افروز عنایت
دوسری اور آخری قسط
اس سرزمین کی خاص بات جو یہاں آنے والوں کو شدت سے محسوس ہوتی ہے، یہ ہے کہ میرے نبیؐ کا یہ شہر بڑا ’’ٹھنڈا‘‘ ہے۔ پُرسکون فضا دل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ راحت (بڑا بیٹا) کو پہلی مرتبہ عمرہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، اس نے مدینہ کی سرزمین پر قدم رکھ کر چند ہی لمحوں میں اس بات کو محسوس کیا کہ مدینہ ٹھنڈا اور پُرسکون ہے۔ یہاں سکوت ہے، یہاں کے لوگ بھی ’’نرم مزاج‘‘ کے لگتے ہیں۔ سبحان اللہ آخر یہ میرے نبیؐ کا شہر ہے۔
کوئی مدینہ آئے اور جنت البقیع کے مدفین پر فاتحہ نہ پڑھے ایسا ناممکن ہے۔ قبرستان کے چاروں طرف آہنی گرل تھی۔ عورتوں کا قبرستان کے احاطے میں داخلہ ممنوع ہے، لہٰذا ہم نے باہر سے ہی اہلِ قبور کے لیے فاتحہ پڑھی، جبکہ دونوں بیٹوں کو وہاں دو تین مرتبہ قبور پر فاتحہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
٭…٭…٭
پانچویں دن ظہر کی نماز مسجدنبوی میں پڑھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ گرچہ مدینہ سے مکہ کے سفر کا دورانیہ آٹھ سے نو گھنٹے ہے، لیکن آرام دہ بس میں سفر پُرسکون گزرا۔ مدینہ منورہ سے تقریباً 18 کلومیٹر کے فاصلے پر مسجد ذوالحلفیہ سے احرام باندھ کر عمرے کی نیت کی۔ عدینہ کو میں نے پہلے ہی تیار کرلیا تھا کہ احرام یا عمرہ کے لیے کن احتیاطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ماشاء اللہ عدینہ کافی سمجھ دار اور ذہین بچی ہے، فوراً بات کو سمجھ جاتی ہے۔ عمرے کے دوران بھی ہم اُس کی رہنمائی مسلسل کرتے رہے اور وہ بڑوں کی طرح ہر چیز پر عمل کررہی تھی۔ شائستہ (بہو) کا بھی پہلا عمرہ تھا، میں اس کی بھی رہنمائی کررہی تھی، وہ بھی بار بار شکر ادا کر رہی تھی کہ امی میرے ساتھ ہیں اس لیے مجھے کوئی مسئلہ پیش نہیں آرہا ہے، ورنہ شاید دقت پیش آتی… ویسے یہ ایک حقیقی امر ہے کہ اس مبارک سفر میں خصوصاً خواتین کے ساتھ کوئی اپنی عزیزہ ہم سفر ہو تو نہ صرف آسانی ہوتی ہے بلکہ ہر ہر لمحہ خوشگوار گزرتا ہے۔ الحمدللہ حج کا موقع ہو یا عمرے کا، میرے ساتھ پیاری دوست ہمیشہ رہیں۔
٭…٭…٭
بات ہورہی تھی مدینہ سے مکہ کے سفر کی۔ آٹھ نو گھنٹے کا یہ سفر دلچسپ و یادگار رہا۔ رات کا کھانا ہم نے راستے میں ایک ہوٹل میں کھا لیا تھا تاکہ مکہ مکرمہ پہنچ کر فوراً پہلے عمرہ ادا کرسکیں۔ مکہ پہنچنے سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ایک ہوٹل پر ڈرائیور نے بس روک دی۔ یہاں بہت سی گاڑیاں جو مکہ کی طرف جارہی تھیں نمازِ عشاء اور کھانا تناول کرنے کے لیے رکی ہوئی تھیں۔ جو لوگ مکہ اور مدینہ جا چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ راستے میں جا بجا مساجد اور ہوٹل ہیں جہاں زائرین وقت پر باجماعت نماز بھی پڑھتے ہیں اور ہوٹلوں میں پاکستانی، عربی اور چائنیز کھانے بھی مناسب قیمت پر کھاتے ہیں۔ آرام دہ سفر کی وجہ سے ہشاش بشاش رات ساڑھے نو بجے ہوٹل پہنچے۔ ہوٹل حدودِ حرم میں تھا، لہٰذا سامان کمرے میں رکھ کر ہم نیچے حرم میں آگئے۔
سبحان اللہ… حرمِ کعبہ کے پُرنور سماں نے آنکھوں اور دل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چندھیائی آنکھوں سے ہم کعبہ کو تک رہے تھے۔ گرچہ عبداللہ (چھوٹا بیٹا) اور میرا کئی مرتبہ عمرہ و حج ادا کرنے کا اتفاق ہوا ہے الحمدللہ، مگر یہاں اس مقام پر پہنچ کر انسان بے بس… گریہ وزاری اور ربِّ کعبہ سے سرگوشیوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔ کعبہ پر پڑے جو پہلی نظر تو… ان گنہگار آنکھوں سے آنسو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لڑکھڑاتی و ٹوٹی پھوٹی زبان سے چند جملے زبان سے نکلے ’’اے میرے مالک! نہ جانے مجھ گنہگار کی کون سی ادا بھا گئی ہے تجھ کو کہ اس در پر بار بار لارہا ہے جس کی حاضری کے لیے ہر مسلمان تڑپتا ہے، جس طرح تُو نے مجھے اس جہاں میں بے شمار انعامات سے نوازا ہے اُس دنیا میں بھی ایسی کرم کی نظر کرنا۔ (آمین)‘‘
چاروں طرف روح پرور اور ایمان افروز مناظر، خواتین کے ڈھکے سر، عبایوں میں لپٹے جسم… دنیا جہاں سے بے خبر صرف اپنے رب سے سرگوشیاں تھیں۔ ان مناظر کو میں اپنے قلم کی زد میں لانے سے قاصر ہوں۔
بڑے بیٹے اور بہو کی دلی کیفیت نہ جانے کیا تھی اُس وقت۔ میرے ان بچوں کی پہلی حاضری اس در پر تھی لیکن ان کی بھیگی آنکھیں خاموش عکس تھیں، دل کی ترجمان تھیں۔ پاکستان پہنچ کر ابھی تک وہاں کے تذکرے ان کی زبانوں پر ہیں۔
٭…٭…٭
بسم اللہ کہہ کر ہم نے عمرہ شروع کیا۔ رش بہت زیادہ تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں گرمی زیادہ تھی (جبکہ مدینہ ٹھنڈا تھا)، اسی لیے زیادہ تر لوگ رات میں اور فجر کے بعد عمرے کی ادائیگی کے لیے آرہے تھے۔ لیکن بندگانِ خدا گرمی کی پروا بھی نہیں کررہے تھے۔ عدینہ کو بڑا شوق تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دے، لیکن اس قدر رش تھا کہ وہاں تک پہنچنا خواتین اور بچوں کے لیے مشکل تھا، لیکن اس کی خواہش پر اس کے چاچو اسے غلافِ کعبہ کو چومنے اور حطیم میں نوافل پڑھنے کے لیے دو تین مرتبہ لے کر گئے۔ ہم سب نے گھیرا بناکر اسے نفل پڑھنے کے لیے جگہ بناکر دی۔ صفا و مروہ پر بھی اس کی خوشی اور دلچسپی دیدنی تھی۔ اللہ کی ان نشانیوں کے بارے میں ہم نے اُسے جو بتایا تھا وہ اسے ازبر ہے۔ وہاں بھی وہ ان واقعات کو بار بار ہم سے شیئر کررہی تھی۔ واپس آکر بھی وہ چاچو اور مجھ سے ان اسلامی واقعات کے بارے میں سوال جواب کررہی تھی۔ اس عمر میں ویسے بھی بچوں میں تجسس پایا جاتا ہے۔ ان کے سوالات کا صحیح جواب دینا اور انہیں مطمئن کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بھیڑ اور رش میں عدینہ اپنے بابا سے زیادہ چاچو کی انگلی تھامے رہی۔ بلال تھکاوٹ کی وجہ سے اونگھ رہا تھا، لیکن عدینہ ہشاش بشاش ہر چیز اور ہر لمحے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ الحمدللہ 2 بجے ہم عمرہ سے فارغ ہوگئے۔ میں نے اپنے پرس میں قینچی رکھ لی تھی، لہٰذا میں نے عدینہ، شائستہ اور اپنے بالوں میں سے ایک پور جتنے بال کاٹے۔ وہاں بہت سے لوگ میرے گرد آکر جمع ہوگئے کہ آپ ہمیں یہ قینچی دے سکتی ہیں تاکہ ہم بھی بالوں کا حلق کرسکیں۔ یہاں میں نے نوٹ کیا کہ کچھ خواتین اس عمل کو صحیح نہیں انجام دے پارہی تھیں، لہٰذا میں نے بہت سی خواتین کی مدد کی، اور ان کی رہنمائی کی۔ صفا و مروہ پر بیٹھ کر عدینہ نے اپنی سیلفی بنائی کہ اپنی دوستوں کو دکھائوں گی۔
٭…٭…٭
مکہ میں چھ دن کے قیام میں دو مرتبہ عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پورے حرم مکہ میں اللہ کی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن کی فضیلت کا بیان قرآن پاک اور احادیث میں موجود ہے۔ شہر مکہ جس کو البدالامین اور ام القریٰ بھی کہتے ہیں، یہاں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلینؑ کعبہ کے طواف کے لیے حاضر ہوئے۔ اس مقدس شہر کے آباد ہونے کے تمام واقعات سے مسلمان واقف ہیں۔ یہاں کی خاص زیارتوں میں غارِ ثور، مسجدِ نمرہ، جبلِ رحمت، مسجدِ جن، مسجدِ فتح، غارِحرا، جنت المعلیٰ وغیرہ شامل ہیں۔ غارِ حرا کا خوبصورت نظارہ تو ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے روزانہ ہورہا تھا۔ عدینہ کو اس غار کے پس منظر کے بارے میں جب ہم نے بتایا تو وہ سن کر حیران ہوگئی کہ آپؐ کس طرح اس اونچائی پر جاتے تھے اور حضرت خدیجہؓ روزانہ پانی کا مشکیزہ اور کھانا پہنچاتی ہوں گی۔ یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر نہیں، بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے ساٹھ ستّر میٹر نیچے مغرب کی سمت جانا پڑتا ہے، پھر نشیب میں اتر کر بلندی کی طرف جانا پڑتا ہے جہاں یہ غار موجود ہے۔ غار کی لمبائی سوا دو میٹر ہے۔ چالیس سال کی عمر ہوئی تو آپؐ کچھ خوراک لے کر اس پہاڑ پر غار میں پہنچ جاتے جہاں آپؐ غور و فکر اور رب العزت کی عبادت میں مصروف ہوجاتے۔ یہیں آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ آپؐ کو آخری نبی ہونے کا اعزاز عطا فرمایا گیا۔
میں ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے اس مقدس پہاڑ کا نظارہ کرتی اور آپؐ کو اس پہاڑ سے اترتے چڑھتے محسوس کرتی۔
٭…٭…٭
مکہ شریف میں سات دن کے قیام کے دوران دو مرتبہ عمرہ کرنا نصیب ہوا۔ رش بہت زیادہ تھا، لیکن ان مقاماتِ مقدسہ پر رش تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔ اس رش میں بہت سے لوگ کوشش کررہے تھے کہ کسی دوسرے بندے کو تکلیف نہ پہنچے، لیکن بہت کم تعداد ایسی بھی نظر آئی جو اس بات کا خیال نہیں رکھ رہے تھے، خصوصاً یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورتوں سے نہ ٹکرایا جائے، لیکن کچھ غیر ملکیوں کو میں نے نوٹ کیا کہ نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھ رہے تھے۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارے ہر فعل و عمل اور عبادات میں نظم و ضبط کی تربیت و تلقین کی گئی ہے، جس کا ہر جگہ اور ہر موقع پر خیال رکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔
٭…٭…٭
عمرے کی ادائیگی میں طواف، مقام ابراہیم پر نفل ادا کرنا، سعی کرنا، بال کتروانا لازمی امور، بلکہ رکن ہیں۔ ان کے بغیر عمرہ نامکمل ہے۔ یہاں اللہ کی نشانیاں موجود ہیں۔
امام حسن بصری نے فرمایا ہے ’’اس سرزمین مکہ کے سوا کوئی ایسا شہر نہیں جس کی طرف تمام انبیاء، تمام ملائکہ اور جن و انس میں سے زمین و آسمان کے تمام نیک بندوں نے سفر کیا ہو۔‘‘
روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز آپؐ قیام فرما ہوئے اور فرمایا ’’بے شک اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن مکہ مکرمہ کو حرمت والا بنادیا تھا، لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کے حرمت والا بنانے کی وجہ سے قیامت تک حرمت والا رہے گا، نہ یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا، اور میرے لیے بھی یہ صرف تھوڑی دیر کے لیے حلال ہوا تھا۔‘‘
سبحان اللہ، بڑے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو اس در پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ رب العزت ہم مسلمانوں کو بار بار یہاں حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
مکہ میں سات دن کے قیام میں ہماری کوشش تھی کہ روزانہ ایک یا دو مرتبہ ضرور طواف کیا جائے۔ ہمارے ساتھ عدینہ بڑے شوق سے طواف کرتی، جہاں موقع نصیب ہوتا ہم حطیم میں نوافل بھی ادا کرتے۔ حجر اسود تک رسائی بہت مشکل تھی، لہٰذا دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیتے اور استیلام کرتے۔
جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حجر اسود کا استیلام کیا اور پھر اس کے دائیں جانب چل پڑے اور تین چکروں میں رمل کیا، اور پھر باقی چار میں آرام سے چلے۔ (صحیح مسلم)
یعنی ہم آپؐ کی اتباع کرتے ہیں اور اسی طرح طواف کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
صفا و مروہ جس کی سعی حج و عمرہ کے رکن میں شامل ہے، یہ مسجد الحرام سے متصل دو پہاڑیوں کے نام ہیں۔ ان دو پہاڑیوں کے درمیان سعی کی جاتی ہے جو تقریباً 395 میٹر ہے۔ یہ پرانے زمانے میں بڑی بلندی پر تھیں، لیکن وقت کے ساتھ مسجد الحرام کی وسعت کی وجہ سے ان کے حجم میں کمی آگئی اور آج اس کی بلندی آٹھ میٹر رہ گئی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ان پہاڑیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’بے شک صفا و مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہٰذا جب کوئی شخص حج و عمرہ کرے اُس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ ان دو پہاڑیوں کا چکر لگائے، اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدردان اور اس سے خوب واقف ہے۔‘‘
٭…٭…٭
میں یہاں ایک بات آپ سے ضرور شیئر کروں گی کہ حج یا عمرہ میں صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہوکر اطمینان و سکون سے ایک جگہ بیٹھ کر دعائیں مانگنے سے جو قلبی سکون حاصل ہوتا ہے اس کا احساس ہی بڑا عجیب اور سکون بخش ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بارگاہِ الٰہی میں اللہ نے میرے اس فعل کو، اس عبادت کو قبول فرما لیا ہے۔ یقینا یہاں پہنچ کر آپ سب کے دلوں میں بھی یہی سکون بخش احساس پیدا ہوتا ہوگا۔
٭…٭…٭
مکہ مکرمہ جائیں اور وہاں کے تاریخی مقامات کی زیارت نہ کریں ایسا ممکن نہیں۔ میں اپنے پچھلے سفرنامے میں اس بارے میں کافی لکھ چکی ہوں۔ یہاں چند خاص باتوں کا ذکر ضرور کروں گی۔ جنت المعلیٰ بلائی علاقے کو المعلیٰ کہا جاتا ہے اس نسبت سے اس قبرستان کو المعلیٰ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ المعلیٰ بالائی علاقے میں واقع ہے۔ اس قبرستان میں اُم المومنین سیدہ خدیجہؓ مدفون ہیں۔ یہاں ہم رات تقریباً 8 بجے بعد نماز مغرب پہنچے اور مدفون ہستیوں پر فاتحہ پڑھی۔ عدینہ کو گود میں اٹھاکر اسے اماں خدیجہؓ کی قبرِ مبارک دکھائی۔ عدینہ کو یہ جاننے کا شوق تھا کہ مناسکِ حج کے لیے کون کون سی جگہوں پر جانا ہوتا ہے اور کیا کیا جاتا ہے، لہٰذا ایک دن ان تمام مقاماتِ مقدسہ کی زیارتوں کے لیے مختص کیا گیا۔
جبل رحمت، مقام منیٰ، مسجدِ نمرہ، مزدلفہ، میدانِ عرفات اور مسجد خیف… نہ صرف ان تمام مقامات کو عدینہ نے دلچسپی سے دیکھا بلکہ ان کے بارے میں سوال جواب کرتی رہی۔ میں اسے اپنے پہلے والے حج (2008ء) کی تمام روداد اور واقعات ساتھ ساتھ بتاتی گئی۔ مجھ سے بار بار کہتی کہ کیا میں بھی یہاں حج کرنے آئوں گی؟ میں نے اسے تسلی دی اور کہا: ان شاء اللہ ضرور، آپ اپنے بابا اور مما کے ساتھ حج کرنے آئو گی۔ بلکہ جب ہم یہاں کی بہت سی حسین یادوں کے ساتھ پاکستان پہنچے تو عدینہ کی زیان پر وہیں کی باتیں تھیں۔ شاید اس کی عمر کا تقاضا ہے یا یہ مقام مقدسہ کی برکت ہے جو سب کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، جن سے آسانی سے باہر نکلنا مشکل ہے۔ وہاں کے روح پرور ایمان افروز مناظر، اذانوں کی گونج، اللہ اکبر کی صدائیں، اشکبار آنکھیں اور بارگاہِ الٰہی میں اٹھے ہوئے لرزتے ہاتھ، اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا اعتراف کرنا، توبہ و استغفار کرنا، رب سے سرگوشیاں، غلافِ کعبہ کو تھام کر آنکھوں اور دل سے لگاکر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا… یہ سب گھڑیاں، یہ سب لمحے مجھے نہیں بھولتے تو عدینہانہیں کس طرح فراموش کرسکتی ہے! رب العزت ہم سب کو بار بار مقام مقدسہ پر حاضری اور عمرہ و حجِ مبرور کی سعادتیں نصیب فرمائے۔ آج کل میرے بہت سے عزیز و اقارب اس در کی حاضری کے لیے جارہے ہیں، میں انہیں رشک سے دیکھ رہی ہوں اور ان کے حج مبرور اور سلامتی کے لیے دعا مانگ رہی ہوں کہ رب العزت تمام حجاج کرام کو خیر و عافیت کے ساتھ حج مبرور کی سعادت سے ہم کنار فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین۔ اور مجھ گنہگار سمیت میرے تمام گھر والوں کی ان مقاماتِ مقدسہ پر ادا کی گئی عبادات کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ دے، آمین۔