رمشاجاوید
۔”تم اور تمہاری جماعت نے کشمیر کو بچانے کے لیے کیا کیا۔۔؟؟” یہ ایک عجیب و غریب سوال تھا۔ گو کہ نازک حالات میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے بجائے آپس ہی میں الجھنا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا مجھے کافی عجیب لگا ، بہرحال میں نے جواب دیا۔
“میں نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا۔ آواز کو بلند کیا، قلم کی جنگ میں حصہ لیا۔ میری جماعت کے لیڈر سراج الحق نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انڈین جارحیت کے خلاف قرارداد سینیٹ میں منظوری کے لیے جمع کروائی۔ لاکھوں کی تعداد میں بچوں ،بڑوں ، بوڑھوں ، جوانوں اور خواتین نے احتجاجی مارچ کیا اور۔۔۔”
“بس یہی کرسکتے ہو تم لوگ۔۔ جہاں کہیں کچھ ہوا فورا سڑکوں پر نکل کر اپنے نمبرز بڑھوانے شروع ہوجاتے ہو اور واپس گھروں کو چلے جاتے ہو۔ بیوقوف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو اچھا بھی ثابت کرلیتے ہو۔ اگر اتنے اچھے ہو تو جہاد کے لیے کیوں نہیں نکلتے۔۔؟” تحمل سے کسی کی بات کو مکمل سننا بھی ایک ہنر ہے۔ اور یہ ہنر گھر والوں کے سامنے زیادہ موبائل استعمال کرنے سے حیرت انگیزطور پر ہمارے اندر پیدا ہوگیا ہے۔
“دیکھو بہن! جہاد کا اعلان ریاست کرتی ہے۔ اور اگر آپ یہ بات محسوس کررہی ہیں کہ یہی جہاد کو مناسب وقت ہے تو آپ حکومت کو قائل کریں کہ وہ جہاد کا اعلان کرے۔ ہمارے جوان تو شوق سے شہادت کا جام نوش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور اگر آپ کو ڈر ہے کہ حکومت جہاد کا اعلان نہیں کرے گی تو پھر اسے بدلنا ضروری ہے۔ ووٹ کی گنتی کے ھیر پھیر سے تو آپ لوگ جیت جاتے ہیں۔ ہمارے پاس مسلح جدوجہد کا راستہ بچتا ہے اور یہ ایک غلط راستہ ہے ، چونکہ جماعت اسلامی غلط راستے کو نہیں چنتی جب ہی وہ جمہوری راستے سے حکومت کو مجبور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ وہ کشمیریوں کی مدد کرے اور خاموش تماشائی نہ بنے۔” معقول جواب دینے کے بعد فخریہ مصنوعی کالر جھاڑتے ہوئے ہم نے اپنی “سوتیلی پارٹی کی سوتیلی بہن” کی جانب دیکھا۔ اس امید پر کہ شاید ہمیں کوئی داد شاد مل جائے۔ لیکن موصوفہ ہم پر ایک اچٹی نظر ڈال کر چلی گئیں۔ صحیح کہتے ہیں سیانے۔ یہ جو سوتیلے ہوتے ہیں ناں یہ کبھی اپنے نہیں ہوتے۔