فیصل محمود سید
اردو شاعری میں بندھے ٹکے موضوعات اور روایتی شاعری سے بغاوت کا رجحان جدیدیت کی شکل میں باقاعدگی سے 1950 کے وسط میں وارد ہوا. لیکن روایتی شاعری سے بغاوت کے باوصف عمدہ جدید شاعری وہی سمجھی گئی جہاں شاعر نے پورے کلاسیکی لوازمے، رچاؤ اور روایات کو کام میں لاتے ہوئے شعر کہے جیسے
کشتیوں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
جتنے صحرا تھے سمندر ہو گئے
مظہر امام
سیپ کے قلب میں طوفان نے گہر رہنے دیا
یوں درختوں کو گرایا کہ ثمر رہنے دیا
حسن نعیم
اور جہاں جہاں جدید شعراء نے کلاسیکی روایت سے رشتہ توڑا وہاں ان کی شاعری محض لسانی شعبدہ بازی نظر آنے لگی
سورج کو لے کے چونچ میں مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
ندا فاضلی
بستر پر ایک چاند تراشا تھا لمس نے
اس نے اٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا
عادل منصوری
ظفر اقبال جدید اردو شاعری کا ایک بہت اہم نام ہے. جدید اردو پر جب بھی بات کی جائے گی ظفر اقبال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. ظفر اقبال کی ابتدائی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ کا اظہار جا بجا ہوتا ہے
وہ کسی اور طرف دیکھ رہا تھا اس وقت
اسی دوران میں میں نے اسے دیکھا کیا کیا
جھوٹ سچ اس سے محبت ہو تو سکتی تھی مگر
کام یہ بھی ابتدائی مرحلے میں رہ گیا
ظفر اقبال کی جدیدیت جب موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو قاری کو ایک مخصوص خارجی فضا اور تہزیبی عوامل کا احساس دلاتی ہے
ہوا کی سخت فصیلیں کھڑی ہیں چاروں طرف
نہیں یہاں سے کوئی راستہ نکلنے کا
اندر کا زہرناک اندھیرا ہی تھا بہت
سر پر تلی کھڑی ہے شب تار کس لیے
ہر شب نیا کرشمہ دکھاتی ہے یہ زمیں
ہر روز مرے سر پہ نیا آسماں ہے
لیکن بیشتر اوقات ظفر اقبال کی نئی لسانی تشکیل کی کوشش نے ان کی شاعری کے موضوعات کو متاثر کیا اور ان کی شاعری محض الفاظ کی جگلری بن کر رہ گئی.
ظفر اقبال کی شاعری کے محاسن کا اگر جائزہ لیا جائے تو قاری یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ ڈھیلے ڈھالے مصرعوں اور حشو و زواید سے آلودہ نظر آتا ہے. ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ “اچھا مصرع بالعموم وہی ہو سکتا ہے جو مکمل طور پر یا ذیادہ سے ذیادہ نثری ترتیب میں ہو، الفاظ کا استعمال اور بندش چست، برمحل اور بلا تکرار ہو، فالتو لفظ سے مبرا اور بے تکلف ہو” [1]. مگر افسوس ظفر اقبال صاحب اپنی بیشتر شاعری میں اس طرح کا کوئی تکلف روا نہیں رکھتے. مثلاً
میں خاک و خون میں لتھڑا تجھے پکارتا ہوں
مجھے اٹھا نہ سہی، آکے دیکھ جا تو سہی
( منجملہ دیگر خامیوں کے دوسرے مصرعے میں تو بھی اضافی ہے)
خوش ہے وہ اپنے گھر میں، چلو ٹھیک ہے مگر
اتنی سی بات نے مجھے تڑپا دیا بھی ہے
( یہاں الفاظ کی دروبست درست نہیں. تڑپا دیا بھی ہے کہ بجائے تڑپا بھی دیا ہے ہونا چاہیے تھا)
عرصۂ عمر سے چپ چاپ گذر جانا کیا
موت کی تو نہ سہی، زیست کی پروا تو کرو
( دوسرے مصرعے میں پہلا تو اضافی ہے)
چاند گہنایا ہوا لگتا ہے یہ اک عمر سے
کچھ اندھیرا سا جو اپنے دل کی تابانی میں ہے
( پہلے مصرعے میں یہ اضافی ہے)
ہمارا جو کردار ہی کچھ نہ تھا
نکل آئے خود ہی کہانی سے ہم
( پہلے مصرعے میں جو اضافی ہے)
یہ نماز عشق ہر صورت ادا کی جائے گی
جیسی بھی نیت ہے اپنی اور وضو جیسا بھی ہے
( پہلے مصرعے میں یہ اضافی ہے)
اب الگ ہو سکوں گا مشکل سے
ساتھ اس کے کہیں سلا ہوا ہوں
( دوسرے مصرعے میں کہیں اضافی ہے)
غرض جوں جوں ظفر اقبال کی شاعری پڑھتے جائیں توں توں یہ احساس ہوتا جاتا ہے کہ ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کم از کم ایک تہائی حصہ ایسا ہے جسے بآسانی پوچ، لچر یا پھکڑ پن پر محمول کیا جاسکتا ہے
جان من کچھ چلا پھرا بھی کرو
ہوتی جاتی ہو اچھی خاصی بھینس
گدھا تو مر کھپ گیا
ہاتھ گاڑی چلے گی
بھوکا ہوں میں اور آپ
خاصی ٹیڑھی کھیر ہیں
بھورے ہو یا ککے تم
رنگ دار ہو پکے تم
مضمون کوئی باندھیں گے نیا
مضمون کی ایسی تیسی بھی
تو اس میں آپ کا نقصان کیا ہے
اگر تھوڑا سا گھٹیا ہو گیا ہوں
بقول سید جابر علی جابر کے “ظفر اقبال کی جدت اب جدیدیت بن گئ ہے جو بہت بڑا المیہ ہے. وہ میدان شعر کا بگٹٹ گھوڑا ہے جو باگیں تڑا کر خطرناک راہوں پر چل نکلا ہے” [2]
بیشتر جدید شعراء بالخصوص ظفر اقبال نے ایسے شعر لکھے ہیں جس میں واقعیت کے سپاٹ پن کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے. بقول احمد حمدانی” اس سپاٹ پن کو چھپانے کے لیے ایک طرفہ طریقہ ایجاد کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے. اور اگر شاعر سے عدم ابلاغ کا شکوہ کیا جائے تو وہ کہہ دے کہ یہ میرا کام نہیں میں تو صرف لکھتا ہوں کوئی سمجھے یا نہ سمجھے. ایسے شاعروں کی نظر میں زبان و بیان کے تمام اصول بے معنی ہیں ادبی روایت سے ان کا تعلق نہیں ہے. معاشرہ ان کے احساس میں موجود نہیں ہے. وہ اکیلے جو چاہیں سو کریں” [3]. جیسے ظفر اقبال کہتے ہیں
چمک چمکارنے شب شیرنے کے
مزے محکم الف انجیرنے کے
ظفر اقبال صاحب کا کہنا ہے کہ” مروج زبان میں عمدہ شاعری ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس کے ساتھ تھوڑا بہت کھلواڑ نہ کیا جائے” [4]. لیکن بات تھوڑے بہت کھلواڑ تک نہ رہی بلکہ ان کے مجموعہ کلام گلافتاب سے تو، بقول نظیر صدیقی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ “وہ شاعری میں شاعری سے ذیادہ بے تکے تجربے کے قایل ہیں اور بس” [5]. اسی مضمون میں آگے چل کر نظیر صدیقی صاحب کہتے ہیں” غزل کے جدید ترین نمایندے نہ صرف حسن ذوق سے بے بہرہ ہیں بلکہ زبان کے معاملے میں بھی فنکارانہ احساس سے بیگانہ. انگریزی کا ایک فقرہ ہے to write with a feeling for language غزل کے جدید ترین نمایندوں کے یہاں یہ خوبی کسی میں نہیں ملتی بلکہ اس کے برعکس ان کے یہاں زبان کو بھونڈے طور پر استعمال کرنے کا رجحان عام ہے” [6].
ظفر اقبال کی کتاب آب رواں کے بارے میں نقاد متفق تھے کہ یہ جدید غزل کی نمایندہ کتاب ہے. اگرچہ ظفر اقبال صاحب تو اس حد تک کہہ گئے کہ” یہ ایک رجحان ساز شعری مجموعہ تھا جس نے جدید اردو غزل کے سارے منظر نامے ہی کو تبدیل کر کے رکھ دیا” [7]. لیکن حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھنے پر بھی یہ ایک اہم مجموعہ کلام نظر آتا ہے. بقول نظیر صدیقی صاحب کے “ظفر اقبال کے یہاں وہ گہرائی اور ذہانت تو نہیں ہے جو سلیم احمد کے یہاں پائی جاتی ہے لیکن انکی شاعری کی اٹھان خاصی امید افزا تھی” [8]. خود ظفر اقبال صاحب آب رواں کے بعد درپردہ طور پر اس بات کے متمنی تھے کہ انہیں جدید اردو شاعری کا خدائے سخن تسلیم کر لیا جائے چنانچہ میر کے بارے میں رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں” یہ ضروری نہیں کہ (میر) ہمیشہ ہی خدائے سخن رہیں. اس وقت سخن کا جو عالم تھا وہ خدائے سخن ہوسکتے تھے اور تھے بھی لیکن اب سخن کی صورتحال بدل چکی ہے” [9]. دوسرے الفاظ میں یہ کہ ظفر اقبال کا ظہور ہو چکا ہے.
لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ خود ظفر اقبال کو یہ احساس ہے کہ آب رواں ان کی شاعری کی معراج ہے اور اب وہ اس سے بہتر شاعری نہیں کرسکتے اور چونکہ اس شاعری پر انہیں خدائے سخن تسلیم نہیں کیا جاسکتا اسی لیے انہوں نے شاعری میں اپنے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی جس کے وہ بلا شرکت غیرے خدا ہوسکتے تھے. گلافتاب اس نئے مزہب کی داغ بیل ڈالنے کے سلسلے میں پہلا قدم تھا. لیکن خدائی کے لیے ضروری تھا کہ انہیں خدائے سخن ماننے والے پیروکار بھی دستیاب ہوں. اگرچہ انہوں نے خود تو شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے جگہ جگہ ذکر کیا ہے کہ “میر کے بعد ظفر اقبال ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 35 سال سے ظفر اقبال کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے” [10].
اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ظفر اقبال کو چاہیے کہ اس بات کی تصدیق شمس الرحمن فاروقی سے کروا لیں وگرنہ انہیں اس معاملے میں بھی اسی طرح منہ کی کھانی پڑے گی جس طرح فاروقی صاحب کے حوالے سے خود کو غالب سے بڑا شاعر قرار دینے کے معاملے میں کھانی پڑی تھی اور بالآخر فاروقی صاحب کو خود کہنا پڑا تھا کہ “میں نے ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر کبھی نہیں کہا، کبھی نہیں لکھا. ہاں ظفر اقبال صاحب اپنی بے سری گائے جا رہے ہیں” [11].
دوسری اور اہم بات یہ کہ ظفر اقبال کا اثر محض پنجاب کے چند علاقوں تک محدود ہے. کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں ان کے رنگ میں شعر کہنے کی کبھی بھی خاص کوشش نہیں کی گئی. اس کی وجہ یہ ہے کہ بالخصوص کراچی کے شعرا میں روایت کی پاس داری اور کلاسیکی رچاؤ بدرجہ اتم موجود ہے اور یہ کلاسیکی رچاؤ ظفر اقبال کی بیشتر شاعری کو کراچی کے شعرا میں مقبول نہیں ہونے دیتا کجا یہ کہ اس رنگ میں شاعری کی جائے. یہی وجہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب کو کراچی کے شعرا سے واضح قسم کی شکایت ہے اور وہ کراچی کے شعرا کی شاعری کو شاعری ماننے پر ہی تیار نہیں “میرا مقصد کراچی کے دوستوں کو ناراض کرنا نہیں بلکہ انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ وہ موزوں گوئی اور شاعری میں جو باریک فرق ہے اسے ملحوظ خاطر رکھیں” [12]. حالانکہ کراچی کے شعرا کے پاس غزلیں کی غزلیں ایسی نکل آئیں گی کہ اس معیار کے شعر خال خال ہی خدائے سخن کی کلیات میں نظر آئیں گے. مثلاً
طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
شرط ویرانی سے واقف ہی نہیں شہر کے لوگ
درودیوار بنا کے اسے گھر جانتے ہیں
سلیم احمد
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
محشر بدایونی
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
رءیس فروغ
آج کا دن بھی عیش سے گذرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
جون ایلیا
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
انور شعور
عجیب ہوتے ہیں آدابِ رخصت محفل
کہ اٹھ کے وہ بھی چلا جس کا گھر نہ تھا کوئی
سحر انصاری
کراچی کے شعرا سے مایوس ہو کر خدائے سخن نے اپنی توجہ ان شعرا پر مبذول کر دی جن میں انھیں اپنے مذہب پر چلنے کے جراثیم نظر آئے. اس مضمون میں ہم خدائے سخن کے ایسے ہی ایک دو پیروکاروں کا ذکر کریں گے. ایسی پہلی مثال افضال نوید کی ہے۔ (جاری ہے)۔