مریم روشن
ملیحہ نے سیاہ مومی پینسل اٹھائی اور سفید کاغذ پر کاٹم کٹائی بنائی، پھر اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں ایک اور لکیر کے ذریعے اس کراس کو درمیان سے تقسیم کیا۔ سامنے بیٹھے بچے غور سے اس کی بنائی ہوئی لکیروں کی طرح اپنی اسکیچ بک میں بنارہے تھے۔ اب چھوٹے چھوٹے قوس درمیان میں بناکر مکڑی کا جالا سا بنا لیا۔ پینٹ برش پر اودا واٹر کلر لگا کر جال میں رنگ بھرنا شروع کیا۔ جامنی، اودا، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی، سرخ سب رنگ جال میں ایسے بکھرے کہ حسین ست رنگی تصویر بن گئی۔ بچے بھی اب شوق سے اپنی تصویریں بنانے میں مصروف ہوگئے۔ ملیحہ نے کاغذ پر بنے شاہکار پر نظر ڈالی۔ قوسِ قزح کے رنگ اس کو شاداں وفرحاں کردیتے تھے۔ کیا حسین امتزاج بنتا ان رنگوں کے باہم ملنے سے۔
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی وہ اور اس کی تینوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز ایک دوست بچوں کو اپنے گھر لے کر بیٹھے۔ ایک کے ذمے قرآن و حدیث سے تعلق قائم کرنا تھا، دوسری روزمرہ کی چیزوں سے حساب پڑھاتی، تیسری کے ذمے رائٹنگ اور لینگویج سکھانے کی ذمے داری تھی۔ ملیحہ کے حصے میں آرٹ اینڈ کرافٹ آیا۔
سہولت سے ہفتے کے چار دن کلاس ہوتی۔ آج ملیحہ کی باری تھی۔ بچوں کو تصویر میں رنگ بھرتا دیکھ کر موبائل اٹھایا۔ سامنے ہی گوگل کا ست رنگا ڈوڈل تھا۔ ’’واہ بھئی گوگل بھی میری طرح قوسِ قزح کا دیوانہ ہے۔‘‘ مسکراتے ہوئے ڈوڈل پہ کلک کیا اور سامنے چلتی سلائیڈ اور نیچے کی تحریر نے دہلا ہی دیا۔
بچے کام تقریباً مکمل کرچکے تھے۔ برش دھوکر چیزیں جگہ پر رکھنے لگے۔ اس کے اشارہ کرنے پر دستر خوان بچھا کر اپنی اپنی پلیٹ میں فریز کیے ہوئے آم کے قتلے، چھوٹے چھوٹے سینڈوچ رکھ کر وہ آپس میں ہنسی مذاق کرتے کھانے پینے لگے۔
’’کس دور میں پیدا ہوئی ہیں یہ ننھی جانیں، جب الفاظ کے معنی ہی بدل گئے۔‘‘ تھوڑی ہی دیر میں دعا پڑھ کر وہ سب اسی بلڈنگ میں بنے پڑوس کے گھروں میں چلے گئے۔ انہیں جاتا دیکھ کر وہ خاموشی سے اندر آئی۔ اس کے اپنے بچے اب بلاک جوڑ کر کچھ بنا رہے تھے۔
ملیحہ نے موبائل اٹھاکر دوبارہ پڑھا۔ جون کا مہینہ دنیا بھر میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے لیے ’’منتھ آف پرائیڈ‘‘ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ گوگل نے اپنے ڈوڈل کو اسی لیے ست رنگ بنایا۔ اس نے لنک دوستوں کو فارورڈ کیا۔ ’’جمعرات تک اس موضوع پر مطالعہ کرکے آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔‘‘ میسج ٹائپ کر کے بھیج دیا۔
چاروں دوست اس بات پر متفق تھیں کہ دورِ حاضر میں ہر روز اٹھنے والے فتنوں کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب چوکنا ہوکر حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھی جائے اور ایک دوسرے کو باخبر کرتے رہیں۔
’’جب تم نے مجھے لنک بھیجا تو میں نے اتنا سیریس نہ لیا لیکن میرے بچے Scholastic کی کتابیں بے حد شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کی لسٹ چیک کی تو پتا چلا کہ جون میں خصوصی طور پر وہ بچوں کے لیے ایسے ناول چھاپ رہے ہیں جو ہم جنس پرستی سے متعلق ہیں۔ دو لڑکوں کی باہم محبت یا دو لڑکیوں کی۔‘‘ نائلہ نے ڈائری کو کھولتے ہوئے کہا۔
’’یہی نہیں، آکسفورڈ کی Biff and chip series میں ایک منظر چھپا کہ کچھ مرد جھاڑی کے پیچھے جارہے ہیں، اور پھر اگلی تصویر میں کوئی اور دیکھتا ہے تو اچھل پڑتا ہے۔ یعنی وہ مرد وہاں کوئی ایسا ہی کام کررہے تھے۔ بعد میں آکسفورڈ والوں نے اس پر معذرت بھی کی، لیکن جس گھر میں کتاب پہنچنی تھی وہ پہنچ گئی۔‘‘ عروسہ نے لقمہ دیا۔
’’اسی پر بس نہیں، انتہائی چھوٹے اور کم عمر تین سال کے بچوں تک کے لیے اس موضوع پر کتابیں چھاپی جارہی ہیں۔ Tango makes three پینگوئن کے خاندان پر لکھی گئی بظاہر معصوم سی خوب صورت تصویروں والی کتاب ہے، جو کوئی بھی ماں خوشی خوشی لے لے گی۔ لیکن اس کا موضوع وہی ہے۔ میں نے یہ لسٹ نکالی ہے، تم تینوں بھی ان کتابوں کو جاکر چیک کرو۔‘‘ ملیحہ نے لنک دوستوں کو فارورڈ کیا۔
ثریا نے پانی کا گلاس بھرتے ہوئے ایک تصویر دوستوں کو دکھائی، ’’ہم مغربی لٹریچر کو کیا روئیں! یہ ہمارے پاکستان میں پہلی کتاب ہے اس موضوع پہMy chacha is gay.۔ تصویر میں روپہلی قوس قزح کے پس منظر میں ایک بچہ چاچا کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ اس کہانی میں احمد کا چچا اپنے بوائے فرینڈ فہیم سے محبت کرتا ہے اور احمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اس کو اسی طرح نارمل لیتا ہے جیسے اس کے امی ابو۔‘‘نائلہ نے بے چینی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو لگتا ہے سانپوں اور بچھوؤں سے بھرا صندوقچہ ہے یہ۔ ہماری نسلوں کی تباہی کے لیے مٹھاس میں لپیٹ کر زہر کھلایا جارہا ہے۔ جو کارٹون بچے دیکھ رہے ہیں ان میں بھی گے کریکٹر چھپے ہیں۔ یہ دیکھو:
1-Velma in Scooby Doo
2- lesbian couple in My Little Pony: Friendship Is Magic
3- Mr. Ratburn gay marriage ( Arthur’s third grade teacher) in Arthur cartoon
4- HIM. In Powerpuff girls
5- SpongeBob in SpongeBob squrepants
6- Peppa pig
اور بھی ان گنت شوز ہیں، جن میں ایسے کردار چھائے ہوئے ہیں۔‘‘ عروسہ کی ڈائری میں لمبی لسٹ تھی۔
’’غم تو یہ ہے کہ یہ جو اصطلاحات اپنے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں دوسرے معنی رکھتی ہیں۔ Gay،Pride، Queer بہت سے لوگ ان سے واقف نہیں۔ ست رنگی ایموجی بھی اسی لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن ناواقفیت کی وجہ سے ہمارے ہاں خوشی خوشی اپنے پروفائل پر مسرت کے اظہار کے لیے ست رنگی ایموجی استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ملیحہ نے فیس بک ایموجی دکھاتے ہوئے کہا۔
’’اور اسی پر بھی بس نہیں، اپنی موجودگی کو ظاہر کرنے کے لیے یہ لوگ ریلی نکالتے ہیں pride march، اور اس میں کئی نامور لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔ امریکن پارلیمنٹ ممبر الحان عمر، راشدہ طالب بھی ان پریڈز میں شامل ہوچکی ہیں۔‘‘ نائلہ نے بتایا۔
’’مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ تم لوگ اس بات کو زیادہ سوار کررہی ہو۔‘‘ فریدہ نے بے زار سے لہجے میں کہا۔ ’’یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ برائی ایسے عام نہیں، اور بھی مسائل ہیں تو ہم اپنی توانائی اس پر کیوں ضائع کریں؟‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے، یہ فی الحال ہمارے لیے مسئلہ نہیں۔ ہم منتخب کارٹون اور کتب بچوں کو دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی الحمدللہ ایسی پریڈز اور رنگوں کا اس زاویے سے استعمال نہیں۔ لیکن ہم بہت کچھ بچوں کو سکھا رہے ہوتے ہیں جو فی الحال اُن کے لیے مفید نہیں۔ پاکٹ منی دے کر بجٹ بنانا سکھانا، کسی خطرے کی صورت میں کیا کیا جائے، اور بھی بہت کچھ۔ تو اسی طرح اپنے بچوں سے اگر ہم اس موضوع پر بات نہ بھی کریں مگر کم از کم خود تو سمجھیں کہ صورت حال کیا ہے۔‘‘ نائلہ نے کہا۔
’’ایک بات تو ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اب کوئی چیز بھی صرف مغربی ممالک تک محدود نہیں۔ ہر فتنہ ایک وبا کی طرح تیزی سے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہم بیماریوں کے خلاف ویکسین، حفظانِ صحت کے اصولوں کی بات کرتے ہیں، اور کہاں یہ بیماری جو ایمان کو ہی باقی رہنے نہ دے!‘‘ عروسہ نے دوست کو نرمی سے سمجھایا۔
فریدہ کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگی ’’کیا اس سے مخنث افراد کے لیے نفرت کا بیج تو دلوں میں نہیں بورہے ہم؟‘‘
’’یہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ فریدہ! دیکھو یہاں بات ہورہی ہے Gay behaviour، قومِ لوط سے وابستہ عمل کی، اور دوسری بات مرض سے بچنے اور تدارک کی کوشش ہے۔ یہاں کہیں بھی نفرت کرنے اور لوگوں سے بدسلوکی کا ذکر نہیں۔‘‘ ملیحہ نے بات آگے بڑھائی۔ ’’پھر یہ بھی سمجھ لو کہ پہلے شاید یہ معاملہ اتنا سنگین نہ ہو مگر اب صورت حال یہ ہے کہ gay امام بھی بن گئے ہیں۔ بی بی سی کی کچھ وڈیوز کے لنک بھیجتی ہوں، ان کو دیکھو تو اندازہ ہوگا کہ باقاعدہ پلان بناکر ہم جنس پرستی کو مسلمانوں میں عام کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’سوال یہ ہے کہ ہم کر کیا سکتے ہیں؟‘‘ ملیحہ کی بات پر تینوں سوچنے لگیں۔
’’ایک تو یہی کہ میڈیا پر نظر رکھی جائے کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں؟ اگر بچے اس عمر کے ہیں کہ خود انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو پھر ان پر نظر بھی رکھنا اور انہیں اس بات سے آگاہ بھی کرنا کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔‘‘ عروسہ نے پہلا نکتہ ڈائری میں لکھتے ہوئے کہا۔
’’پھر بہت زیادہ دُعا کا اہتمام خود بھی کرنا اور بچوں کو بھی وہ دعائیں سکھانا جو فتنوں سے بچاؤ کے لیے ہیں، خصوصاً حضرت لوط علیہ السلام کی دعا رب نجنی و اھلی مما یعملون۔‘‘(سورہ الشعراء 169 ) نائلہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ایک تو بچوں سے تمام موضوعات پر کھل کر گفتگو کرنا، یعنی ہمارے بچوں کو یہ پتا ہو کہ ہم امی ابا سے ہر بات کرسکتے ہیں بغیر خوف کے۔ وقت نکال کر بچوں سے مختلف موضوعات پر بات کرتے رہنا، تاکہ بچوں کی سوچ کا اندازہ ہوتا رہے۔‘‘ ملیحہ کہنے لگی۔
’’بچوں کے اچھے دوست بنانا بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی سوچ و فکر پر چیک رکھنا۔ اسکول کا ماحول بچوں کی شخصیت پر بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ تو اسکول کے انتخاب میں محتاط رویہ ہونا چاہیے۔ رشتے داروں کے گھر چھوڑتے ہوئے اصول و ضوابط طے کرنا۔ گھر واپسی پر وہاں کے بارے میں دریافت کرنا۔‘‘
’’سب سے بڑھ کر بچوں کے دل میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس طرح ڈالنا کہ اُن کے لیے عزیز ترین ہستی بن جائیں، اور پھر اُن کی پسند ناپسند بھی رب کی رضا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے لیے ہوجائے، تاکہ وہ برائی سے اس لیے بچنا چاہیںکہ یہ ہمارے رب کو ناپسند ہے۔‘‘ ثریا نے کہا۔
’’پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ابتدائی عمر سے ہی ستر کا تصور دیں۔ مرد کی مرد سے، عورت کی عورت سے بھی ستر کی حدود ہیں، ان کے بارے میں بتایا جائے۔ سورۂ نساء، سورۂ تحریم اور سورۂ نور کا مطالعہ کروایا جائے۔‘‘ نائلہ نے کہا۔
’’اسی طرح اگر بچوں کے سامنے مختلف سنیریو یا صورت حال رکھ کے بات کی جائے کہ ایسی صورت میں غلط کام صحیح بن جائے اور سب کررہے ہوں تب آپ کیا کرتے؟ مفید ہوسکتا ہے۔‘‘
’’ایک چیز جو مطالعے سے سامنے آئی وہ یہ کہ جو بچے آئے دن گھر میں لڑائی جھگڑے دیکھتے ہیں یا ذہنی دباؤ والے ماحول میں رہتے ہیں، اُن میں جذباتی بے ترتیبی کی وجہ سے یہ مزاج سامنے آنے لگتا ہے۔ تو بچوں کو سینے سے لگانا، سر سہلانا، تعریف اور حوصلہ افزائی کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔‘‘ فریدہ نے جو خاموشی سے سن رہی تھی، رائے دی۔
’’اسی طرح بچوں کی جسمانی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے انہیں فارغ نہ رہنے دینا، گھر کے کام کروانا اورکھیل کود بھی اہم ہیں۔‘‘ ملیحہ نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’اللہ تعالیٰ اس دور پُرفتن میں ہماری اولاد کو صالحین کا امام بنائے، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والا بنائے اور اُن کو صراط مستقیم پہ جمادے، آمین یارب العالمین۔‘‘