افشاں نوید
دُنیا کا کوئی ملک اگر پارچہ بافی کی صنعت میں ترقی کررہا ہے، وہاں روزگار کے دروازے کھل گئے ہیں، معیشت کا پہیہ تیز تر گردش میں ہے۔ اس ملک کی خوش حالی دیکھ کر اقوام عالم میں آپ کا کوئی ہمدرد مشورہ دیتا ہے کہ آپ بھی ان سے اس ہنر کو سیکھ لیں۔ جدید ترین مشینری استعمال کریں اور اپنے ملک کو افلاس سے نکالیں، جواب میں کہا جائے، ہمیں اُن کی ترقی سے کیا لینا دینا؟ ان کو دُنیا ہی میں سب کچھ دے دیا گیا ہے، ہمارے لیے آخرت میں سب کچھ ہے، ہم کافروں سے کیوں کچھ سیکھیں، ان کے پاس سے شراب کی بُو آتی ہے، وہ سور کا گوشت کھانے والے، ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا ہمیں کیا سیکھائیں گے؟ دُنیا کی عظیم ترین شریعت اور قابل فخر ماضی ہمارا سرمایہ حیات ہے۔ ہمیں احساس برتری کے ساتھ جینا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اُن سے ترقی کے راز سیکھیں اور اُن کی تہذیبی گند سے دور رہیں۔ ترقی کے ساتھ تہذیب بھی بدلتی ہے۔ ہم قناعت پسند لوگ ہیں، ہمارے لیے آخرت کے عیش ہیں، ہمیں تو کہا گیا ہے کہ آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھیں اس دنیاوی عیش و عشرت کی سمت!!!۔
ہماری زندگی پر ہمارے عقائد کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عقائد کی درستگی کے بعد کردار کی درستگی کی باری آتی ہے۔ زندگی سب کو ایک بار ہی ملی ہے۔ کسی بے سلیقہ فرد سے آپ کہیں کہ کچھ سلیقہ پیدا کرو زندگی میں جواب میں وہ کہے ’’میرے عقیدے کا سلیقہ سے کیا تعلق؟ میں سارا زور روحانیت کے ارتقا پر لگاتا ہوں‘‘۔ آپ یہ جواب سُن کر خاموش ہوجائیں گے لیکن کسی بد سلیقہ شخص سے دوبارہ ملنے کو آپ کا جی نہ چاہے گا۔
اسی مثال کو اجتماعی دائرے پر پھیلالیں۔ آپ سے کہا جائے جن اقوام نے ترقی کی شاہراہوں پر کامیابی کے جھنڈے نصب کیے ہیں ان کی ترقی کے راز جانیں اور زندگی کے سفر پر کامیابی و کامرانی سے آگے بڑھیں۔ ہم کہتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اس لیے انہیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارا آخرت میں کتنا حصہ ہے یہ ہمیں بھی نہیں پتا۔ دوسری بات یہ کہ اُن کو من و سلویٰ کی طرح کچھ بھی ’’دیا‘‘ نہیں گیا ہے، انہوں نے اپنی لیاقت اور سخت جدوجہد سے حاصل کیا ہے۔
سڈنی میں بیٹی کی دوست فرحین کے ہاں ہم کھانے پر گئے۔ دوران گفتگو وہ بولی ریاضی کی خصوصی تعلیم بھی دی جاتی ہے، یہاں اسکول کے بچوں کو۔ میرا پندرہ برس کا بچہ جس گروپ میں ہے ایک سات برس کا چینی بچہ بھی اس گروپ میں ہے۔ چینی بچے ریاضی میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اس بچے کی ماں اس پر سخت محنت کرتی ہے، چائینز مائوں کا ایک ہی مشن ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کے ذریعے چائنا کو ایک عظیم قوم بنانا ہے۔ ان کی مائیں ان کی گھٹی میں محنت و جفاکشی ڈالتی ہیں۔ یہاں ٹاپ کی تمام یونیورسٹیز میں آپ کو کثرت سے چائینز نظر آئیں گے۔ چائنا دُنیا کی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے۔ کوئی طاقت جہاں بینی کے بعد ہی جہاں سازی کے مقام تک پہنچتی ہے۔
ایک مسلمان ماں دُنیاوی تعلیم کے ساتھ بچے کو حافظ یا قاری بناتی ہے اور اسے دین داری کی انتہا سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ حافظ و قاری ہونا سعادت ہے لیکن لاکھوں حافظ و قرار ہوں یا علماء و اساتذہ یا یونیورسٹیز کے گریجویٹس، کیا مسلم اُمہ کے مستقبل پر اُن کے اثرات ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ حفاظ پیدا نہ کیے جائیں مگر قرآن کا وہ فہم جو غلبہ دین کی تڑپ پیدا کردے اس کے بغیر ہم قرآن کے لاکھوں نسخے چھاپ لیں اور مساجد و مدارس میں ہزار گنا اضافہ کرلیں مگر بقول خرم مراد مرحوم ’’امت کی ذلت و سکنت سرفرازی سے نہیں بدلتی‘‘۔ آخر کیوں؟ ریت میں منہ چھپانے سے کب آفت ٹلتی ہے۔
آپ سوچیں! ایک قوم اپنے بچوں کو کھیل سے جوڑتی ہے (ہمارے بچے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں) وہاں بچے بہترین کھلاڑی ہیں کرکٹ کے، فورٹی کے، ٹینس کے، مائیں ہفتہ کے دو دن بچوں کی جسمانی تربیت کے لیے مختص کرتی ہیں۔ جب بچوں کے علاقائی مقابلے ہوتے ہیں تو 40 اور 50 ہزار کے اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ پوری قوم ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اسٹیڈیمز کا رُخ کرتی ہے۔ انہوں نے سالانہ شیڈول بنائے ہوئے ہیں کہ کون سا مہینہ کس کھیل کے لیے مختص ہے۔ کھیل اور جسمانی صحت ان کی ترجیح اوّل ہے۔
جب ہم بات کرتے ہیں کہ ہمیں آخرت میں سب کچھ ملے گا، دُنیا کی ترقی سے کیا لینا دینا۔ ہماری آخرت کی کامیابی کی بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، لیکن جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی انہوں نے تو دنیا کی باگ ڈور میں تمام تر جدید ذرائع و مسائل استعمال کیے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی سلطنت کی حدود میں کئی لاکھ مربع میل اضافہ کیا۔ مسلمان فاتحین نے مسلمانوں کی عظمت کی جو تاریخ رقم کی وہ سب ولی اللہ تھے۔ وہ ہم سے لاکھ گنا بہتر مسلمان تھے جنہوں نے ایک صدی سے کم عرصے میں اسلام کو دنیا کی سپر پاور بنادیا۔ ایسا تلوار کے زور پر نہیں ہوا تھا یہ صلہ رحمی تھی، اسلام کی اعلیٰ ترین اقدار تھیں جس کی جھلک جب مسلمانوں نے دنیا کو دکھائی تو دنیا سرنگوں ہوگئی۔ جہاں مسلمان فاتحین کی گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں جاتی تھیں وہ غیر مسلم حکومتیں خود جذیہ دینے پر آمادہ ہوجاتیں۔
پچھلے برس 2018ء کے اختتام پر اس سال کی ایجادات کی فہرست تھی۔ انسانی زندگی کس قدر حیرت انگیز تبدیلیوں اور راحتوں سے دوچار ہورہی ہے ان ایجادات کے باعث۔ ان ایجادات کے پیچھے چونکہ باغی دماغ ہیں اس لیے ہر نئی ایجاد خدا سے بغاوت میں ایک قدم آگے بڑھادیتی ہے انسانیت کو۔ ان نئی حیرت انگیز ایجادات سے ہم بھی اسی طرح استفادہ کررہے ہیں جس طرح غیر مسلم اقوام۔
وہ بیماریوں کے خلاف نت نئی ادویات ہوں یا آپریشن کی نئی ٹیکنالوجی۔ انسانی جسم میں قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات ہوں یا بڑھاپے میں معذوری میں کام آنے والے آلات۔ کون سی چیز مسلمان ایجاد کررہے ہیں؟ مصنوعی انسانی ہاتھ تو پرانی ایجاد ہے اب تحقیق اس پر ہورہی ہے کہ ان انگلیوں میں حس پیدا کردی جائے۔ خواب کسی طرح محفوظ کرلیے جائیں، انسانی دماغ کی کارکردگی کسی طرح بڑھادی جائے۔ اس طرح کی بے شمار باتیں پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ جو لوگ انسانیت کو یہ سب دینے کے لیے رات دن لیبارٹریوں میں کھپے ہوئے ہیں، انسانی دنیا کو بہتر بنانے کے لیے خلا میں مشن بھیج رہے ہیں، جہاں حکومتیں غیر مسلموں کے پاس ہیں وہ اپنے عوام کی زندگیوں کو کس طرح امن و سکون و خوش حالی کا گہوارہ بنارہے ہیں۔ اگرچہ تخریب ساتھ ساتھ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شَر اس لیے ہے کہ وہ خدائی ہدایت سے محروم ہیں، طاقت کے نشے میں دنیا کو زیر و زبر کیے دے رہے ہیں۔ اگر یہی بالادستی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو تاریخ ہمیں دکھاتی ہے کہ مسلمان سرسبز درختوں کو نہ کاٹنے اور بے زبان مخلوقات تک سے رحم کرنے میں مثالیں قائم کرتے ہیں۔ جو کوئی اس روئے زمین پر خلقِ خداکے حق میں مہربان ہوگا اس دنیا کو بنانے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں لگائے گا اللہ رب کریم ’’بنائو‘‘ کی ذمہ داری اس کے حوالے کریں گے۔ ہم اپنے عقائد و عبادات کے ساتھ دس فیصد بھی محنت و قربانی پر آمادہ نہ ہوں جو بے عقیدہ اور بے خدا تہذیب کے پجاری دے رہے ہیں تو امامت کا تاج کیسے ہمارے سَر پر رکھا جاسکتا ہے؟۔ ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کے علوم کو اپنی زبانوں میں ہی منتقل کرلیں۔ چین دنیا کی اگلی سپر پاور بننے کو تیار ہے، ہم چینی ادب، تاریخ اور فلسفہ ہی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے ان کے مستقبل کے ارادوں سے آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے کتب خانے، ہمارے طباعتی ادارے، ہمارے سوچنے والے دانشور کیا قوم کو آنے والے وقت کے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر ہم کچھ بھی کرسکنے کی پوزیشن میں نہیں، خدانخواستہ تو اپنا یہ عقیدہ ضرور درست کرلیں کہ خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو بدلنے کا عزم نہیں کرتی۔