ڈاکٹر روتھ فاو اور پاکستان

660

راحت جبین
ہم پاکستانی قوم جنہوں نے اپنی پسندیدگیوں، ناپسندیدگیوں، نفرتوں اور محبتوں کو ایک حد بندی میں قید کرلیا ہے۔ ہماری سرحدیں ہمارے دلی جذبات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ سرحد کے اس پار محبت تو سرحد کے اس پار نفرت بلکہ یہ عدم برداشت اور نفرت اب اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سرحد کی دیواریں پھلانگتی ہوئی یہ ملک کے اندر کی حدود میں تعصب کی صورت میں پھیل چکی ہے۔ انسانیت تو دور کی بات ہم نے اپنے مذہب کا مان بھی نہیں رکھا اور مذہب کو بھی بہت سے فرقوں میں تقسیم کر ڈالا۔
اس نفرت، عصبیت اور فرقہ واریت کو ایک مہر ثبت کی ضرورت تھی جو سیاسی پارٹیوں نے نفرتیں پیدا کرکے پوری کر لیں۔ اب یہ حال ہے کہ ایک ہی گھر کے دو لوگ گھر میں صرف اور صرف اختلاف رائے کی وجہ سے ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔نفرت، افراتفری، تعصب، کراہیت اور مذہبی منافرت کے دور میں بھی کہیں دور محبت کا، دوستی کا، پیار کا اور امن کا ایک دیا جل رہا تھا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دیا بھی ادھار کا تھا۔ وہ دیا نام تھا روتھ فاو کا جو جرمن سے تعلق رکھتی تھیں۔ جس نے انسانیت کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ اس عظیم عورت نے اپنی پوری جوانی، جب اس کے پاس بہترین آپشن بھی موجود تھے، ایک ترقی یافتہ علاقے کو اور اس کی آسائشوں کو چھوڑ کر تیسری دنیا کے علاقے میں رہنے کو ترجیح دی۔
ڈاکٹرروتھ فاو کون تھیں؟ وہ ہم سب کے دلوں میں بسنے والی ایک ایسی شخصیت تھیں جن کو دنیا روتھ کیتھیرینا مارتھا فاو کے نام سے جانتی ہے۔ روتھ فاو ایک نام ہی نہیں ایک عہد ہیں اور اگر انہیں تاریخ ساز عہد کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ 9ستمبر 1929 کوجرمنی کے شہر لائیزگ میں والٹر اور مارتھا فاو کے گھر پیدا ہوئیں۔دوسری جنگ عظیم میں بم باری کی وجہ سے ان کا گھر بری طریقے سے تباہ ہوا مگر وہ بچ گئیں اور یہیں سے انہوں نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ کیا۔ ڈاکٹری کی اعلی تعلیم حاصل کی اور ریسرچ کے پروگرام کے لیے مختلف ممالک کے دورے کیے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کے مختلف ترقی پذیرممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ بات بہت مشہور تھی کہ کوڑھ یا ٹی بی کے مرض کا کوئی علاج نہیں اس لیے ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو گھروں سے دور ایک جگہ رکھا جاتا تھا۔ ان کے لیے کھانے پینے کا سامان دور سے ان کی جانب پھینکا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے،کھانے، پینے اور ان کے برتن استعمال کرنے سے کراہیت محسوس کی جاتی تھی۔ غیر محسوس انداز سے ان کی موت کا انتظار کیا جاتا تھا۔ کراچی میں بھی آئی آئی چندر ریگر روڈ سے متصل ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ جہاں شہر بھر سے کوڑھ کے متاثرہ مریضوں کو ان کے رشتہ دار یہاں چھوڑ جاتے تھے۔
روتھ فاو نے1958 میں پاکستان میں جذام کے مریضوں کے بارے میں ایک ایسی فلم دیکھی جس میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے کوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص کا جسم گلنا شروع ہوتا ہے اور زخموں سے بد بو آتی ہے۔ اس چھوت کی بیماری کی وجہ سے لوگ اپنے مریضوں کو دور چھوڑ آتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ لا علمی بھی تھی کہ یہ لا علاج مرض ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاو نے 1960 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ مگر جذام کے مریضوں کے دکھ نے ان کے قدم ہمیشہ کے لیے یہیں روک لیے اور انہوں نے پاکستان کو اپنا دوسرا مسکن بنایا۔ شروع میں انہوں نے کراچی میں ایک جھونپڑی میں کوڑھ کے مریضوں کی بستی میں قیام کیا۔ بعد میں قریب ہی ایک کمرے کے مکان میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے مستقل پاکستان میں رہنے اور جذام زدہ مریضوں کے علاج کو اپنی زندگی کو مقصدبنایا۔ جذام زدہ مریضوں کی بستی کے خاتمے کا عزم لے کر انہوں نے جذام کے مریضوں کے لیے ان کی کچی آبادی کے ساتھ ایک کلینک کھولا۔
روتھ فاو کی پاکستان آمد، ان کی یہاں مستقل سکونت اور ان تمام مریضوں سے شفقت اور محبت نے اس نظریہ کو یکسر بدل دیا کہ کوڑھ لاعلاج مرض ہے۔ گو کہ بہت سے گھرانوں میں اب بھی لاعلمی کی وجہ سے کوڑھ کے مریضوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے مگر اجتماعی طور پر روتھ فاو کی انتھک محنت کی وجہ سے یہ سلوک مفقود ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنی عمر کے بہترین پچاس سال کوڑھ کے مریضوں کی خدمت میں گزار دیں۔ رنگ، مذہب، نسل اور قومیت سے قطع نظر انہوں نے انسانیت کو اپنا مذہب بنا لیا۔ ان کے لیے آسائشات زندگی ثانوی بن کر رہ گئے۔ کوڑھ زدہ مریض جن کے جسم کے زخموں سے رستے پیپ کی بدبو سے ان کے اپنے رشتے دار کراہیت محسوس کرتے تھے۔ مگر ڈاکٹر روتھ ان کے ساتھ گھل مل گئیں تھیں۔ وہ ان کو گلے لگاتیں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتی تھیں۔
1963 میں ڈاکٹر روتھ فاو نے ڈاکٹر آئی کے گل کے ساتھ مل کر لیپروسی سینٹر بنایا۔ اس کے ساتھ ہی جذام کے مرض کے حوالے سے ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اسی سلسلے میں جرمنی جاکر فنڈ بھی اکٹھا کیا۔ اس طرح پورے پاکستان میں156 لیپروسی سینٹرز کا جال بچھا دیاگیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بچھائے گئے جذام کے سینٹرنہ صرف جذام کا علاج کر رہے ہیں بلکہ ٹی بی، اندھے پن کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں خشک سالی سے متاثرہ لوگوں اور کشیر کے زلزلے کے نتیجے میں متاثرین کا بھی علاج ہوا ہے۔1988 میں ڈاکٹر روتھ فاو کو پاکستان کی شہریت ملی۔ہمارے معاشرے میں لوگ ہیرو بننے کے لیے کہیں نہ کہیں بگاڑ بھی کرتے ہیں مگر روتھ فاو نے ٹوٹے ہوئے دل جوڑے اور محبتیں سمیٹیں۔ ان کی قربانیاں اور انتھک محنتیں ان کی زندگی میں ہی رنگ لائیں۔ 1996 میں پاکستان لیپروسی کنٹرول کرنے والے ممالک کی فہرستمیں شامل ہوگیا اور اس حوالے سے ایشیا کا پہلا ملک بن گیا۔
2004 میں آغا خان یونیورسٹی کراچی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری بھی ملی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر روتھ فاو کو ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان اور جرمنی نے بے شمار اعزازات سے بھی نوازا۔ ان کی بے مثال خدمات کی وجہ سے ان کو پاکستان کی مدر ٹیریسا بھی کہا جاتا ہے۔وہ دو سال پہلے گردے اور دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کراچی کے نجی اسپتال میں داخل رہیں۔ دو ہفتے داخل رہنے کے بعد 10 اگست 2017 ڈاکٹر روتھ فاو 87 سال کی عمر میں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی اور اپنی پوری زندگی ایک نن بن کرگذاری تھی۔ انہوں نے مرنے سے پہلے تین وصیتیں کی تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مرنے کے بعد دلہن بنا کر لحدمیں اتار جائے۔ ان کی وصیت کی پاسداری میں جب انہیں دلہن کا لباس پہنایا گیا تو وہ کسی معصوم اور خوبصورت پری سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔ان کی باقی دو وصیتیں یہ تھیں کہ انہیں وینٹیلیٹر پر نہ رکھا جائے اور ان کی لاش کو لیپروسی سینٹر لایا جائے۔ ان کی تینوں خواہشوں کا مان رکھا گیا۔ 19 اگست کو جب ان کی لاش کو ان کی وصیت کے مطابق لیپروسی سینٹر لایا گیا تو وہاں موجود ہر شخص، مریض ڈاکٹرز اور اسٹاف کے لیے وہ لمحے قیامت سے کم نہیں تھے۔ اسپتال کے وارڈ میں تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر دل سہما ہوا تھا۔ مسقبل کا ایک انجانا خوف سب کی آنکھوں میں نمایاں تھا اور یہ حال صرف اسپتال کے مریضوں کا ہی نہ تھا بلکہ ملک کے ہر اس شخص کی آنکھ نم تھی جسے روتھ فاو کی خدمات سے شناسائی تھی۔
روتھ فاو کا زندگی گزرنے کے بارے میں ایک بہترین نظریہ تھا ان کا قول ہے، ’’اندھیرے کو بیٹھے بیٹھے کوسنے سے بہتر ہے کہ کہیں ایک شمع روشن کر دو اور اس سے بھی اہم کام یہ ہوگا کہ اس شمع کو مسلسل روشن رکھنے کے بارے میں سوچو‘‘۔میں نے ایک جگہ پر پڑھا تھا کہ ’’زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتیں بلکہ ان کہ نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھاتی ہیں ‘‘۔ اب ہمیں یہ اصول اپنا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور روتھ فاو کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔

حصہ