کتب میلے کی سیر

1480

فاطمہ عزیز
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک رات ہم فیس بک پر اسکرولنگ کررہے تھے کہ ایک اشتہار ہماری نظروں سے گزرا۔ اشتہار تھا کتب میلے کا، جو کہ کچھ یوں تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا کتب میلہ سجنے جارہا ہے ایکسپو پر، جس میں کتابوں کی خریداری پر آپ کی سب سے بڑی بچت ہوگی اور ایسا کراچی میں پہلی بار ہوگا۔ ہم ٹھیرے کتابی کیڑے، فوراً ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ کتب میلہ بگ بیڈ وولف (Big Bad Wolf) نامی کمپنی نے لگایا تھا جو کہ دنیا بھر کے پبلشرز سے بچی ہوئی کتابیں خرید کر انہیں سستے داموں بیچتی ہے۔ اشتہار میں ہم سے پوچھا جارہا تھا کہ ہم میلے میں جائیں گے یا نہیں؟ ہم نے بڑے مزے سے ’’ہاں‘‘ کا بٹن دباکر ان کی دعوت قبول کی کہ ہاں ہم ضرور جائیں گے، کہ ہمارا بس بٹن دبانے تک ہی چلتا ہے۔ اب ہمارے دماغ میں مختلف ترکیبیں آنے لگیں کہ کس طرح اپنے شوہر عزت مآب کو کتب میلے میں چلنے کے لیے راضی کیا جائے جو کہ کتابوں کے شوقین تو ہرگز نہیں ہیں، اس کے علاوہ آدم بے زار بھی ہیں، آفس سے آنے کے بعد کہیں جانے کا شغف نہیں رکھتے عموماً مردوں کی طرح…
خیر، بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے یہ فرمائش اپنے میاں کے سامنے رکھ دی کہ ہمیں کتب میلے میں جانا ہے، اور فرمائش اس انداز میں کی کہ اس میں دھمکی کا عنصر نمایاں رہے۔
انہوں نے فرمائش میں چھپی دھمکی بھانپ لی، چونک کر ہمیں دیکھا اور سر ہلا دیا۔ ہم سمجھ گئے کہ فرمائش نوٹ کرلی گئی ہے۔ مثبت بات یہ تھی کہ کتب میلہ بارہ دن کے پورے چوبیس گھنٹوں کے لیے لگایا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ کتب میلے میں انٹری مفت تھی۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوگئے کہ بارہ دنوں میں کسی دن تو میاں صاحب کو وقت مل ہی جائے گا۔
کہا گیا تھا کہ اس کتب میلے میں دس لاکھ سے زائد انگریزی کی کتابیں ہیں، اور ہر مصنف کی کتاب پر 50 سے 90 فیصد تک رعایت ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ نمائش تمام دنوں میں 24 گھنٹے کھلے رہنے کی منفرد خصوصیت کی وجہ سے بھی مشہور ہورہی تھی۔ کرنا یہ ہوا کہ کتب میلے کے شروع دنوں میں کراچی میں زبردست بارش ہوگئی اور ہم یہ سوچتے رہے کہ میلے میں زیادہ لوگ نہیں جا پائے ہوں گے۔ جانے سے پہلے ہم چاہ رہے تھے کہ کچھ لوگوں سے رائے طلب کرلی جائے جو کہ کتب میلے میں جا چکے ہوں۔ مگر ہر طرف ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ سوشل میڈیا میں یہ کیسی پراسرار خاموشی ہے کہ دوست حضرات، سہیلیاں، خاندان والے سارے ہی کتابوں کے شوقین، ادب سے شغف رکھنے والے ہیں، مگر پھر بھی کوئی میلے کے بارے میں تبصرہ نہیں کررہا، نہ واٹس ایپ پہ کوئی رنگین تصاویر سے مزین کتابیں تھیں، نہ فیس بک پر لوگوں کے اشتیاق آمیز اسٹیٹس۔ خیر، ہم اپنا جمع جتھا سنبھال سنبھال کر رکھتے رہے کہ بہت سی کتابیں خریدیں گے۔ آخرکار وہ دن آ ہی گیا جب میاں صاحب نے کتب میلے میں جانے کا عندیہ دیا کہ اتوار کو صبح صبح نکل جائیں گے ورنہ رش ہوجائے گا۔ اُن کا مطلب تھا سڑکوں پر۔ ہم سمجھے، میلے میں۔ ہم نے خوشی خوشی ہامی بھر لی۔ صبح ایکسپو پہنچتے پہنچتے بھی گیارہ بج گئے۔ وہاں توقع کے برعکس اتنا رش نہیں تھا۔ ہم نے دل کو تسلی دی کہ اتوار کے دن لوگ صبح صبح کہاں اٹھتے ہیں۔
ہال نمبر پانچ میں داخل ہوئے تو انتظام دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ بڑا سا ہال اسٹالز سے بھرا ہوا تھا، جہاں ہر طرف کتابیں جگمگا رہی تھیں۔ اے سی کی ٹھنڈک ماحول کو خوش گوار بنا رہی تھی۔ ایک طرف بہت سی ٹرالیاں قطار میں لگی ہوئی تھیں کہ کتب پسند کرکے اس میں ڈالی جائیں، دوسری طرف بہت سی میزوں پر کمپیوٹر جگمگا رہے تھے اور ان پر لوگ کام کررہے تھے۔ ہم پہلی نظر میں سمجھے کہ آن لائن لائبریری کا بھی انتظام ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کیش کائونٹر تھے۔ ہمارے ساتھ ہی ایک اسکول کے بچے قطار بنائے ہال میں داخل ہوئے۔ ہم نے اسکول والوں کو داد دی کہ نئی نسل میں کتابوں کا شوق بیدار کررہے ہیں۔ لوگ چیدہ چیدہ کتابیں دیکھ رہے تھے، ہم نے بھی قدم بڑھائے کہ کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ کتابیں بہت سلیقے اور قرینے سے سجائی گئی تھیں۔ ہم اس محنت سے بہت متاثر ہوئے، ورنہ عموماً تو کتب میلے میں نہ قرینہ ہوتا ہے نہ سلیقہ، بس کتابوں اور لوگوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
پلاسٹک کورز میں محفوظ کتابیں ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک کتاب، بچوں کی، بڑوں کی، کھانوں کی، صحت کی، جغرافیہ کی، اردو میں، انگلش میں ہر طرح کی کتاب… واہ بھئی مزا آگیا دیکھ کر۔ ہم نے مطالعے کے لیے کتاب اٹھائی، کھولنا چاہی مگر کتاب پلاسٹک میں محفوظ تھی اور سامنے بورڈ منہ چڑا رہا تھا کہ ’’کتابیں خال الخاص ہیں، کور مت اتاریں۔‘‘ ہم بہت بے مزا ہوئے۔ قیمت پر نظر ڈالی تو چونک گئے۔ اتنی مہنگی کتاب وہ بھی سیل کے اسٹال پر! اب ہم سستی کتاب کی تلاش میں اسٹال در اسٹال پھرے مگر سستی کتاب بھی پانچ سو، چھ سو کی تھی۔ ہزار، دو ہزار تو معمولی بات تھی۔ ہم چکرا گئے، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ Original کتابیں ہیں جو کہ باہر سے امپورٹ ہوکر آئی ہیں اور ان کی اصل قیمت پانچ، چھ ہزار روپے ہے، سیل پر ہزار، دو ہزار کی ہیں۔ یہ جان کر ہمیں سخت مایوسی ہوئی اور لوگوں کی عدم موجودگی کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی۔
اتنی پیاری پیاری نئی نئی کتابیں، ان میں موجود ایک الگ دنیا پلاسٹک کے کورز میں بند۔ ہم نے کتاب انتہائی قیمتی سمجھتے ہوئے چپ چاپ احتیاط اور سلیقے سے واپس رکھ دی اور گھر کی راہ لی، یہ سوچتے ہوئے کہ اس سے بہتر تو ہمارے فریئر ہال کا ہفتہ وار کتب میلہ ہے جہاں عمدہ اور سستی کتابیں ہر ہفتے موجود ہوتی ہیں۔ ہمیں دسمبر 2017ء کا ایکسپو سینٹر میں لگنے والا عالمی کتب میلہ یاد آگیا جو پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ایسوسی ایشن اور نیشنل بک فائونڈیشن کی جانب سے لگایا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ اس پانچ روزہ میلے میں تین کروڑ سے زائد کتابیں فروخت ہوئیں اور چھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔
بہرحال کتب میلہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہوتی ہے، لہٰذا ہماری تو خواہش ہے کہ اسے سال میں دو دفعہ لگایا جائے، لیکن قیمتیں یوں آسمان سے باتیں نہ کریں، بلکہ عام آدمی کی پہنچ سے میں ہوں، تاکہ ہم اور ہماری طرح کے دیگر لوگ انہیں محض دیکھ کر نہ رہ جائیں۔

حصہ