وزیراعظم عمران خان کے امریکا کے پہلے دورے کے چرچے جاری ہیں۔ اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ امریکی صدر اور امریکا میں مقیم پاکستانیوں نے وزیراعظم عمران خان کا زبردست استقبال کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی۔ یہ امر اس دورے کے حوالے سے دوسری اہم بات رہی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیا، وزیراعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔
ملاقات کے آغاز میں میڈیا کی موجودگی میں مختصر گفتگو کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو انتہائی خوشگوار دیکھ رہا ہوں، امید ہے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ اوول آفس میں میڈیا سے گفتگو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان سے واپسی کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ کام کررہا ہے، اور امریکا خطے میں پولیس مین بننا نہیں چاہتا‘‘۔ ٹرمپ کا واضح الفاظ میں یہ بھی کہنا تھا کہ ’’پاکستان اس وقت افغانستان میں ہماری بڑی مدد کررہا ہے۔‘‘
عمران خان کے اس دورے کی اہمیت بڑھنے کی وجہ بھی یہی لگتی ہے کہ امریکا افغانستان میں طالبان سے جنگ لڑتے لڑتے تھک چکا، بلکہ بری طرح پھنس چکا ہے ، اسے وہاں سے ’’عزت کے ساتھ‘‘ نکلنے کے لیے پاکستان کا تعاون چاہیے، جو بقول صدر ٹرمپ کے پاکستان کررہا ہے۔
اگرچہ عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد امریکا کا دورہ کرکے امریکا کی خواہش پوری کی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے اس دوستانہ رویّے پر امریکا پاکستان کے لیے مستقبل قریب میں کیا کچھ کرتا ہے یا کرے گا؟
اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے گفتگو کے دوران کشمیر کے تنازعے، حالیہ بھارتی رویّے اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عملاً امریکا بھارت کو ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب بھی ہوگا؟ اہم بات تو یہ بھی ہے کہ امریکی صدر کا یہ بیان اپنے عمل کا بھی اظہار کرے گا، یا صرف بیان کی حد تک ہی رہے گا؟ امریکا کے لیے پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ امریکی مقاصد کے حصول کے لیے پاک فوج کی جانی و مالی قربانیاں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ دہشت گردی جس سے امریکا سب سے زیادہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا تھا، اسے اس خوف سے باہر نکالنے کے لیے پاکستان نے جو کچھ کیا وہ بھی ایک مثال ہے۔ لیکن بدلے میں امریکا مزید الزامات کے ساتھ ’’ڈومور‘‘کی رٹ لگاتا رہا۔
چونکہ عمران خان کے دورۂ امریکا کے دوران پاکستان کے حوالے سے امریکا کے ماضی کے مؤقف پر کیے جانے والے ایک سوال پر ٹرمپ نے اپنے ملک کے سابق صدور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’میرا نہیں خیال کہ پاکستان نے ماضی میں امریکا اور اس کے صدور کا احترام کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے بہت کچھ کرسکتا تھا، انہوں نے ایسا نہیں کیا‘‘۔ ایک اور الزام کہ انہوں نے غلط صدور سے معاہدے کیے، اس کو کون دیکھتا ہے؟ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ماضی میں بہت مدد کی، لیکن اب معاملہ یہ نہیں ہے، اب ایک نیا لیڈر ہے جو پاکستان کا ایک عظیم لیڈر بننے جارہا ہے، اور یہاں امریکا میں بھی نئے لیڈر ہیں، اس لیے اب میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بہت کچھ کرسکتاہے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے پاکستان کو دورہ کرنے کی نہ صرف خواہش کا اظہار کیا بلکہ وزیراعظم عمران خان کی پاکستان آنے کی دعوت قبول کرتے ہوئے اپنے دورے کا وعدہ بھی کرلیا۔
خیال ہے کہ اس دورے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ اپنی پاکستان سے متعلق نئی پالیسیوں کا اظہار کریں گے اور اس حوالے سے نئے اعلانات بھی کریں گے ۔
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے فوری طور پر ایسی کوئی مثبت بات سمجھ میں نہیں آسکی جس کا اظہار اس تحریر میں کیا جاسکے۔
صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران کی اس ملاقات کو ماضی کے دو کھلاڑیوں کی ملاقات بھی کہا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ ریسلنگ رِنگ کے پہلوان ہیں، تو عمران خان کرکٹ کے میدان کے عالمی شہرت یافتہ کپتان۔ امریکی صدر سے ملاقات کے نتائج پاکستانی قوم ’’کرکٹ کے چھکے‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر اس دورے کے حوالے سے جو منفی باتیں گردش کررہی ہیں وہ فکر انگیز ہیںٖ۔ اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ نے قادیانیوں سے متعلق امور کو وزیراعظم کے سامنے اٹھایا اور ان سے توقع رکھی کہ وہ اس معاملے میں جلد اقدامات کریں گے۔ ساتھ ہی امریکی صدر نے اسامہ بن لادن کے معاملے پر جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار شکیل آفریدی کے حوالے سے بھی گفتگو کی، مگر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں کوئی بات امریکی صدر سے نہیں کی جس کا اظہار خود انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، تاہم ہوگی۔ یہی بات صدر ٹرمپ نے بھی دہرا دی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا کے ساتھ ہی قادیانیوں کے لیے آئینی شق میں تبدیلی کی بازگشت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ امریکا کے دورے کے موقع پر ہونے والے جلسے کا اہتمام ’’قادیانیوں‘‘ کی سرگرم این جی او نے کیا تھا۔ لیکن یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ عمران خان اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران کچھ کریں یا نہ کریں، لیکن اگر انہوں نے قادیانیوں سے متعلق پاکستان کے آئین کو چھیڑا، یا اسے تبدیل کرنے کی ناپاک کوشش کی تو پوری قوم اُسی روز سے اُن کے اور اُن کی حکومت کے خلاف ہوجائے گی۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کو اس طرح کی کسی بھیانک غلطی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
امریکی دورے کے دوران ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی آئی ایس آئی کی جانب سے دی گئی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی‘‘۔ یہ ہر لحاظ سے غیر مناسب بات لگتی ہے۔ اگرچہ عمران خان نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ ’’اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے ابتدا میں اسامہ کی موجودگی کا ٹیلی فونک لنک امریکا کو فراہم کیا تھا‘‘۔ تاہم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم امریکا کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ہم خود اسامہ بن لادن کو پکڑتے، لیکن امریکا نے ہماری سرزمین میں گھس کر ایک آدمی کو ہلاک کردیا‘‘۔ عمران خان کے بقول اُس وقت پاکستان امریکا کی جنگ لڑرہا تھا اور اس واقعے کے بعد پاکستان کو شدید شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسامہ کے خلاف کارروائی میں امریکا کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی پر بات ہوسکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ امریکا کے دوران اُن تمام وعدوں اور دعووں کو بھلا ڈالا تھا جو انہوں نے انتخابی مہم کے وقت عوامی جلسوں میں کیے تھے۔
عمران خان کے دورۂ امریکا سے خارجی معاملات میں تبدیلی نظر آئے یا نہ آئے، مگر ملک کے اندر جاری سیاسی کشیدگی ضرور ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ وزیراعظم کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے فوری بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا یہ کہنا کہ ’’ہم دنیا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں لہٰذا میں حکومت کی کوششوں کی غیر مشروط حمایت کرتا ہوں، جہاں ضرورت ہوگی میں ہمیشہ مثبت تنقید کروں گا لیکن سب سے پہلے پاکستان کا ساتھ دوں گا‘‘ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ وہ اب مزید حکومت مخالف مہم کے حق میں نہیں رہے۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کے کامیاب دورے کے دوران اپوزیشن کو کسی جانب سے یہ اشارہ ملا ہوگا کہ ’’اب حکومت کے خلاف ہاتھ ہلکا کردیا جائے۔‘‘