فیصل محمود سید
افضال نوید کی ابتدائی شاعری نئے امکانات کی شاعری تھی جس میں ایک توانا اور تازہ طبع شاعر اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ شاعری کے نئے امکانات کے در کھولنے کی تیاری میں تھا. اس طرز شاعری میں کہیں کہیں ایسی جھلکیاں بھی ملتی تھیں جس میں ظفر اقبال کے طرز اظہار کی جھلک نظر آتی تھی
اپنی ہی ازرہ تفنن طبع
دھجی نام و ننگ اڑائی تھی
ایک دن ہم نے ہاتھ پھیلا کر
چادر ہائے تنگ اڑائی تھی
پرخچے چاروں اور بکھرے تھے
اک بدن نے سرنگ اڑائی تھی
ظفر اقبال نے انہیں اپنا پسندیدہ شاعر قرار دے کر اس رنگ کی حوصلہ افزائی شروع کر دی. نتیجتاً افضال نوید اپنے پرانے مذہب کو چھوڑ کر ظفر اقبال کے مذہب کے پیروکار بن گئے اور کچھ اس طرح کی شاعری کرنے لگے
لایعنی معنی خیزیاں آنگن سے دھل گئیں
بادل کا اصل بھیگ کے لامنتہا پڑا
گندم نے رودرگ میں گھلاوٹ بلا کی کی
غیر مکاں تھا شیشہ مے سے بسا پڑا
اجرام آگ سے ہوئے بے جا تو شام تھا
معدن دھنک سے سانچہ گل میں دھلا پڑا
مرکز میں سر گلال سے عکس پریدہ تھا
جتنا دماغ کھنچ سکا خوشنما پڑا
اس شاعری کے بارے میں امجد اسلام امجد کہتے ہیں “میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے اظہار کی آذادی اور ندت پسندی کو یہیں تک محدود رکھے کہ اس سے آگے کا رستہ دشوار گذار اور خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حد تک بے سمت بھی ہے” [13]. پروفیسر غلام حسین ساجد کہتے ہیں “یہ ایک ایسا فکری تجربہ ہے جو کیفیت اور معنویت ہر لحاظ سے تجریدیت کے پردے میں ملفوف ہے اور اس سے حظ اٹھانے کے لیے ایک خاص نوع کی تربیت کی ضرورت ہے جو دوچار دنوں کی کاوش اور رغبت سے وجود میں نہیں آتی” [14].۔
خود ظفر اقبال کو اس طرز کلام سے مایوسی ہوئی کیونکہ شاعری اگر صرف بے معنی ہوتی تب تو وہ ان کے پیروکار کی شاعری کہلائ جاسکتی تھی لیکن یہ شاعری تو گنجلک ہونے کے ساتھ ساتھ سنگلاخ بھی تھی چنانچہ وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے” قاری غزل کو لطف اندوز ہونے کے لیے پڑھتا ہے، ریاضی کا کوئی پیچیدہ سوال حل کرنے کے لیے نہیں” [15].۔
لیکن بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ افضال نوید نے نہ تو نقادوں کے مشورے پر کان دھرا نہ ہی خدائے سخن کی رائے کو کوئی اہمیت دی. چنانچہ انکی شاعری مزید گنجلک اور سنگلاخ ہوگئی
اجلے سمندروں کا شغب آئینے میں تھا
جاگا تو ایک طایءر شب آئینے میں تھا
کچا بھی ہو جو دھاگا تو سیارہ باندھ لوں
اپنی کشش سے قریہ مہ پارہ باندھ لوں
پھینکوں شعاع سرمری مشعل سے جل اٹھے
قندیل خواب ازمنہ اوجھل سے جل اٹھے
منت عود سے اٹھا پھر میں
اپنے نابود سے اٹھا پھر میں
یہ شاعری ایسی تھی کہ خدائےسخن کو بھی یقین ہوگیا کہ انہوں نے ایک فرینکسٹاین تیار کر لیا ہے جو انکے مذہب سے بھی آگے نکلنے کی تیاری میں ہے اور بہت ممکن ہے کہ خود اپنے نئے مذہب کی داغ بیل ڈال لے چنانچہ وہ کہنے پر مجبور ہو گئے “میں گمرہی کو بھی مسترد نہیں کرتا کیونکہ گمراہی سے ہی کوئی صحیح راستہ نکلنے کا امکان بھی ہوتا ہے اور گمرہی کو مستقل طور پر لطف حاصل کرنے کا ذریعہ بھی نہیں بنایا جاسکتا. آپ نیا راستہ ضرور بنائیں لیکن وہ کم از کم ایسا تو ہو جس پر چلا جا سکے اور اگر آپ گمراہ بھی ہیں تو کم از کم ایسے گمراہ تو ہوں کہ دوسروں کو بھی گمراہ کرسکیں” [16].۔
ظفر اقبال کے ایک اور اہم پیروکار سید عامر سہیل ہیں. ان کا تعلق بہاولنگر سے ہے. ابتدا میں انکے کلام میں خال خال ایسے اشعار یا الفاظ ملتے تھے جن سے احساس ہوتا تھا کہ یہ بھی خدائے سخن ظفر اقبال کے مذہب کی طرف مائل ہیں
مرا ہوتا ہے تجھ سے رابطہ روز
میں خود کو روز خط ارسالتا ہوں
میں ہوتا ہوں گئے گذرے دنوں میں
کہ ماضی کو ہی اکثر حالتا ہوں
چنانچہ ظفر اقبال نے انکی حوصلہ افزائی شروع کردی “حق تو یہ ہے کہ عامر سہیل کے اس طرز سخن کو مزید پھیلنا چاہیے کیونکہ نہ صرف ان کا ڈکشن نیا، الگ تھلگ اور غیر مانوس ہے بلکہ الفاظ کی نشست و برخواست اور انتخاب بھی مختلف اور دیدنی ہے” [17]. ساتھ ہی ساتھ انھوں نے عامر سہیل کو حوصلہ بھی دینا شروع کر دیا کہ اگر انکی شاعری لوگوں میں مقبول نہیں بھی ہو رہی تب بھی انہیں خدائے سخن کا مذہب ترک نہیں کرنا چاہیے” اگرچہ عامر سہیل کی شاعری اپنی جگہ پر مکمل اور اپنی انتہاوں کو چھونے لگی ہے اور روٹین کی قاری بیزار شاعری کو اپنے ظہور سے یکسر مسترد کر رہی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسی شاعری کو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جاتا چنانچہ اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے یہ انتظار کرتی ہے کیونکہ اسے اپنے آپ کو تسلیم کرانے کی جلدی ہوتی ہے نہ شاعر کو” [18]. اس تعریف سے حوصلہ پاکر عامر سہیل نے ظفر اقبال کی اتباع واضح طور پر شروع کردی.
اور وہ گیسو جو طائف کی طرح اڑتے ہیں
اور مکہ کی وہ رت جو نہیں فانی عامر
کوئی کوفہ ہو کوئی صوفہ ہو کیلوں والا
جیسے دجلہ کی قضا ہوتی جوانی عامر
تم دور بہت دور اذانوں کی گلی میں
تم پاس بہت پاس نشانی میں تہجد
اور حور جو بتوں کی جوانی سے بسکٹی
اور ہجرتوں اور فسادوں کے دستخط
اس شاعری کو پڑھ کر واضح طور پر احساس ہو رہا ہے گویا شاعر نے شعوری طور پر یہ کوشش کی ہے کہ صرف مختلف النوع کے کم استعمال ہونے والے الفاظ جوڑ کر شعر بنایا جائے اور وہ اشعار لازمی طور پر بے معنی اور مہمل ہوں. لیکن ظفر اقبال صاحب اس شاعری سے بے حد مطمئن ہیں کہ عامر سہیل کی شکل میں انہیں اپنے مذہب کا ایک مستعد اور متحرک پیروکار مل گیا. چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کردیا “عامر سہیل بھی شاعروں کا شاعر ہے کہ عامتہ الناس تک ابھی اس ذائقے کی رسائی نہیں ہوئی” [19]. واضع ہو کہ اس سے پہلے ظفر اقبال صاحب خود کو بھی شاعروں کا شاعر کہہ چکے ہیں “غلط یا صحیح طور پر مجھے شاعروں کا شاعر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ میں بالعموم شاعروں کے لیے لکھتا ہوں اور اگر یہ لقب اور یہ بات درست ہے تو اس سے بھی میری شاعری کے ایک بڑے حصے کا اکیڈمک ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے” [20]. چنانچہ عامر سہیل کو شاعروں کا شاعر قرار دیکر انھوں نے اعتراف کر لیا کہ عامر سہیل نے انکا مذہب سخن اختیار کر لیا ہے.
خدائے سخن کا مذہب اختیار کرنے کے بعد عامر سہیل پر یہ لازم تھا کہ وہ مکمل طور پر اس کی پیروی کریں چنانچہ انہوں نے بے معنویت اور ابہام گوئی کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑنا شروع کردیا
قاف پیازی سینہ ہو
ایک نشہء تخمینہ ہو
مزدلفہ کے حسن کی آنچ
چاند پرے اک زینہ ہو
اور ٹشو پیپر کی تم
یاد کوئی پارینہ ہو
کاجل کی سرخی مسمار
دور پڑا پشمینہ ہو
یا سلکی یا ملکی جسم
یا الہڑ سازینہ ہو
آنکھوں آنکھ اتاشی دکھ
ہونٹوں کی کابینہ ہو
تم کمرے میں بند نماز
کمرے میں آئینہ ہو
یار غزل میں دھیما سر
سر جیسے کترینہ ہو
ٹھوکر ہر ہر نیکی پر
پیار کوئی نابینا ہو
نیند جھلس جائے گی نیند
اور نہ آنسو سینا ہو
کیچڑ میں مزدور کنول
عامر جون مہینہ ہو
ہونٹوں کی غزالوں کی یہ بہتات بہت ہے
چھونا ہو تو یہ حسنٍ مضافات بہت ہے
یعنی کہ تیمم کے لیے رات بہت ہے
—— – – – – – – –
جب چاند ہو مزدلفہ کی ٹہنی کے برابر
ایسے میں کسی شخص کو آواز نہ دینا
جب خواب کسی بلوے کے پانی سے چھنا ہو
ایسے میں کسی عکس کو آواز نہ دینا
جب حسنٍ تلاوت سے بھری حمد میں گم ہو
ایسے میں کسی رقص کو آواز نہ دینا
— – – – – – –
ہابیل کے ظہرانے میں قابیل نہ ہووے
دنیا میں کسی خون کی ترتیل نہ ہووے
نیندوں میں پڑھیں مرثیہ تعمیل نہ ہووے
جاگیں تو جہاں زاد کی تذلیل نہ ہووے
راتوں کی جوانی کو کوئی کام نہیں ہے
اس درد کے شجرے میں ترا نام نہیں ہے
یہ شام محبت کے بنا شام نہیں ہے
—– – – – – – –
ہم ڈھونڈنے آئے تھے کوئی چاپ محبت
رستے میں مگر آپ ملیں آپ محبت
رو رو کے جگاتی ہے کوئی تھاپ محبت
رستے میں کہاں تجھ سے کریں بات محبت
گیلے ہیں ابھی ارض و سماوات محبت
ملنی ہو تو مل جاتی ہے خیرات محبت
ہوجاتی ہے یہ مجھ میں گھنی رات محبت
میں روتا ہوں رو پڑتی ہے شہ مات محبت
عامر سہیل اپنی شاعری کے تقریباً اس مرحلے کی سرحد پر کھڑے ہیں جہاں افضال نوید صاحب پہنچ چکے ہیں اور غالباً جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب افضال نوید کی طرح عامر سہیل کو بھی خدا سخن فرینکسٹاین ڈیکلر کر دیں گے.
حفیظ صدیقی سی ڈے لیوس کی A slope for poetry کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں “شاعر کا کام تخلیق ہے تشریح یا تصریح نہیں۔ لیکن اگر شاعر صرف اپنے لیے تخلیق کا عمل جاری رکھے اور پڑھنے یا سننے والوں کو خاطر ہی میں نہ لائے تو خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ وہ ایک دن مہمل گوئی پر اتر آئے گا جو ایک قسم کی دیوانگی ہے یا اس سے بھی بدتر، دیوانگی کی نقالی۔” غرض یہ کہ نفی ابلاغ کا نظریہ سعی ء ابلاغ میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے یا مہمل گوئی کا جواز۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں” [21].۔
ظفر اقبال تو ہر طرح کے سننے سنانے کے مقام سے گذر چکے ہیں ویسے بھی خدا اپنا مذہب کہاں تبدیل کرتے ہیں لیکن افضال نوید عامر سہیل اور ظفر اقبال کے مذہب سخن کے دوسرے پیروکاروں کے پاس ابھی وقت بھی ہے اور موقع بھی کہ یہ جھوٹا مذہب ترک کر کے دوبارہ مزہب میر سے رجوع کریں کہ انکا موجودہ مسلک انہیں گمنامی اور بے سمتی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔