مریم صدیقی
ذو الحج اسلامی سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔ اس ماہ میں دنیا بھر سے مسلمان اسلام کے اہم رکن اور فریضے کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ شریف کا رخ کرتے ہیں۔ حج کی فرضیت کے متعلق ارشاد ربانی ہے، ’’لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے اور جو نہ مانے ( اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے ) تو اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران)۔
حج کے لغوی معنی قصدیا ارادہ کرنے کے ہیں۔ جب کہ اصطلاح میں بیت اللہ شریف کا اعمال مخصوصہ کے ساتھ قصد کرنا حج کہلاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘۔ پھر عرض کیا گیا کہ ’’اس کے بعد کون سا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔ پھر عرض کیا گیا کہ ’’اس کے بعد کون سا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’حج مقبول‘‘۔ (بخاری ومسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ’’حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیںجیسے بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے‘‘۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’فریضہ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے‘‘۔ (مسند احمد)ارکان حج کی ادائیگی کے لیے خاص دن مقرر ہیں جو آٹھ ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں اور تیرہ ذی الحجہ پر ختم ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی نے شعائر اسلام اور اپنے محبوب بندوں کے اعمال و افعال کو رہتی دنیا تک زندہ رکھنے کے لیے زندگی میں ایک بار حج کو فرض قرار دیا۔ اسلام کے اس رکن خامسہ پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ اخوت و مساوات کی عمدہ نظیر ہے، جہاں ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب، بادشاہ و فقیر بغیر کسی امتیاز کے بارگاہ الہی میں موجود ہوتے ہیں۔ سفید احرام میں ملبوس ہر شاہ و گدا اس کے سامنے سر جھکاتا ہے۔ جہاں نہ کوئی رتبے میں ادنیٰ ہوتا ہے نہ اعلیٰ۔ دنیا کے بیش قیمت ملبوسات چھوڑ کر فقط دو سفید کپڑوں میں حج کے مکمل فرائض ادا کیے جاتے ہیں جو انسان کو یہ بتلاتے ہیں کہ یہ شان و شوکت، یہ بینک بیلنس، یہ ٹھاٹ باٹ سب یہیں رہ جائے گا۔ ان سب کی حقیقت کچھ نہیں، حقیقت یہی ہے جو سامنے ہے، اس رب کائنات کے آگے سب اتنے ہی عاجز و بے بس ہیں جتنا ایک کٹیا میں رہنے والا فقیر۔
قربانی کا مقصد راہ خدا میں اپنی محبوب ترین چیز، اپنی افضل ترین چیز کی قربانی دینا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگرکو قربان کرنے کا ارادہ کیا تو پھر ان کے ارادے کو کوئی تدبیر، کوئی شے متزلزل نہ کرپائی۔ یہی جذبہ قربان ہونے والے میں بھی موجود تھا اس لیے ان دونوں کی قربانی راہ خدا میں مقبول ہوئی اور ان کی صداقت نیت کے پیش نظر اس سنت کو تا قیامت تک مسلمانوں کے لیے زندہ کردیا گیا کہ وہ اسی جذبہ ابراہیمی و اسماعیلی کے تحت بارگاہ الٰہی میں قربانی کریں۔ قربانی کا مقصد نیت کی پرکھ ہے۔
حج و قربانی کی اصل تقوی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے اعمال کا بدلہ اس کی نیتوں کو دیکھتے ہوئے عطا فرماتا ہے۔ اگر کارخیر بھی نمود و نمائش اور دنیا دکھاوے کے لیے کیا جائے تو یقینا ریا کاری کہلائے گا۔ احکامات الہیہ کی بجا آوری کے لیے جس چیز کا ہونا لازمی ہے وہ نیت صالحہ اور تقوی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے آج کل حج و قربانی بھی فقط دکھاوے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ عازمین حج و عمرہ بیت اللہ شریف پہنچ کر، ان مقدس مقامات کی زیارت کرکے ان لمحات کو، ان لطیف احساسات کو محسوس کرنے کے بجائے ویڈیوز بنانے اور سیلفیز بنانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔
گزشتہ زمانے میں جب لوگ حج و عمرے سے واپس آتے تھے تو ان کے چہروں سے ان کی کیفیات، ان کے رقت انگیز لمحات کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا۔ ان کے چہرے پر نوراور ان کی آنکھوں میں ان مقدس مقامات کی شبیہ دیکھی جاسکتی تھی۔ جب کہ آج کل حج و عمرہ سے واپس آنے والے لوگ ا ن کیفیات سے یکسرمحروم ہیں۔ صحن حرم میں بیٹھ کر رقت انگیز دعا مانگنا، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز نفل ادا کرنا، شہر مکہ کی گلیوں میں اس سوچ کے ساتھ جانا کہ یہ وہ شہر ہے جو میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے، جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا محبت کرتے تھے۔ گنبد خضریٰ کے سائے میں بیٹھنا اور تصور کرنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اصحا ب صفہ کو درس دیا کرتے تھے، میرے نبی ؐ امامت کروایا کرتے تھے اور صحابہ کرامؓ مقتدی ہونے کا شرف حاصل کرتے تھے۔ مکہ شریف اورمدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں بجائے ویڈیو بنانے اور سیلفیز لینے کے ان سوچوں کے ساتھ زیارت کی جائے تو یقینا ہم حج و عمرے کی اصل کو پالیں گے۔ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ یہ چند دن ہی ہمیں میسر ہیں ان پاک شہروں میں تو ہمیں حقیقتاً لمحہ بھر کے لیے بھی کسی اسٹیٹس اَپ لوڈ کرنے کا خیال تک نہیں آئے گا۔
ان مقدس مقامات پر جاکر خصوصاً بیت اللہ شریف میں تو بس یہی ایک خیال ہر خیال پر غالب رہنا چاہیے کہ اب جب یہاں آئے ہیں، اس موقع سے نوازے گئے ہیں تو رب کے حضور بخشش کروا کر ہی جائیں۔ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر، معافی کے خواستگار ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اپنے جرم و عصیاں کو ذہن میں رکھتے ہوئے حج کا ایک ایک رکن ادا کریں۔ ہمیں تو یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ زندگی کا آخری حج نہ ہو، کیا معلوم کہ ہم دنیاوی امور میں مصروف رہ کر اپنی بخشش کاموقع ہی گنوا بیٹھیں۔
کوشش کیجیے جب رخت سفر باندھیں تو ہر لایعنی سوچ، ہر دنیاوی مصروفیت کو ذہن سے فراموش کرکے عازم سفر ہوں۔ ذہن میں یہ سوچ رکھیے کہ یہ رحمت خداوندی سے کئی لاکھوں کروڑوں لوگوں میں سے مجھے بیت اللہ شریف کی حاضری کایہ موقع عطا کیا گیا ہے۔ مجھے ا سے ریا کاری اور نمود و نمائش کی نذر نہیں کرنا بلکہ اس حج کو اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کرنا ہے کیوں کہ حج مبرور بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہاں جاتے تو بہت لوگ ہیں لیکن وہاں سے بدل کر کوئی کوئی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حج قبول فرمائے آمین۔