ابو داؤد اور ابو عبد اللہ میں ایک پاکیزہ رشتہ تھا۔ استاد شاگرد کا۔ ابو داؤد ابو عبدا للہ کا استاد تھا۔ دونوں کو تاریخ نے فراموش نہیں کیا۔
جب بھی غدار کا تذکرہ ہوگا ابو عبداللہ کانام زبان پر آجائے گا اسی طرح جب بھی منافقت کا ذکر نکلے گا ابو داؤد ذہن میں آجائے گا۔
استاد شاگرد کے رشتے میں اس وقت مزید اعتماد آیا جب استاد نے ولی عہد ابو عبداللہ کو اس کے باپ ابو الحسن والی غرناطہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا اور ہر ممکن طریقے سے عسکری و مالی مدد فراہم کی۔ استاد کی بات مانتے ہوئے ابو عبد اللہ نے اپنے باپ کو قید کرنے کے بعد اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
باپ کی گرفتاری کے ساتھ ہی فسادیوں اور غرناتھ کے غداوں کو قید سے رہائی دلوا دی نتیجہ یہ نکلا کہ غرناطہ کی تباہی کا صلیبی و مسیحی خواب جسے شاید پورا۔
ہونے میں صدیاں بیت جاتیں، وہ چند سالوں کے اندر اندر پایہ تکمیل کو پہنچا۔
سلطنت قشتالہ کی ملکہ ازابیلا 1492ء میں غرناطہ کے محل کی چابیاں وصول کیں اس حالت میں کہ ایک تیر چلا نہ تلوار اٹھی، بیک چینل منافقت اور فرنٹ اوپن بزدلی و حماقت کے ساتھ ابو عبداللہ نے محل کا انتظام ملکہ کے حوالے کردیا۔
ازابیلا کی خوشی کی انتہا مت پوچھیں، اس نے محل کی صفائی ستھرائی کروائی، مسلم نشانیوں کو ختم کیا اور ایک بہت بڑی صلیب محل کے مرکزی دروازے پر آویزاں کروانے کے احکامات صادر کئے پھر وعدہ خلا فی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی اسپین سے نکال باہر کیا۔
تاریخ ازابیلا اور ابو عبداللہ دونوں کو اپنے قرطاس پر نقل کر رہی تھی، منافق ابو داؤد بھی اپنی حنوط شدہ مکروہ شبیہہ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے باب منافقت میں اپنا نام لکھوا چکا تھا۔ ان مکروہ چہرے، گھناو نے کرداروں کے تاریخ کے منظر نامے میں بس اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کا ایندھن بن کر خاک ہوجائیں، سو وہ خاک ہو گئے۔ ہاں ابو عبداللہ کی ماں کے الفاظ ابھی تک اندلس کی فضاؤں میں گونج رہے ہیں جو اس نے اس وقت کہے جب غدار ابو عبداللہ غرناطہ کی چابی ملکہ ازابیلا کو دے کر روتا ہوا وہاں سے نکلا۔ ابو عبداللہ کی ماں نے روتے ہوئے ابو عبدا للہ سے کہا “جس چیز کی حفاظت تم مردو ں کی طرح نہیں کرسکے ، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔”
تاریخ بے رحم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ایماندار بھی ہے یہ بس اپنا قلم چلاتی چلے جاتی ہے ا س بات سے بے پرواہ ہوکر کہ کونسا کردار کس نسل اور مذھب سے تعلق رکھتا ہے۔ نہ موسیٰ بن نصیر تاریخ کا رشتہ دار تھا اور نہ ہی طارق بن زیاد۔ مگر ان دونوں کا تذکرہ دلیر اور بہادر سپہ سالا روں کے باب میں رکھا ہے۔
اس وقت جو سیاسی صورتحال تھی وہ بھی ذہن میں رہنی چاہیے۔ مسلما نوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم اسپین کے جبل الطارق تک پہنچ چکے تھے۔ یہ قصہ سقوط غرناطہ سے آٹھ سو برس قبل رونما ہورہا تھا۔ طارق بن زیاد نے اپنی سپاہ کو کشتیاں جلانے کا حکم دیا اور واپسی کے واحد راستے کو اپنے لئے حرام کرلیا اور پھر یوں ہوا کہ عیسائی بادشاہ راڈرک کو تاریخی شکست سے دوچار کرنے کے بعد موسیٰ بن نصیر کے ساتھ ملکر اسپین کا مکمل کنٹرول خلافت دمشق میں دے دیا۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا اسلامی خلافت کا مرکز دمشق تھا اور ترقی ، علم و ہنر کا ایک باب روشن ہوچکا تھا۔ بغداد سے اسلامی حکومت کے احکامات صادر ہوتے۔ بادشاہ تبدیل ہوتے رہے مگر اسلامی حکومت مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔
وقت کچھ عرصے کے لئے گویا تھم سا گیا۔ یہ دمشق کی خلافت کا برا وقت آپہنچا سو سال مکمل ہونے کے ساتھ ہی آپس کی چیرہ دستیوں نے صلیبیوں کو ایک راستہ سجھا دیا وہ تھا مسلمانوں کو آپس میں با ہم دست و گریبان کروانا۔ سازشیوں میں محلات میں جگہ بنائی، حرم سرا تک سازشیوں سے محفوظ نہ رہا۔ یوسف بن تاشفین کے آخری وقتوں میں بہت کچھ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور جو آخری چیز رخصت ہورہی تھی وہ تھی خود اعتمادی و بہادری!
قشطالیہ، اشبیلہ ، سرقسطہ اور قرطبہ جیسے عظیم علم و ہنر کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہو گئے۔
اراغون اور قشطالیہ کی سلطنتوں کے مدغم سے صلیبی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ ارغوان اور تاج قشطالیہ دونو ں ہی مسلمانوں کے دشمن تھے۔ اس اتحاد کا۔
بنیادی محرک مسلمانوں کا خاتمہ تھا غدار بزدل ابو عبد اللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابوالحسن اور چچا محمد بن سعد الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں مسیحیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔ مگر ابو داؤد اور۔ ابو عبدللہ کی ملی بھگت اور سازشوں نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکمرانی کا خا تمہ ہوگیا۔
ایک اور سانحہ جو ہمارے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے وہ ہے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان!
سانحہ غرناطہ میں مرکزی کردار اگر ابو داود اور ابو عبدا للہ تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں عبداللہ خان جنرل نیازی کو اس کردار میں فٹ کیا گیا۔
کون بھول سکتا ہے وہ منظر کہ جب کس طرح جنرل امیر عبداللہ نیازی نے رمنا ریس کورس گرائونڈ جسے سہروردی گرائونڈ بھی کہتے ہیں جنرل جگمیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال رہا تھا۔ اس وقت لاکھوں بنگالی ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھ رہے تھے۔ جنرل اروڑہ فاتحانہ انداز میں اپنی بیگم کے ہمراہ آیا ہجوم پر فاتحانہ نگاہ دوڑائی۔ جنرل نیازی نے اپنا ریوالور جنرل اروڑہ کے حوالہ کیا جنرل نیازی نے سقوطہ مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اس موقع پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کے ایک گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستحق۔ اس کے بعد کم و بیش ہمارے 90 ہزار فوجی اور دیگر قانونی طور پر جنگی قیدی بن کر جنرل اروڑہ کی زیر کمان آگئے۔ یوں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو ہم نے 24 سال چار ماہ کے بعد پاکستان کو دولخت کر دیا۔ ان دونوں سانحات میں اگر کوئی قدر مشترک تلاش کی جائے تو وہ ایک ہی دکھائی دیتی ہے کہ‘ اپنوں کی غداری نے دشمنوں کا کام آسان کروایا۔
اور پھر تاریخ نے یہ بھی محفوظ کیا ہوا ہے کہ سوڈان کا جنرل نمیری ہو یا مصر کا انور السادات، ترکی کا مصطفی کمال پاشا ہو یا بنگال کامیر جعفر ا ور دکن کا میر صادق۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرکے چلے جاتے ہیں ہاں جو چیز باقی رہ جانے والی ہے وہ ہے ان پر پڑنے والی لعنت ملامت اور صدا کی پھٹکار۔
کشمیر کا معاملہ بھی اسی پیرائے میں لیا جانا چاہیے۔
کس طرح سے اپنوں کی سازشوں، طفل تسلیوں اور دشمنوں سے وفا کی امیدوں نے آزاد ی کے نزدیک پہنچ کر بھی کشمیریوں کی قربانیوں کا سودا کرلیا گیا۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کشمیر کی اس سودے بازی میں کون کون سا کردار شامل ہے ہاں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تاریخ جب منظر نامہ مرتب کرتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ کس کریکٹر نے کتنے ورلڈ کپ جیتے کتنی وکٹیں لیں اور کتنی شادیاں رچائیں تاریخ صرف قوموں کی قسمت کے فیصلے میں کردار کا فیصلہ دیکھتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر کے منظرنامے میں جس بھی کردار کے نام سے پہلے “ابو ‘ کا لاحقہ لگاتے ہی بہت سی مماثلت از خود واضح کر دیں گی۔ اور تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔