مبصر: علامہ عبدالستار عاصم
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد 58 کے قریب ہے۔ اس وقت دنیا کا نظام مین پاور، ربڑ، تیل او رآئی ٹی کے بزنس سے چل رہا ہے۔ آئی ٹی کے سوا باقی تینوں چیزیں مسلم ممالک کے پاس ہیں۔ اسلام دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوںکی نا اتفاقی اور نا اہلی کے باعث پوری دنیا کے مسلمان پریشان اور بد حال ہیں جن میں فلسطین، افغانستان، یمن اور برما (میانمار) شامل ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے برما میں مسلمانوں کو بڑی بے رحمی سے تشدد کرکے قتل کیا جارہا ہے۔ ظلم و ستم کی یہ فلمیں (ویڈیوز) ہر روز سوشل میڈیا سے منظر عام پر آتی ہیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا مسلمان چیخ اْٹھتا ہے کہ برما میں کس طرح مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہا ہے؟ کتنے مسلمانوں کی لاشیں جلا دی گئیں یا دریائوں میں بہا دی گئیں ، اس کے اعدادو شمار کسی کے پاس موجود نہیں۔ ایسے خوفناک اور عبرتناک واقعات کے بعد مسلمان ممالک کو عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے تاکہ اس قسم کے واقعات دنیا میں دوبارہ رونما نہ ہوتے، لیکن مسلمانوں کی وہی ازلی تن آسانی کی عادت اور ہمیشہ کی سستی ، کاہلی ، غفلت اور لا پرواہی یہاں بھی دیکھنے میں آئی، کسی فرد ادارے یا حکمران نے تو کجا اقوام متحدہ جیسے ادارے نے بھی کوئی عملی اقدام نہ اٹھایا جو خود کو انسانی حقوق کے عالمی منشور کا خالق اور چیمپین گردانتا ہے اور اس کا دعویٰ بھی کرتا ہے کہ وہ اقوام عالم کے حقوق کا پاسدار ہے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ارکان ممالک میں وہ یورپی ممالک کثیر تعداد میں شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ لیکن مقام ِ حیرت ہے کہ انہیں برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بے پناہ ظلم و ستم مطلق نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ عالم اسلام اور دنیا نے ان لا چار و بے کس مظلوم مسلمانوں سے ایسا اغماض برتا اور آنکھیں چرا لیں کہ آج کسی کو یاد بھی نہیں کہ ہزاروں بے گناہ کمزور اور مجبور مسلمانوں کو، میانمار (برما) کی سیکورٹی فورسز، افواج اور بدھ مت کے پیرو کار کس بے دردی اور پرتشدد طریقے سے ذبح کررہے ہیں۔ ان کے گائوں کے گائوں نذرِ آتش کیے جارہے ہیں، ان کی شہریت ختم کر دی گئی ہے، بچوں اور خواتین کی عصمت دری ہورہی ہے جس کے نتیجے میں یہ دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت ہجرت کرنے پر مجبور ہے ، لیکن ستم بالائے ستم انہیں کوئی ملک پناہ دینے کیلئے راضی نہیں ہے۔ میڈیا میں کچھ دنوں کے لیے اک ابال اٹھا تھا جو سمندر کی جھاگ کی طرح ختم ہوگیا۔ چند ٹاک شوز اور کچھ کالم لکھنے کے بعد الیکٹرک اور پریس میڈیا برما کے مسلمانوں سے لا تعلق ہوگیا اور اب یہاں مکمل خاموشی ہے۔
ایسے میں ایک کتاب منصہ شہود پر آکر توجہ حاصل کر رہی ہے جس کا نام ’’مسلمانوں کی قتل گاہ …. برما‘‘ہے۔ اس کے مصنف و مرتب روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے کالم نگار محمد فاروق عزمی ہیں جنہوں نے ڈیڑھ دو برس کی مسلسل محنت او رتحقیق سے برما کے مظلوم مسلمانوں اور دنیا کو ان کے مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے جو ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ بے حد حساس اور درد دل رکھنے والے قلمکار محمد فاروق عزمی نے امت مسلمہ کے ان بے بس اور لا چار مسلمانوں کے لیے قلم اْٹھایا ہے اور دنیا کے مْردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے جنہیں دنیا نے یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور انھیں برمی دہشت گردوں اور متعصب سیکورٹی فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ’’مسلمانوں کی قتل گاہ …. برما ‘‘ لکھنے کا محرک وہ احساس اور جذبہ ہے جس کا ذکر آقا ؐکی اس حدیث مبارکہ میں ملتا ہے جس کا مفہوم ہے ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کا ایک عضو تکلیف محسوس کرے تو مکمل جسم بخار اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔ اس سعیِ جمیلہ کے لیے مصنف بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر انسانی تاریخ کے بد ترین تشدد اور ظلم و ستم کی داستانیں 2017 میں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے آئیں۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا او رپرنٹ میڈیا بھی کچھ وقت کے لیے انگڑائی لے کر خوابِ غفلت سے بیدار ہوا۔ اس ایشو پر ٹاک شوز ہوئے، اخبارات میں کالم اور اداریے لکھے گئے او رپھر غفلت کی چادر تان کر برما کے مسلمانوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ برما کے مسلمان کئی دہائیوں سے اپنے مذہبی، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق سے محروم ہیں، ان پر تعلیم کے دروازے بند ہیں ، روہنگیائی مسلمان دوسرے ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں بدھ مت کی تعلیمات عام کرنے کے لیے، مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ لاکھوں مسلمانوں نے جب ہجرت کرکے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ کی تلاش میں پہنچتے ہیں تو انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحدعبور کرتے ہوئے کئی بار تو انہیں سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا اور سینکڑوں نہتے لٹے پٹے مسلمان مرد اور عورتیں گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمان مرد اور عورتیں گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ قیام پاکستان سے قبل برما کے صوبہ اراکان کے روہنگیائی مسلمانوں کی قیادت نے 1946 میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کی تھی اور انہیں صوبہ ارکان کو مغربی بنگال کا حصہ ہونے کی بنا پر مشرقی بنگال میں ممکنہ تشکیل پانے والی مسلمان ریاست (پاکستان ) کے مشرقی بازو کا حصہ بنانے کی درخواست کی تھی لیکن انگریزوں کی بد نیتی اور اس وقت کے برما کے فوجی جنرل سے انگریزوں کے گٹھ جوڑ نے ’’برما‘‘ کو مشرقی پاکستان کا حصہ نہ بننے دیا۔
جب کسی قوم میں اعلیٰ و ارفع مقصد حیات کا فقدان ہو زندگی کا کوئی واضح انفرادی وا جتماعی نصب العین نہ ہو فکر و عمل میں پختگی اور مضبوطی نہ رہے ہر طرف بے عملی انتشارو تفرقہ بازی اپنے عروج پر ہو، ظلم اور نا انصافی نے ڈیرے ڈالے ہوں، ہم آہنگی اتفاق و اتحاد نا پیدہوں تو ایسے حالات کا پیدا ہوجانا کوئی حیرانی کی بات نہیں جو آج کل امت مسلمہ کو در پیش ہیں۔ اس کتاب ’’مسلمانوں کی قتل گاہ …. برما‘‘ میں خصوصاً برما کے مسلمانوں پر روا ظلم، قتل و غارت اور تشدد کی منظر کشی اورتصویر کشی کی گئی ہے۔ پاکستان میں برما کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ، لہٰذا مصنف نے کتاب کے ابتدائی صفحات میں میانمار(برما) کا تعارف، محل وقوع، صوبے، ڈویڑن، سرکاری مذہب اور زبان وغیرہ کے حوالے سے بنیادی معلومات مختصر لیکن جامع انداز سے فراہم کی ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے مصنف نے اس خطے کے پس منظر میں مسلمانوںکے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے کتاب لکھنے کی ضرورت اور مقصد کو اس طرح واضح کرتے ہیں کہ ’’ شاید کسی صلاح الدین ایوبی ، محمود غزنوی یا محمد بن قاسم تک ہماری فریاد پہنچ جائے اور کوئی درد دل رکھنے والا مسلمان (میانمار ) برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہو ، بظاہر یہ مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے لیکن رب کعبہ کی قسم، میرے رب رحمن کے لیے یہ ذرابھی دشوار نہیں ہے کہ وہ ابرہہ کے ہاتھیوںکو ننھی ننھی ابابیلوں سے کچل کر رکھ دیتا ہے، ہوسکتا ہے کہیں کوئی محمد بن قاسم یا صلاح الدین ایوبی اپنی تلوار کی دھار کو پرکھ رہا ہو یا پرندوںکا کوئی غول چونچ میں کنکریاں لیے اللہ تعالیٰ کے اشارے کا منتظر ہو‘‘۔
کتاب کا انتساب دل کا دامن کھینچتا ہے جو مصنف نے تاریک راہوں میں مارے گئے ان مسلمانوں کے نام کیا ہے جن کا درد کسی نے محسوس نہ کیا۔ ظلم دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے اور خاموشی سے اپنی دنیامیں مست رہنے والوں کے لیے حضرت سیدنا امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کا یہ قول ابتدائی صفحات میں کتاب لکھنے کے اغراض و مقاصد کا بہترین ابلاغ کراتا ہے۔ جس میں انہوں نے فرمایا تھا : ’’مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی، کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ خاموش امت کا نام ہے جہاں پر بھی ظلم ہو اور امت خاموش رہے وہ جگہ کو فہ اور لوگ کوفی ہیں۔
محمد فاروق عزمی ایک حساس اور درد دل رکھنے والے قلمکار ہیں۔ کتاب کے فلیپ پر جناب خالداے مجید نے ان کی اس کاوش کو عظیم قلمی جہاد قرار دیا ہے جس سے کلی طور پر اتفاق کیا جاسکتا ہے۔کتاب خوبصورت فور کلر صفحات کے ساتھ باتصویر عمدہ کاغذ اور طباعت سے آراستہ ہے اور قلم فائونڈیشن کی کتابوں کی فہرست میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
کشمیر کی وادی میں لہرائیں گے ہم پرچم
اطہر عباسی۔جدہ