خالد معین
(آخری قسط)
وادی ِ ہنزہ کے مقامی اور روایتی کھانے بھی بڑے دل چسپ اور لذیذ ثابت ہوئے۔ ایک ہوٹل دو مقامی بہنیں چلاتی ہیں اور وہاں چند خاص مقامی ڈشیں بناتی ہیں، ساتھ میں تازہ پھلوں کے رس ہوتے ہیں۔ چند دکانوں پر ستّر اسّی سال کی مقامی بوڑھی خواتین بھی نظر آئیں، جو دکان کے سامنے اپنے کلچرل ڈریس میں بنی سنوری بیٹھی دکھائی دیں، جب کہ دکان اُن کے بیٹے، پوتے یا نواسے چلا رہے تھے، اور وہ پوری تمکنت اور وقار سے دکان کی زینت بڑھا رہی تھیں۔
وادی ِ ہنزہ کے بعد ہمارا آخری پڑائو ناران تھا۔ وادی ِ ہنزہ میں موسم بڑا معتدل ملا، ہلکی سردی۔ تاہم ناران میں ایک بار پھر بڑے غضب کی سردی سے پالا پڑا۔ ناران کے چند دن اسی بلا کی سردی میں گزرے، جہاں ایک دوبار درجۂ حرارت منفی بھی ہوا۔ چاروں طرف وہی برفیلے پہاڑوں کے سلسلے۔ ایک دن جھیل سیف الملوک بھی گئے۔ وہی جیپ کا سفر، پُرپیچ راستے، تنگ پگڈنڈیاں… بارش ہوئی تو راستہ اور بھی دشوار گزار ہوگیا۔ اس بار جھیل سیف الملوک کا روایتی حسن کچھ ماند سا نظر آیا۔ کشتی کی سیر بھی کی، اِدھر اُدھر گھومے بھی، تصاویر بھی بنائیں، کچھ کھایا پیا بھی اور پھر لوٹ آئے۔ سارے سفر کے دوران دالوں کے نام پر صرف ایک دال میسر آئی، اور وہ تھی مسور کی دال۔ بوائل انڈے ٹھنڈے علاقوں میں کسی ہوٹل سے نہ مل سکے، کیوں کہ غیر معمولی ٹھنڈ میں پانی بوائل کرنے کا مطلب زیادہ گیس خرچ ہونا ہے۔ البتہ کئی جگہوں پر نوعمر مقامی لڑکے لڑکیاں باسکٹ میں گرم بوائل انڈے بیچتے نظر آئے، قیمت بھی مناسب، سو روپے کے پانچ دیسی انڈے۔ ناران کے ایک ہوٹل میں بیسنی پراٹھے ملے اور اس پر کچھ سبزیوں کا بگھار۔ مجھے تو یہ پراٹھے بڑے پسند آئے، امتیاز بھائی کو بھی بڑے اچھے لگے۔ ہم لوگ ناران میں اسی سے ناشتہ کرتے رہے۔ ناران ایک بڑا سیاحتی مرکز ہے، اسی حساب سے وہاں سیاحوں کا رش ہے، اور اسی اعتبار سے وہاں مہنگائی بھی ہے۔
اب ایک بار پھر لمبا سفر درپیش تھا،بابو سرٹاپ تک پہنچنے پر ایک بار پھر وہی تنگ راستوں اور گلیشیرز پگھلنے کے سبب سیاحت کے لیے آنے جانے والے قافلوں کو انتظار کی زحمت سے گزرنا پڑا،ہمارا قافلہ اب ناران کی جانب رواں دواں تھا،جہاں ہمیں چند دن مزید قیام کرنا تھا۔رات گئے ناران پہنچے تو ہوٹل ملنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ناران اور شوگران منہگے ثابت ہوئے،وجہ وہی کہ سیاحوں کی بھرمار اور پرانے سیاحتی مرکز کے ششکے اپنی جگہ سیاحوں کی دل چسپی بڑھاتے ہیں۔ہمارے قافلے میں شامل نوجوانوں نے پہلے ہی طے کیا ہوا تھا کہ وہ رافٹنگ ضرور کریں گے،سو واپسی کے سفر کے دوران تیز دریا کے بہائو پر رافٹنگ کی گئی،جس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے بڑی ہمت سے دریا کے تیز بہائو کے ساتھ بوٹ پر آدھے گھنٹے کی مسافت طے کی اور اُن بچوں کے مطابق یہ اُن کی زندگی کا ایک بڑا تجربہ رہا۔گائیڈ نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اس سفر میں چپو خود چلانے ہیں اور بوٹ کی سمت کا تعین بھی خود کرنا ہے،اس کے لیے نوجوانوں کو سفر سے پہلے تھوڑی دیر اچھی طرح بریف بھی کیا گیااور سیفٹی بیلٹ کے ساتھ ہیلمٹ بھی فراہم کیے گئے۔بس اب واپسی طے تھی۔دس بارہ دن ایسے گزرے جیسے کوئی خوب صورت خواب دیکھ رہے تھے۔اس دوران ہر طرح کے ہوٹلوں میں کھانے کھائے،ناشتے کیے،پھل فروٹ سے بھی لطف اندوز ہوئے اور خشک میوہ جات کے مزے بھی چکھے۔آبشاروں،قدرتی چشموں اور دریائوں کے فرحت بخش اور صحت افزا منرل واٹر سے لطف اندوز ہوئے اور محسوس ہوا،جیسے جسم وجاں میں ایک نئی توانائی آگئی ہے۔ٹھنڈے،تازہ اور منرل پانی نے سارے سفر کے دوران نظام ِ ہضم بھی اچھا رکھا اور کھل کر بھوک بھی لگی۔جیسے جیسے برف پوش اور ہریالی سے مزین درختوں سے ڈھکے پہاڑوں،آبشاروں،چشموں اور دریائوں کے نزدیک ہوتے گئے،قدرتی حسن کی کشش بھی بڑھتی گئی۔شمالی علاقہ جات میںسفر کے دوران جگہ جگہ سڑکوں کے کنارے چھوٹے چھوٹے ڈھابوں پر تازہ ٹرائوٹ مچھلی کے بورڈ آویزاں نظر آئے،ہماری کوسٹر کے تجربہ کار ڈرائیور نے قافلے کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ ٹرائوٹ مچھلی وہ ہمیں اپنے ایک دوست کے ہاں سے کھلوائے گا،جو مارکیٹ سے خاصی سستی ہوگی۔ایسا ہی ہوا۔ ٹرائوٹ مچھلی دریائوں میں سندھ کی مشہور مچھلی پلٔا کی طرح مخالف اور بے حد ٹھنڈے پانی کے بہائو میں بہتی ہے،اور خاصی منہگی بھی ہے۔البتہ ٹرائوٹ مچھلی میں جو لذت اور طاقت ہے،اُس کا کوئی جواب نہیں ہے۔عام طور پر سڑکوں کے کنارے چھوٹے اور برفیلے تالابوں میں زندہ ٹرائوٹ مچھلی کو رکھا جاتا اور آپ اسے خدید کے فرائی کراسکتے ہیں مگر یہ چار سے پانچ ہزار روپے کلو تک ملتی ہے۔ہم لوگوں نے جو ٹرائوٹ مچھلی کھائی،وہ دس ہزار روپے کے قریب تھی،اور یہ ہماری کھانے پینے میں سب سے بڑی عیاشی بھی تھی حالاں کہ وہ ٹرائوٹ ہمیں رزاق کی وجہ سے خاصی رعایتی قیمت پر ہمیں ملی،اس لیے سب نے سِیر ہو کر کھائی۔رزاق نے اسی سفر کے دوران ٹرائوٹ مچھلی کا ایک بڑا فارم ہائوس بھی دکھایا،جہاں بہت سے بڑے بڑے ٹھنڈے پانی کے تالابوں میں ٹرائوٹ مچھلی کی فارمنگ ہو رہی تھی۔ٹرائوٹ مچھلی ٹھنڈے یخ پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی،اس لیے فارمنگ ہو یا اس کے بیوپاری اُنہیں ٹھنڈے یخ پانی کا اہتمام ضرور کرنا پڑتا ہے۔
اسی سفر کے دوران رزاق نے ہمیں خشک میوے بھی ایک جاننے والے سے دلوائے،اور خالص شہد کی طلب بھی پوری کرائی۔شہد خریدے ہوئے اپنے بلوچ دوست آصف واجا کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے رہے،خالد بھائی ! خالص شہد ناپید ہے،جیسے خالص محبت ناپید ہو چکی ہے،اس لیے خالص شہد اور خالص محبت کو بھول جائو۔اگرچہ شہد کے ساتھ اُس کا چھتا بھی دیا گیا،تاہم وہ شہد سو فی صد خالص تھا،اس کا مجھے یقین نہیں،البتہ جگہ جگہ جو لوگ شہد بیچتے پھررہے تھے،اور ایک چھوٹی بوتل کے ہزار روپے بتا کر دو سو روپے میں بھی دینے کو تیار تھے،اُس نا خالص شہد سے،یہ شہد کچھ غنیمت ضرور لگا،جہاں تک خالص محبت کا تعلق ہے،محبت کا معاملہ نصیب سے ہے اور اپنی بیگم کے ہوتے ہوئے مجھے خالص محبت پر نہ صرف یقین ہے بل کہ اس پر میرا ایمان بھی ہے۔کھانے زیادہ تر ڈھابوں کے پسند آئے،بہ قول شہر یار کے اس سے بہتر،لذیز اور مناسب قیمت کے کھانے کہیں اور نہیں مل سکتے۔البتہ چائے بہت کم جگہ اچھی ملی۔شہر یار ٹور کے آخری چند دنوں میں وہاں آئی کراچی کے دوستوں پر مشتمل اپنی پروڈکشن ٹیم کے ساتھ کچھ خاص جگہوں کو شوٹ کرنے کے لیے چلا گئے،اور واپسی میں بلا کوٹ کے اُسی ہوٹل میں ہم لوگوں سے آ ملے،جہاں ہم نے اس سفر کی پہلی رات گزاری تھی۔شہر یار نے بعد میں ڈرائون اور دیگر کیمروں کی مدد سے جو شوٹ کی،اُس کی شوریل بھی دکھائی،جو بڑی زبردست، خوب صورت اور بامعنی ہے،اس ہائی کلاس شوٹ کو کوئی نجی ادارہ یا سیاحت کو فروغ دینے والا نجی یا سرکاری لینا چاہے تو یہ ایک بھرپور شوٹ ہے،جو بلند بالا برفیلے پہاڑوں،دریائوں،آبشاروں،کلچرل رنگوں،مقامی لوگوں کے طرز ِ زندگی اور تہذیبی سرمایے کے ساتھ،اُن کے روز مرہ کے معمولات کا آرٹسٹک انداز میں احاط کرتی ہے۔بالا کوٹ سے اسلام آباد کا سفر رہا اور فیصل مسجد میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد پنڈی میں تحریک ِ محنت مرکز میں رات گزار کے اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق،آیندہ صبح ہمارا قافلہ کراچی کی ٹرین کے ذریعے واپس آیا اور یوں ایک یاد گار سفر کی حسین اور بے مثال یادیں سمیٹتا ہوا،گھروں کولوٹ آیا اور ایک بار پھر معمول کے شب و روز میں کھو گیا۔