تیس مار خاں

747

آخری قسط
سازشی مصاحب بہت خوش اور مطمئن تھا کہ آج رات تیس مارخاں شیر کا لقمہ بن ہی گیا ہوگا۔ دوسری صبح سپاہیوں کے دستے کی قیادت کرتے ہوئے خود ہی جنگل کے اس مقام کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کے سپاہیوں نے تیس مار خاں کو چھوڑا تھا۔ جنگل کے قریب پہنچ کر اس کی نگاہیں ادھر ادھر تیس مارخاں کی لاش کو تلاش کرتی رہیں۔ اس کے مطابق کہیں آس پاس ہی اسے تیس مار خاں کی مسخ شدہ لاش دکھائی دی جانی چاہیے تھی لیکن آس پاس کسی بھی جھاڑی میں اس قسم کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آ سکی۔ سپاہیوں کا دستہ آگے بڑھتا رہا لیکن سازشی مصاحب کی نگاہیں جو منظر دیکھنا چاہتی تھیں وہ منظر کہیں بھی اسے نظر نہیں آیا یہاں تک کہ وہ سب اس درخت کے نزدیک پہنچ گئے جہاں سپاہیوں نے تیس مار خاں کو چھوڑا تھا۔ جو منظر سازشی مصاحب اور سپاہیوں کے سامنے تھا وہ تو ناقابل یقین تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ آدم خور شیر کی لاش درخت کے تنے کے ساتھ پڑی ہے اور اس کے دھڑ سے اس کا سر غائب ہے۔ سب کے منھ سے حیرت بھری چیخ بلند ہوئی۔ سب نے بیک وقت زور سے کہا کہ اس کا سر کہاں گیا اور کون لے گیا۔
یہ سارا منظر تیس مار خاں درخت کی مچان پر بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے سب کے منھ سے حیرت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سنا کہ شیر کا سر کہاں گیا تو اس نے اوپر سے کہا کہ ذرا اوپر تو دیکھو، سب معلوم ہو جائے گا۔ سب نے آواز کی سمت دیکھا تو درخت پر بنی مچان کے قریب ایک شاخ کے ساتھ آدم خور شیر کا سر لٹکا ہوا تھا اور مچان پر تیس مار خاں بیٹھا ہوا تھا۔
بادشاہ کے دربار میں جب تیس مارخاں شیر کا سر لیکر حاضر ہوا تو بادشاہ کی خوشی کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ ادھر سازڑی مصاحب کا یہ حال تھا کہ وہ حسد کی آگ میں جل جل کر کوئلہ ہوا جارہا تھا اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کیا کر گزرے۔ بادشاہ نے اس خوشی میں اعلان کیا کہ تیس مارخاں آج سے شاہی دستے کا سالار بنایا جارہا ہے۔ یہ اعلان سن کر تو مصاحبِ خاص کی حالت دیدنی تھی لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے اور حاسدوں کو تو وہ بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔
ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ پڑوس کے ملک نے بادشاہ کے ملک میں گھس کر ایک خوبصورت جنگل کے کافی وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ کے وفادار سپاہیوں نے ان کا بہت مقابلہ کیا لیکن وہ قبضہ واپس لینے میں بری طرح ناکام رہے۔ بادشاہ نے اپنے سالار کے ذریعے مزید کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی لیکن جانی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ بادشاہ کو سپہ سالار کی کارکردگی پر بہت مایوسی ہوئی لیکن فوری قدم اٹھانے کی بجائے اس نے تیس مارخاں کو دربار میں طلب کیا اور صورت حال سامنے رکھ کر کہا کہ تم ہمارے خاص دستے کو لیکر مقابلے کی لیے نکلو۔ تیس مارخاں نے ناں کرنا کبھی پسند ہی نہیں کیا تھا لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ کبھی گھوڑے پر بیٹھا ہی نہیں تھا اور گھوڑے پر بیٹھے بغیر وہ دستے کی قیادت کیسے کر سکتا تھا۔ باد شاہ اس کو اپنے خاص اصطبل لے کر گیا اور کہا کہ جو گھوڑا بھی اسے پسند ہے وہ ان میں سے لے جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی پیشکش تھی جو اس سے قبل کسی کو بھی بادشاہ نے نہیں کی تھی۔ تیس مار خاں، جس نے گھوڑے کی پیٹھ ہی نہ دیکھی ہو، وہ ایسے گھوڑے کو تلاش کرنے لگا جو کسی حد تک کمزور ہو کیونکہ وہ ان کی تیز رفتاری سے بہت ہی ڈرتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی نظر ایسے گھوڑے پر پڑی جو کسی حد تک دبلا تھا اور اپنی سامنے والی ایک ٹانگ موڑے کھڑا تھا۔ تیس مارخاں نے سوچا کہ یہ یقیناً لنگڑا ہوگا لہٰذا اسی گھوڑے کی جانب اشارہ کرکے اس نے کہا کہ وہ اس گھوڑے کو اپنے ساتھ لیجانا پسند کریگا۔ بادشاہ ہی کیا، سارے سپاہی اور درباری حیران رہ گئے کیونکہ وہی ایک ایسا گھوڑا تھا جو تمام گھوڑوں میں سب سے تیزر رفتار اور سب سے اعلیٰ نسل کا تھا۔ بادشاہ اس کی پسند پر بہت خوش ہوا اور حکم دیا گیا کہ گھوڑے کو تیس مارخاں کی لیے تیار کیا جائے۔
تیس مار خاں نے اس پر بیٹھنے کے بعد کہا کہ اسے گھوڑے پر رسیوں کے ساتھ پوری طرح جکڑدیا جائے صرف اس کے ہاتھ کھلے رکھے جائیں۔ یہ بات کسی کے سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر اس میں کیا راز ہے لیکن تیس مارخاں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اسے رسیوں کے ساتھ نہ باندھا گیا تو وہ گھوڑے سے گر جائے گا۔ سب نے بادشاہ کی جانب دیکھا کہ وہ ایسا کریں یا نہ کریں؟۔ باد شاہ کو جلال آگیا اور اس نے کہا کہ سپاہیوں کا کام کمانڈر کا حکم ماننا ہوتا ہے سوال کرنا نہیں۔ سب نے تیس مارخاں کو خوب اچھی طرح رسیوں سے جکڑدیا۔ دائیں بائیں ضروری جنگی سامان لگادیا گیا۔ سب تیس مارخاں کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ جونہی تیس مار خاں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی، گھوڑا تو ہوا میں اڑنے لگا۔ تیس مار خاں تو یہی خیال کر رہے تھے کہ گھوڑا لنگڑا اور معذور ہے لیکن وہ تو براق ثابت ہوا۔ گھوڑا اتنی تیز دوڑا کہ سپاہیوں کا دستہ اس کی گرد کو بھی نہ پاسکا۔ ادھر ڈر اور خوف کی وجہ سے تیس مارخاں کا یہ عالم کہ آنکھیں باہر نکلی پڑرہی تھیں۔ ان کے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ چند ہی منٹوں میں وہ اس گھنے جنگل کے قریب جا پہنچے جس پر دشمن ملک کے سپاہیوں کا قبضہ تھا۔ جیسے ہی گھوڑا جنگل میں داخل ہوا تو تیس مار خاں نے گھوڑے کو روکنے اور اس کی رفتا پر قابو پانے کی لیے درختوں کی شاخوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ وہ جس شاخ کو بھی پکڑتا شاخ ٹوٹ کر درخت سے الگ ہوجاتی۔ مضبوط سے مضبوط شاخیں یوں ٹوٹ رہی تھیں جیسے وہ آروں سے کاٹی جارہی ہوں۔ جو درخت کمزور تھے وہ جڑ سے اکھڑ اکھڑ کر زمین سے باہر آنے لگے۔ جنگل میں ایک عجب طوفان برپا ہو گیا اور یوں لگا جیسے کوئی دیو جنگل کو اجاڑ کر رکھ دیگا۔ دشمن ملک کے قابض سپاہی بلندی سے یہ سب نظارہ کر رہے تھے۔ وہ اس دیو کو بھی دیکھ رہے تھے جو مضبوط شاخوں اور درختوں کو توڑتا آندھی طوفان کی طرح بڑھتا چلا آ رہا تھا اور اس کے پیچھے دوڑتے بھاگتے اس لشکر کو بھی دیکھ رہے تھے جو کافی فاصلے سے ان ہی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر تیس مارخاں کی دہشت ان کے دل و دماغ میں ایسی سوار ہوئی کہ وہ سب جان بچا کر بھاگنے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کے کماڈر نے کہا کہ جب ایک دیو نے جنگل میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے تو وہ جو پیچھے پیچھے بھاگے دوڑے آ رہے ہیں وہ کیا کچھ نہ کر گزریں گے۔ کمانڈر کا اتنا کہنا تھا کہ پوری فوج ہبر دبڑ میں اپنا سارا مال و اسباب چھوڑ کر ایسے بھاگی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔
دشمن بھی بھاگ گیا اور شاہی گھوڑے کو بھی خود بخود بریک لگ گئے۔ بندھی ہوئی رسیاں بھی کئی جگہ سے ٹوٹ چکی تھیں اس لیے تیس مار خاں کو ان سے آزادی حاصل کرنے میں کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ اب گھوڑے پر بیٹھنے کا خوف بھی دل سے نکل چکا تھا اور اسے یہ بھی احساس ہو گیا تھا کہ اللہ کی مدد اس کو حاصل ہے گویا مقدر میں لکھی خواہ خوشیاں ہوں یا مصیبتیں، وہ سب مل کر رہتی ہیں اس لیے اس نے بھی کئی فیصلے دل ہی دل میں کر لیے تھے۔
اس سے پہلے کہ اس کے سپاہی پہنچتے، وہ دشمن کا چھوڑا ہوا مال و اسباب جمع کر چکا تھا۔ سپاہی بھی آکر اس کے اگلے حکم کے منتظر ہو گئے تھے۔ اس نے اب ایک نڈر، بہادر اور مضبوط سالار کی طرح سپاہیوں میں سے کچھ کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو جاکر فتح کی خوشخبری سنائیں اور ساتھ ہی ساتھ سرحدو کی حفاظت کی لیے تازہ دم دستے روانہ کریں تاکہ دشمن پلٹ کر حملہ نہ کر سکے۔ باقی سپاہیوں سے کہا کہ وہ مال غنیمت جمع کریں اور جتنے بھی سپاہی اس معرکے میں شریک ہوئے تھے ان سب میں برابر برابر تقسیم کردیں۔
باد شاہ کے دربار میں جب سپاہیوں نے آکر یہ خوشخبری دی کہ دشمن میدان چھوڑ کر فرار ہو گیا ہے اور یہ سب کارنامہ تنہا تیس مار خان نے تنہا انجام دیا ہے تو باد شاہ کی حیرت اور خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ سپاہیوں نے یہ بھی بتایا کہ تیس مار خاں نے تازہ دم محافظوں کی ایک ٹیم بھی طلب کی ہے تاکہ سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنا یا جا سکے اور ان کی مستقل نگرانی جاری رکھی جا سکے تو بادشاہ اور بھی خوش ہوا۔ وہ تیس مار خاں کی سالاری اور دانشمندی کا قائل ہو گیا۔ فوری طور پر کمانڈر انچیف کو طلب کرکے کارروائی کا حکم دیا اور کمانڈر سے کہا کہ وہ تیس مارخاں کی واپسی تک اسی کے پاس رکا رہے۔ مصاحب خاص پر تو جیسے آسمانی بجلی گری ہوئی تھی۔ بادشاہ باد شاہ ہی ہوتا ہے وہ مصاحب کے دل کا کھوٹ بہت پہلے بھانپ چکا تھا لیکن چشم پوشی سے کام لیتا رہا تھا۔ اس کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ بھی تییس مار خاں کے آنے تک دربار میں ہی ٹھہرے۔
جب تیس مار خاں نے تازہ دم سرحدی محافظوں کو آتے دیکھا تو اسے جیسے ایک اطمنان سا حاصل ہوا۔ دستے کو اس نے ضروری ہدایات دیں۔ ہر اس راستے کی نشاندہی کی جہاں سے دشمن فوج کے واپس آنے کا خطرہ ہو سکتا تھا اور رات دن سخت نگرانی کا حکم دے کر مال غنیمت گھوڑوں پر لدواکر دربار کی جانب روانگی کا حکم دیا اور خود بھی ہمراہ واپسی کا قصد کیا۔
بادشاہ سلامت منتظر تھے کہ تیس مار خاں واپس آئے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ تیس مارخاں تازہ کمک کے پہنچنے سے قبل کبھی نہیں آئے گا۔ باد شاہ کو احساس ہو گیا تھا کہ تیس مار خاں ایک ذمہ دار سپاہی اور سالار ہے۔
تیس مارخاں جونہی دربار میں حاضر ہوا بادشاہ نے کھڑے ہو کر اسے خوش آمدید کہا۔ سب کو اپنے گرد جمع کیا۔ چیف کمانڈر سے کہا کہ میں تیس مار خاں کو تمہارا اسسٹنٹ بنانے کا اعلان کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ مصاحب خاص کو نصیحت کی کہ حسد انسان کو تباہ برباد کر دیتا ہے۔ میں تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم آئندہ کسی کے خلاف بھی کوئی سازش نہیں کیا کرو گے۔
اس رات تیس مار خاں ساری رات جاگتا رہا۔ اسے اپنی بیوی پر بہت غصہ تھا کہ اس نے اس کے ساتھ جان سے مار دینے تک دشمنی کی لیکن اس نے سوچا کہ مارنے والے سے بچا نے والا بہت بڑا ہوتا ہے۔ نہ اس کی بیوی اس کے ساتھ دشمنی کرتی اور نہ ہی وہ آج بادشاہ کی نظر میں واقعی تیس مار خاں بن پاتا۔ جس طرح اللہ نے مجھے ہر سازش اور ہر خطرے سے بچا کر رکھا مجھے بھی چاہیے کہ میں اپنی بیوی کی خطا معاف کردوں۔ جس طرح باد شاہ نے اپنے مصاحب کی ساری سازشوں جان لینے کے باوجود اسے ایک موقع اور دیا ہے، مجھے بھی چاہیے کہ میں اپنی بیوی کو کومعاف کرکے ایک موقع اسے بھی دوں۔
اگلی صبح اس نے باد شاہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ اور اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا کر رکھنا چاہتا ہے تو باد شاہ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ عہدے کے مطابق اسے رہائشی سہولت بھی عطا کی۔ جب اس کے والدین، بھائی بہنوں، بیوی اور بستی والوں کو اس بات کا علم ہوا کہ تیس مارخاں اس ملک کی فوج کا اسسٹنٹ کمانڈر بن چکا ہے تو وہ مارے حیرت کے حیران رہ گئے۔ سب کے سب اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے۔ پوری بستی میں بہت خوشی منائی گئی۔ تیس مارخاں نے بھی بستی کی تقدیر بدل کر رکھ دی اور ان سب کو اپنے سگوں کی طرح عزت دی یوں تیس مار خاں اور اسکا خاندان عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگا۔

حصہ