مسئلہ کشمیر اور بھارت کی ہٹ دھرمی

790

خواجہ رضی حیدر
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ لمحۂ موجود میں انسانی حقوق، بھائی چارے اور عالمی امن پر بین الاقوامی حلقوں میں جس قدر زور دیاجارہا ہے، شاید اس سے پہلے ان امور پر کبھی اتنا زور نہیں دیا گیا۔ اور یہ بھی ایک کھلی ہوئی سچائی ہے کہ لمحۂ موجود میں ہی انسانی حقوق، بھائی چارے کی فضا اور عالمی امن کو جس قدر تباہ و برباد کیا گیا ہے، شاید اس پہلے اس کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر طرف دہشت ، بربریت اور مسلّمہ انسانی حقوق کی پامالی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں کس کس اقدام کی مذمت کی جائے۔ خود اس وقت پاکستان میں جو صورتحال ہے وہ اس قدر سنگین اور قابلِ مذمت ہے کہ عالمی رائے عامّہ کے سامنے ہم سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔
تاریخ کے آئینے میں کشمیر کے عوام گزشتہ ڈیڑھ سوسال سے زائد کے عرصے سے ڈوگرا راج اور بھارتی حکومت کے ہولناک مظالم کا شکار نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عظیم ترین جانی اور مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر اُن کی قربانیاں اور جدوجہد اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی بے بسی کی نہ صرف منہ بولتی تصویر بنی ہوئی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا لیکن انگریزوں اور بھارتی حکمرانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوجاتا تو ۱۹۴۷ء میں معرضِ وجود میں آنے والی مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت ِ پاکستان کو استحکام میسّر آجاتا اور وہ عالم ِ اسلام کی حتمی نمائندگی کی حقدار بن جاتی۔ عالمی طاقتوں کی سازشیں اور باہمی گٹھ جوڑ ایک ایسا المیہ ہے جس میں کشمیری عوام نہایت جرأت اور بہادری کے ساتھ جدو جہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس جدو جہد میں پاکستان کا روّیہ اور کردار ایک حلیف کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔
تقسیم ہند کے مرحلے میں کشمیر کے سوال پر تین فریق برسرِعمل تھے۔ برطانوی عمال، انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے اس ضمن میں ہر سنجیدہ پیش رفت کو ناکام بنادیا۔ تقسیم کے فوراً بعد کشمیر کا وجود ایک آزاد ریاست کے طور پر سامنے آیا تھا لیکن کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کے راجا ہری سنگھ اور انڈین کانگریس کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں کشمیری مسلمان پاکستان سے الحاق کا مطالبہ نہ کردیں۔ اس لیے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کردیں اور بہت جلد کشمیر کے حکمران نے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ قائداعظم محمدعلی جناح اُس وقت لاہور میں تھے، انہوں نے پاکستان کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں پاکستانی افواج کو بھیج دیں لیکن جنر ل گریسی نے سپریم کمانڈ ر فیلڈماشل جنرل آکنلیک سے مشورہ کیا اور کہا کہ چوں کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق ہوچکا ہے، اس لیے کشمیر میں افواج کا بھیجنا جنگ کے مترادف ہوگا۔ جنرل آکنلیک نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں دونوں ممالک کے گورنر جنرل اور وزرائے اعظم کے درمیان مذاکرات ہوں تاکہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل نکالا جائے۔ قائداعظم اس تجویز پر راضی تھے لیکن جواہرلال نہرو نے بیماری کا بہانہ کرکے لاہور آنے سے انکار کردیا اور کشمیر کے مسئلے پر یہ مذاکرات منعقد نہیں ہوسکے۔ بھارتی گورنرجنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کے چیف آف اسٹاف لارڈ اِسمے نے بہت بعد میں ’’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘‘ کے مصنفین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’’مذاکرات کی ناکامی ایک سازش کے نتیجے میں ہوئی کیوں کہ بھارت کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ جغرافیائی، مذہبی اور نسلی اعتبار سے کشمیر پر قابض ہوجائے۔ کشمیر کے ۸۴ فیصد مسلمان اس قبضے کے خلاف تھے۔ اِسمے نے یہ بھی کہا کہ اگر کانگریسی رہنما کشمیر پر قبضے کے فیصلے پر اَڑے ہوئے تھے تو لارڈ مائونٹ بیٹن کو بھارت کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا‘‘۔ اسی طرح ٹرانسفر آف پاور پیپرز میں جنرل آکنلیک کا ایک ایسا خط بھی موجود ہے جس میں اُس نے کہا ہے کہ ’’مائونٹ بیٹن نے بہت سے غلط اقدامات کیے۔ انہی اقدامات میں سے ایک کشمیر کے حوالے سے تھا جو نہایت مذموم اور الم انگیز تھا‘‘۔ معروف تاریخ دان ایچ وی ہڈسن نے اپنی کتاب ’’گریٹ ڈوائڈ‘‘ میں اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو حق بجانب قرار دیا ہے۔
ان تاریخی شواہد اور تاثرات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ اقتدار قائم کر رکھا ہے جس کی بنا پر کشمیر کے مظلوم عوام گزشتہ ۷۰ سال سے بھارت کے انسانیت سوز مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اُن کو اُن کے پیدائشی اور قانونی حق یعنی خود اختیاری سے محروم رکھا جارہا ہے۔ جس کی بنا پر کشمیری عوام اس عرصے میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، مگر بین الاقوامی حلقوں کی سرد مہری حیرت انگیز بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی۔
ہندوستان کی جدید تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے، میں یہاں چند تاریخی حقائق کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ پہلی بات تویہ کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران جنوری ۱۹۳۳ء میں ایک حریّت دوست رہنما چوہدری رحمت علی کی تقسیم ہند کی ایک اسکیم ’’Now or Never” کے عنوان سے منظرِعام پر آئی تھی۔ اس اسکیم میں چوہدری رحمت علی نے تقسیم ہند کے اصول کے ساتھ ہی ایک مسلم ریاست کا تصور اور اس ریاست کا مجوزّہ نام پیش کیا تھا۔ یہ نام تھا ’’پاکستان‘‘ ۔ یہ نام پہلی مرتبہ نہ صرف سامنے آیا تھا بلکہ چوہدری رحمت علی نے اس نام کی وضاحت بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان‘‘ کا لفظ ہندوستان کے پانچ مسلم اکثریتی صوبوں کے ناموں سے مشتق ہے۔ یعنی پنجاب ’’پ‘‘ ، صوبۂ سرحد یعنی افغانیہ کا ’’الف‘‘، کشمیر کا ’’ک‘‘ ، سندھ کا ’’س‘‘ اور بلوچستان سے ’’تان‘‘ لیا گیا ہے۔ چوہدری رحمت علی کی اس وضاحت کی روشنی میں یہ طے ہے کہ روزِ اوّل سے ہی کشمیر پاکستان کے نام کا حصہ ہے اور کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کا حصول ہی پاکستان کے لفظ کی معنویت کو بحال کرسکتا ہے۔ کشمیر کسی صورت بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ کشمیر اپنی کثیر مسلم آبادی اور تاریخی تناظر میں پاکستان کا حصہ ہے اور کشمیر کے حریت پسند عوام بھی نہ صرف کشمیر کو پاکستان کا حصّہ تصور کرتے ہیں بلکہ بھارت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری ہر اقدام کی مذمّت کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی مبنی برحقیقت ہے کہ چوہدری رحمت علی ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے مجوزہ منصوبے سے شدید نالاں تھے وہ کہتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کو کس طرح تسلیم و قبول کیا جاسکتا ہے، لہذا انہوں نے ۳؍جون ۱۹۴۷ء کے مائونٹ بیٹن پلان او علاقائی بٹوارے کے ذمے دار ریڈکلف ایوارڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر تحریکِ پاکستان کے دوران بھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ایسی صورت میں کشمیر کے عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی بحالی کے حوالے سے پاکستان اور پاکستانی عوام کا مطالبہ ایک اصولی مطالبہ ہے۔
وادیٔ جموں و کشمیر میں جدو جہد آزادی کی تاریخ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت ختم ہونے کے بعد ۱۸۴۶ء میں جب انگریزوں نے راجا گلاب سنگھ کو وادیٔ جموں و کشمیر کی عنانِ اقتدار منتقل کرنا چاہی تو ’’تخت لاہور‘‘ کے آخری مسلمان صوبے دار شیخ امام الدین نے راجا گلاب سنگھ کے تسلط کے خلاف احتجاج کیا اور واضح طور پر کہا کہ جموں و کشمیر کی وادی اپنی اکثریتی آبادی کی بنیاد پر نہ صرف مسلمانوں کی وادی ہے بلکہ اسے مغل حکمرانوں نے جنت بے نظیر میں تبدیل کیا تھا، لہذا اس پر ڈوگرا راج قائم نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن راجاگلاب سنگھ کی پشت پناہی کرنے والے برطانوی عمال نے شیخ امام الدین کی آواز دبادی۔ گویا شیخ امام الدین جموں و کشمیر کی وادی کے اوّلین مجاہد ِ آزادی ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی جدوجہد سے مسلمانوں کے اُس استحقاق کو بھی واضح کیا تھا جو کشمیر پر حکمرانی کے حوالے سے مسلمانوں کو حاصل تھا۔
راجا گلاب سنگھ کے اقتدار کے ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور آفرین ہے کشمیری مسلمانوں پر جو ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصے سے ظلم و ستم کے سامنے سینہ سپر اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ۵؍فروری کو کشمیری عوام سے یکجہتی کا یوم قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو عالمی رائے عامّہ کے سامنے زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے عوام کشمیری مسلمانوں کی جدو جہد میں دامے، درمے اور سخنے ہر لمحہ شریک ہیں اور بھارت کے جارحانہ عزائم کی مذمت کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کشمیری عوام کو اِن کی جدو جہدِ آزادی میں سرخروئی عطاکرے اور ہم کواُن سے یکجہتی کے حوالے سے مستحکم و منظّم کرے۔

حصہ