جنون اور عشق سے ملتی ہے آزادی

371

رمشا جاوید
میں کافی دیر سے ان نوجوانوں کو دیکھ رہا تھا۔ جو برستی گولیوں میں اپنے اپنے گھروں سے پاکستان کا پرچم لہراتے آزادی کا نعرہ بلند کرتے ایک قافلے کی صورت میں دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے تھے۔ سنسناتی ہوئی گولی آتی اور ان کا جسم چھلنی کردیتی۔۔ وہ زمین پر گرتے اور ان کا جھنڈا گرنے سے پہلے ہی دوسرے نوجوان کے ہاتھ میں پہنچ جاتا۔
” ہم عوام اتنے بے حس ہوچکے ہیں کے دردناک تصاویر اور ویڈیوز سے بھی نہیں ڈرتے۔ انہیں دیکھنا ، شئیر کرنا ، اپنی رائے دینا اور اس کے بعد ٹھنڈے پڑجانا۔۔ بس یہی ہمارا ایمان ہے۔” احسن کب میرے برابر میں آکر بیٹھا مجھے کچھ اندازہ نہ ہوا۔ ہاں جب اس نے اپنا بے تکا تبصرہ کیا تو میں نے اسے گردن موڑ کر تعجب سے دیکھا۔
“کیا تمہیں معلوم ہے یہ کون لوگ ہیں۔۔؟؟”
“ہاں یہ کشمیری ہیں۔ بچہ بچہ انہیں جانتا ہے۔” احسن نے میرے سوال پر عجیب سے انداز میں مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا گویا میری کم عقلی پر افسوس کررہا ہو۔ لیکن افسوس کا وقت تو اس کے لیے تھا۔
” نہیں یہ کشمیری نہیں۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے موت کے معنی بدل دیے۔ ہم انہیں بے حس ہوکر نہیں دیکھتے بلکہ ان کے جزبوں اور جنون کو دیکھتے ہوئے تصور میں کشمیر کی آزادی دیکھتے ہیں کیونکہ جب موت کے معنی بدل دیے جائیں تو آزادی قدم چومتی ہے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے کئی بار سنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے ہمارے آباواجداد نے بڑی عظیم قربانیاں دیں۔ اپنے ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، عزیز و اقارب کو قربان ہوتے دیکھا۔حصول پاکستان کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کتنی مائوں کے سامنے ان کے بچے قتل کر دئیے گئے۔ کتنی پاکدامنوں نے نہروں اور کنوئوں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی۔ کئی بچے یتیم ہوئے جو ساری زندگی والدین کی شفقت کے لیے ترستے رہے۔
نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپوشہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستان ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے۔1857 کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں ‘ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں بر صغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اور ان قربانیوں کے بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا۔ قائد اعظم نے نہایت خوبصورت بات کہی تھی کہ ’’پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا جس دن بر صغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔‘‘
کیونکہ مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ با بار سامنے آتے رہے تھے۔ اور ان عظیم کشمیریوں کے ہاتھوں میں موجود پتھر ، اسلام دشمنان سے نفرت کا کھلا اظہار ہے۔ یہ پاکستان کا لہراتا پرچم جسے یہ کسی صورت گرنے نہیں دیتے ، ان کے شہدا کا کفن بھی یہ پرچم بنتا ہے اور یہ ان کے جزبے، جنون اور پاکستان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آزادی جنون اور عشق سے ملتی ہے۔ یقین مانو ، دشمنوں کے لیے کشمیریوں کا جنون ہی ایک بہت بڑی شکست ہے۔۔ اسلام یونہی کراہ ارض پر نہیں پھیل گیا ، کئی نبیوں اور صحابہ کرام کا خون بہا ، ہر چیز قربانی مانگتی ہے اور کشمیریوں کا جوش و جزبہ انہیں ایک روز ضرور آزادی دلائے گا۔ ان شاء اللہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہم 14 اگست کو صرف پاکستان کی آزادی کا نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی کا جشن بھی منائیں گے۔

حصہ