائز ہوجاؤگے۔اس کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔اسی لیے تو ماں باپ کے درجات بلند ہوتے ہیں۔زاہدہ بیگم اپنے مخصوص انداز میں اپنے شادی شدہ بچوں کو سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔
“امی آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ایک بات مجھے بتائیں؟یہ بچوں سے گھر بھرنے سے کیا فائدہ جب اچھی تربیت ناہو پائے۔ایسے میں تو ہم الٹا گناہ ہی سمیٹیں گے نا”۔عروہ جو زاہدہ بیگم اور عادل صاحب کاسب سے زیادہ لاڈلا اور سب سے چھوٹا بیٹاتھا امی کی بات سن کر بولا۔ساری بہویں،خاموشی سے امی کے چہرے کو دیکھنے لگی۔”بیٹا میں تو تمہیں سب سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار سمجھتی تھی۔تم ایسی بات کرو گے میں نے سوچانہیں تھا۔کیوں نہیں ہوپائے گی اچھی تربیت جب تک ہم زندہ ہیں”بیگم عادل ایک اداس نظر عروہ پر ڈال کر بولیں۔
“اچھا امی یہ بات چھوڑیں۔ہمیں یہ بتایئں کہ عید کی دعوت میں کیا کیا بنے گا۔”بڑی بھابھی نے آکر معاملہ رفع دفع کرنے میں عافیت جانی۔بیگم عادل بھی انہیں عید کے دوسرے دن ہونے والی دعوت میں بننے والے پکوان کی تراکیب بتانے لگیں۔دوسری جانب وہ دعوت پر ہونے والے خرچے کو بھی لکھتی جارہی تھی۔اور ایک طرف وہ دماغ میں بننے والے اس خاکے کو عملی شکل دینے کا بھی سوچ رہی تھی جس میں وہ ایک اسلامی خاندان کی حیثیت کو اپنے بچوں کے سامنے بخوبی بیان کرسکیں۔
بیگم عادل کے 7 بچے تھے جن میں 3 بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔بیٹیوں کی کم عمری میں شادی کے بعد انہوں نے اپنے بیٹوں کی شادیاں بھی بیس بائیس سال میں کردیں۔ لوگوں کی تنقید پر وہ کہتی کہ اس فتنوں کے دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مسلمان کا یہ سب سے بڑاہتھیار ہے۔ان کی اپنی شادی بھی 21 سال کی عمر میں ان کے ماسٹرز کے دوران ہوگئی تھی۔شادی کے بعد 10 برس میں اللہ نے انہیں 7بچوں سے نوازا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ لوگ بہت کم تعلیم یافتہ یاپھر امیر تھے بلکہ بیگم عادل اور صاحب کی رائے تھی ایک عقیدہ تھاوہ یہ کہ ہر آنے والا اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے۔عادل صاحب اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ ہر بچے کی پیدائش میں ان کے رزق میں اضافہ ہوا ہے۔مسز عادل 1000 گز کے بنگلے نما گھر سے شادی ہوکر ایک 100 گز کے مکان میں آئیں تھیں۔لیکن وہ اس بات پر شکر گزار تھیں کہ وہ ایک اسلامی خاندان میں آئی ہیں۔انہوں نے کبھی اپنے حالات کا شکوہ نہیں کیا۔عادل صاحب شادی کے بعد کئی دفعہ نوکری کے سلسلے میں کئی کئی مہینے مسقط،عمان سعودیہ اور مختلف ممالک میں جاتے تھے۔کیونکہ جاب ویزا تھا کبھی فیملی ویزے کے لیے اپلائی نہیں کیا تاکہ بوڑھے ماں باپ کو مناسب رقم بھیج سکیں اور اپنی فیملی کو بھی پال سکیں۔ اسی لیے کبھی اپنی فیملی کو نا لے جا سکے۔لیکن بیگم عادل تمام بچوں کی یکے بعد دیگر پیدائش اور گھر کی سب سے بڑی بہوہونے کے ناطے سارے کام بااحسن خوبی محبت اور اپنی اولین ذمہ داری سمجھ کر نبھاتی رہیں۔بالآخر جب گھر کے کنبے میں اضافے کے باعث100 گز کاگھر چھوٹا پڑنے لگا تو عادل صاحب نے اپنے والدین کی خوشی اور محبت کی خاطر وہ گھر چھوڑ کربرابر والا گھر کرائے پر لے لیا۔مشکل حالات تھے،تنگی تھی لیکن دل وسیع تھے۔بعض اوقات حالات سخت تنگ ہوجاتے تو وہ رب سے رو رو کر شوہر اور خاندان کی سلامتی کی دعائیں مانگتی۔انہوں نے کبھی اپنی تنگی حالات کا تذکرہ اپنے بے پناہ محبت کرنے والے والد سے تک نہیں کیا۔وہ ہمیشہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی اور اپنے بچوں کو قرآن و نماز سے جوڑے رکھتی۔انہوں نے کبھی بچوں کو نمبر کم آنے یا اسکول میں اچھی کارکردگی نا دکھانے پر نہیں ڈانٹا تھا۔کوئی اس کی وجہ پوچھتاتو وہ کہتی تھیں کہ بچوں کو اس کے حقیقی رب حقیقی مالک سے جوڑدو۔آگے وہ ہر چیز خود سنبھال لیں گے۔وہ کہتی تھی کہ اللہ نے میری قدم قدم پر مدد کی ہے مجھے معلوم ہے میرا اللہ میرے ساتھ ہے۔جب سسرال کے قریب مالک مکان نے ان سے کرایے کا گھر خالی کروایا تو اپنے 6 چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اللہ کے بھروسے اور شوہر کی تائید سے وہ اکیلے ایک ایسے مقام پر شفٹ ہوگئی جہاں مناسب کرایہ شوہر کی دسترس میں تھا۔شوہر کو مطمئن کرکے چھوٹے بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے کوشش کرنے لگی اور با لآخر ایک اچھے اسلامی اسکول میں اپنے بچوں کو داخل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔۔شوہر توملک سے باہر ہی ہوتے جب چھٹیوں پر گھر آتے تو وہ اپنے 6،7 سال کے بچوں کو وہ پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کردیتی کہ بابا کے آنے پر زیادہ شور نہیں مچانا،بالکل فرمائیشیں نہیں کرنی،اچھے بچوں کی طرح اپنے کام کرنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عادل صاحب چھٹیاں گزار کر ہمیشہ اپنے گھرسے بیوی بچوں سے مطمئن ہوکرجاتے۔ اسی طرح کام کرتے کرتے جب وہ ریٹائر ہوکر اپنے ملک آرہے تھے تو بہت اداس تھے کیونکہ بچے ابھی اس قابل نہیں تھے کہ کچھ کماسکیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر وہ اداس ہوجاتے تھے۔لیکن جب وہ پاکستان میں کچھ عرصہ رہے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ماں نے بچوں کی تربیت جس انداز میں کی ہے وہ کسی بھی ماحول میں آسانی سے ڈھل جاتے تھے۔لڑکوں کو سخت جان محنت طلب کام اور مشقت کا عادی بنایا اور لڑکیوں کوگھر گرہستی،سینہ پرونا،کھاناپکانا کچن اور گھر کے کاموں میں بالکل طاق کردیا تھا جبھی نویں جماعت میں آتے ہی بڑی بیٹی کے رشتے آنا شروع ہوگئے تھے۔عادل صاحب ریٹائرمنٹ کی رقم سے کاروبار کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی بیگم اپنے گھر کی حامی تھیں۔لہٰذا انہوں نے بیگم کی بات مان لی اور ایک علاقے میں مناسب سا گھر لے لیا۔اس کے بعد اپنے بچوں کی شادیاں کرنے لگیں۔وہ صرف دین دار اور خدا خوف لوگوں کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی بیٹی کا ہاتھ دے دیتیں۔اسی طرح بیٹوں کی باری میں بھی انہوں نے شکل و صورت،رنگ،روپیہ پیسہ ،خاندانی وقار اور اسٹیٹس کی بجائے والدین میں اسلامی اذہان اور خدا خوفی دیکھی۔شادی کرنے میں بھی زاہدہ بیگم نے سمجھداری اور عقلمندی کے ساتھ 2 ،2 بچوں کی ساتھ شادی کی۔انہیں اپنی اولاد پر بہت ناز تھا۔ان کے ہاتھ میں سوائے بچوں کے سرمایے کے کوئی دوسرا سرمایہ موجود نا تھا۔بیٹیاں ایک ایک کرکے تمام سسرال کو پیاری ہوگیئں۔اچھے اخلاق اور گھرداری کے باعث جلد ہی اپنی اپنے سسرالوں میں اپناحصہ بنانے میں باآسانی کامیاب ہوگیئں۔زاہدہ بیگم اپنے بیٹوں کی شادیاں بظاہر دینی گھرانوں میں کیں تھی۔لیکن جب بہویں گھر آیئں تو انہیں احساس ہوا کہ انہیں اپنی نئی نسل کی تربیت خود کرنی ہے۔بات بات پر ایک دوسرے کی غیبت،جھوٹ،معمولی باتوں پر شوہر بیوی کی ناراضگی،غیبت،ایک دوسرے کی چغلی ایک عام سی بات تھی۔اپنے بچوں کو دیکھنا اور اپنے بچوں کے کھلونے وغیرہ کمرے کی دہلیز سے باہر نا نکالنا،صرف اپنے بچوں کا خیال رکھنا۔یہ چند باتیں انہیں سکون نا لینے دیتی تھیں۔ وہ سوچتی تھی کیا اسی لیے میں نے انہیں پال کر اچھے برے کی تمیز سکھا کر۔ موسم کی سرد و گرم سے بچاکر اتنا بڑا کیا کہ وہ شادی کے قابل ہوسکیں اور پھر میں یہ منظر دیکھوں جو آج دیکھ رہی ہوں۔وہ چاہتی تھیں ان بھائیوں میں محبت برقرار رہے اسی لیے ان کا کھانا پینا سب کچھ الگ کیا ہواتھا۔بچوں کی شادی سے پہلے انہوں نے اسی لیے اپری منزل بنائی تھی کہ ہر کوئی آرام سے اپنے ون یونٹ گھر میں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔تاکہ محبتیں برقرار رہ سکیں۔اوراسلامی تعلیمات کا تقاضہ بھی یہی تھا۔۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد بھایئوں میں کسی قسم کی ناچاقی نا پیدا ہو۔بہنیں بھی خوش رہیں جبھی اپنے گھر میں ایک کمرہ بہنوں کے لیے بھی بنادیا تھا تاکہ جب بھی وہ والدین سے ملنے آئیں انہیں کسی قسم کی دشواری ناہواور بھائیوں کی بھی آگے کی زندگی اپنے بچوں کے ساتھ آسانی سے گزر سکے۔لیکن ان سب باتوں اور اس قدر خیال رکھنے کا بہو بیٹوں پر الٹا اثر ہوا اوروہ تو ایک ایک اولاد ہوتے ہی مزید بچوں کے بارے میں طرح طرح کی تاویلیں دینے لگے۔
وہ اپنے بچوں سے کچھ کہنا چاہتی تھیں اسی لیے اگلے دن وہ مغرب کے بعد ساری بہووں اور بیٹوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی۔سارے بچے شام کی چائے امی کے ساتھ پیتے تھے۔وہ آکر بیٹھے ہی تھے کہ سب کو ڈرائنگ روم میں بلالیاگیا۔وہاں امی اپنے ہاتھوں میں قرآن لیے موجود تھی۔برابر میں حدیث کی بھی کوئی کتاب رکھی تھی۔سب بیٹھ گئے۔بیگم زاہدہ نے سورہ النساء کی پہلی آیت پڑھی ترجمہ کے لیے سب سے بڑی بہو کو مخاطب کیا اریبہ تم اس کا ترجمہ پڑھ کر سناو۔اریبہ سنبھل کر بیٹھ گئی اور پہلی آیت کا ترجمہ پڑھنے لگی”اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے”۔یہ آیت کہاں پڑھی جاتی ہے کوئی بتائے گا؟بیگم عادل کی بات سن کرسب خاموش ہوگئے۔کیونکہ کوئی نہیں جانتاتھا۔یہ خطبہ نکاح کی آیات میں پڑھی جاتی ہیں۔جس وقت آپ نکاح کے بندھن میں بندہنے جارہے ہو اللہ تعالیٰ اس وقت آپ سے کہہ رہے ہیں کہ رشتہ داروں قرابت داری میں اللہ کا خوف ہونا چاہیے۔کیا کسی کو کوئی اور بات سمجھ میں آئی ہے۔”جی دادی اس میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ رشتہ داریاں بگاڑنے سے منع بھی کیا گیا ہے بیگم عادل کی منجھلی بہو اقصیٰ بولی۔بیگم عادل خوش ہوگئیں کہنے لگیں۔” جی اس میں رشتہ داریاں نبھانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔جب شادی ہوگئی تو آپ کی رشتہ داریوں میں اضافہ ہوگیااور رشتہ داریوں کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔بس بچوں ! انہی ذمہ داریوں کو بااحسن وخوبی نبھانااچھی شادی شدہ زندگی کا راز ہے”۔یہ کہہ کر انہوں نے سب سے چھوٹی بہو سے دعا کروائی اور چائے و دیگر لوازمات کے ساتھ محفل برخواست ہوگئی۔
اگلی دن جب سب بچے چائے پینے اور والدین سے ملنے آئے تو امی نے تینوں بہوؤں کو قرآن کی محفل کی یاددہانی کروائی۔آج ہم کچھ اصول ڈسکس کریں گے۔خاندان میں توازن معاشرے میں توازن کیسے پیدا ہوتا ہے؟امی زیادہ سے زیادہ معاشی طور پر مستحکم رہنے سے خاندان میں توازن ہوتاہے”۔اچھا تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں افرادی قوت کم ہونے سے مسائل کیوں پیدا ہورہے ہیں؟
ا ب سب خواتین امی کی بات کا مطلب سمجھ گئیں۔بیگم عادل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں میں ایک حدیث اپنی پیاری بیٹیوں کو سنانا چاہتی ہوں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” کیا میں تمہیں جنت میں جانے والے مردوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟(سنو!) نبی جنتی ہے ،شہید جنتی ہے ، صدیق جنتی ہے، پیدا ہوتے ہی فوت ہونے والا بچہ جنتی ہے ، دور دراز سے اپنے بھائی کو محض اللہ کی رضا کیلیے ملنے ولا جنتی ہے، کیا میں تمہیں جنت میں جانے والی عورتوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اپنے شوہر سے محبت کرنی والی، زیادہ بچوں کو جنم دینے(کی تکلیف اٹھانے ) والی عورت جنتی ہے” یہ کہہ کر دعا کرواکر نشست برخواست کردی گئی۔لیکن اس کے بعد بیگم عادل نے کسی کو کچھ ناکہا نا کبھی کوئی نشست رکھی نا کسی سے کوئی بات کی بس یہی سوچتی رہیں کہ شاید میں ہی غلط تھی۔اب ہرروز کوئی ناکوئی بہو خود امی کو لالاکر مختلف سائنسی تحقیقات بتارہی تھی جس میں زیادہ بچوں کی پیدائش اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے صحت مند رہنے کے راز تھے۔اب وہ گھر کی کبھی مکدر ہوتی فضا میں محبتیں بھی دیکھ رہی تھیں۔اب شاذنادر ہی بہویں آپس میں بیٹھی کسی کی کوئی بات کرتی تو دوسری اسے خود ٹوک دیتی۔آپس میں تحائف کاتبادلہ اور ایک دوسرے کے ساتھ شئیرنگ بھی ہورہی تھی۔بیگم عادل یہ سب کچھ دیکھتیں تو اللہ کا شکرادا کرتیں۔لیکن زبان سے کچھ نا کہتیں۔
آج عید کا دوسرا دن تھا سب پکوان بہت لذیذ تھے۔سب بہن بھائی امی کے پورشن میں جمع تھے بیگم عادل کھاناکھاکر سب سے مل کر اپنے کمرے میں آگئیں۔تھوڑی ہی دیر میں تمام بیٹے بہؤویں بھی امی کے کمرے میں جمع ہوگئیں۔کیا ہوا بیٹا ؟امی نے اپنی سب سے بڑی بیٹی سے پوچھا اس پر بڑی بہو کہنے لگی۔امی ہم نے کچھ باتیں کچھ اصول سیٹ کئے ہیں جو آپ کو بتانا چاہتے ہیں “جی بیٹا بولو کیا کہنا چاہتی ہو”۔بیگم عادل بولیں۔اقصیٰ نے کہا”امی ہم سب زیادہ بچے خوشحال خاندان اور جہاد آسان والے اسلامی نظریئے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ مل کرایک ایسے اسلامی خاندان کی تشکیل کریں گے جو کفر کے ہتکنڈوں کے خلاف اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے والا ہوگا۔ہم اپنے بچوں کو سچے مسلمان بچے بنائیں گے ان کو دور جدید کے ہر فتنہ سے آگہی دیں گے۔ہم فتنوں کے اس دور میں اپنے بچوں کو ٹھیک اسلام سے روشناس کروایں گے تاکہ ہمارے بچے اسلام کی درست تصویر دیکھ کر دنیا میں اسلام کا درست پیغام پہنچاسکیں۔واقعی ہماری سوچ محدود تھی اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ آپ اصل میں خاندان کے ذریعے دین اسلام کی کی سربلندی چاہتی ہیں ہم ایسے مضبوط ذہنوں کی آبیاری کریں گے جنھیں دیکھ کر دنیااسلام قبول کرے گی اور پھر ہمارے بچے ہم سب کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنیں گیان شاء اللہ”۔یہ کہہ کر باری باری سب بہو بیٹے کمرے سے نکل گئے۔بیگم عادل تھوڑی دیر کے لیے ساکت بیٹھی رہیں پھر جلدی اٹھیں اور وضو کرنے چلدیں کیونکہ انہیں شکرانے کے نوافل پڑھنے تھے اس رب العالمین کے لیے جس نے ان کے بچوں کا دل بہت خوبصورتی کے ساتھ بھلائی وخیرخواہی کی طرف موڑ دیا تھا۔