مریم شہزاد
سب پرندے روزانہ کی طرح صبح صبح ہنسی خوشی اپنے گھونسلوں سے نکلے اور اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا تلاش کرنے لگے، آج بھی سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا لیکن ہوا باجی آج کچھ ناراض تھی جس کی وجہ سے حبس اور گرمی زیادہ تھی انسان اور پرند چرند سب ہی بار بار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید سورج کچھ اپنی گرمی کم کردے مگر سورج اپنی دھن میں مگن گرمی بڑھاتا جا رہا تھا بادلوں کو سب کو گرمی سے بے حال دیکھ کر بہت پریشانی ہو رہی تھی لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کر رہے تھے آخر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا کام شروع کریں ،جیسے ہی بادلوں کو حکم ملا تو انہوں نے آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع کیا سورج نے جب بادلوں کو آتے دیکھا تو وہ گھبرا گئے اور روشنی کم کرنی شروع کردی دیکھتے ہی دیکھتے بادل سب طرف چھا گیا جب سب پرندوں نے یہ دیکھا کہ بادل تو اب بارش برسانے والے ہیں تو وہ جلدی جلدی اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے مگر ایک کوا بے فکری سے دیوار پہ بیٹھا رہا سب نے اس سے کہا بھی کہ چلو گھر چلتے ہیں بارش شروع ہو جائے گی تو گھر جانا مشکل ہو جائے گا مگر اس نے کہا میں ابھی نہیں جانا چاہتا ابھی اس گھر میں پکوڑے بنیں گے تو میں بھی وہ ایک پکوڑا تو کھا کر آؤں گا سب نے ہی اس کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی کی بات نہ ما نی آخر سب پرندے اس کو چھوڑ کر چلے گئے بارش آہستہ آہستہ شروع ہو گئی تھی اور نیچے گھر میں سے پکوڑوں کی خوشبو آنا شروع ہو گئی تھی اب کوا پھدک پھدک کر ایک کونے میں دبکا بیٹھا تھا اس کو سردی بھی لگنے لگی تھی کیونکہ اس کے پر بارش سے گیلے ہوگئے تھے اس کو بھوک بھی لگنے لگی تھی بارش بہت تیز ہو گئی تھی گھر کے سب بچے بڑے چھت پر نہانے آگئے تھے ایک بچہ اپنے ہاتھ میں پکوڑے لے کر آگیا تھا کوے کا بڑا دل للچا رہا تھا وہ کونے میں سے نکلا ایک بچے کی نظر اس پر پڑی ” کوا وہ دیکھو کوا کونے میں چھپا بیٹھا ہے ” علی نے کہا توسب بچے اس کے پاس آگئے۔
” کہاں ہے، کہاں ہے، ہمیں بھی دکھاؤ، ”
علی نے اشارہ کیا تو کوا سب کو ہی نظر آگیا ۔
” لگتا ہے کہ اس کو سردی لگ رہی ہے ” احمد نے کہا ۔
تو یوسف بولا ” نہیں مجھے تو لگ رہا ہے کہ یہ بھوکا ہے ” ۔
” لیکن یہ بارش سے پہلے ہی اپنے گھر کیوں نہیں گیا ” علی بولا ۔
” میں اس کو اپنا پکوڑا دے دوں؟ ” عفان نے سے پوچھا ۔
” لاؤ مجھے دو ،میں اس کی طرف طرف پھینک کر دیکھتا ہوں ” احمد نے کہا تو یوسف نے کہا ۔
” جی نہیں کھانے کی چیز کو پھینکتے نہیں ہیں ” ۔
” پھر کیا کریں ،اس کو تو بھوک لگ رہی ہوگی، اس کے پاس جاکر کیسے دیں ” احمد فکر مندی سے بولا ۔
” لاؤ عفان مجھے دو، میں اس کے پاس رکھ آتا ہوں ” علی نے اس سے پکوڑا لیا اور کوے کے قریب جانے لگا کوے نے علی کو ہاتھ میں پکوڑا لیے اپنی طرف آتے دیکھا تو جلدی سے آگے بڑھا کہ اس کے ہاتھ سے چھین کر کھا لے لیکن کوے کو اپنی طرف آتے دیکھا تو گھبرا گیا اور واپس پلٹ کر احمد وغیرہ کی طرف آگیا پکوڑا اس کے ہاتھ سے وہیں گرگیا کوے نے جھٹ پکوڑا اٹھایا اور اُچک کر کونے میں واپس چلا گیا اور مزے لے کر کھانے لگا بچے واپس گھر کے اندر چلے گئے جب کوا پکوڑا کھا چکا تو اب اس کو فکر شروع ہو ء کہ ا ب گھر کیسے جاؤ اب اس کو خیال آیا کہ رات بھی ہونے والی ہے اس نے زور زور سے کائیں کائیں کیا کہ شاید کوئی اس کی آواز سن کر آجائے مگر سب اپنے گھونسلوں میں دبک کر سوچکے تھے اور وہ اکیلا تھا ہر طرف رات کا اندھیرا ہو گیا تھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کائیں کائیں کرتا آخر چپ کر کے سوگیا اب صبح ہی اٹھ کر گھر جا سکوں گا اس نے سوچا اور خواب میں بھی پکوڑے کھاتا رہا ۔