اللہ کا شکر ہے صاحب

3507

قدسیہ ملک
شیخ سعدیؒ کی گلستان میں ایک روایت ہے کہ ’’میں نے کبھی زمانے کے ناموافق حالات کی شکایت نہیں کی۔ نہ کبھی تکلیفوں پر اظہارِ ناگواری کیا۔ جس حال میں رہا، خوش رہا، اور خدا کا شکر ادا کرتا رہا کہ کہیں اس سے بھی زیادہ پریشانی میں نہ مبتلا ہوجاؤں۔ خدا نے جس حال میں رکھا اس پر صبر و شکر کیا۔ لیکن جس وقت میرے پاؤں ننگے تھے، جوتا بھی میسر نہ تھا، میں بہت پریشان اور ننگے پاؤں دمشق کی جامع مسجد پہنچا۔ وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پیر ہی نہیں تھے۔ اس کو دیکھ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ننگے پیروں پر صبر کیا۔ جس شخص کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے اُس کو بھنا ہوا مرغ بھی ساگ پات کے برابر معلوم ہوتا ہے، اور جس شخص کو اچھا کھانا میسر نہیں ہے اس کے لیے اُبلا شلجم بھی بھنے ہوئے مرغ کے برابر ہے!‘‘
شیخ الحدیث و محققِ قرآن مولانا عبدالعزیز سے کسی نے پوچھا ’’شکر گزاری کیا ہے؟‘‘
فرمایا: ’’اللہ نے جو نعمتیں جس مصرف کے لیے دی ہیں، اُن کا اسی طرح استعمال کرنا جیسا اس کے بنانے والے کی مشیت ہے‘‘۔ یعنی ہر نعمت کو اللہ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق استعمال کرنا ہی اصل شکر گزاری ہے۔
اصطلاح میں شکر کی تعریف ہے: خدا کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ان کا دل، زبان، عمل سے اظہار کرنا۔
شکرگزاری اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب شکر اور اہلِ شکر ہیں، اور سب سے مبغوض کفر اور اہلِ کفر ہیں۔ قرآن میں انسانوں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی بارہا شکر گزاری کی تعریف کی گئی ہے۔
’’ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، اب چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے‘‘۔ (الدہر۔3)۔
ایک جگہ فرمایا: ’’جو کوئی شکر ادا کرتا ہے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں بزرگ ہے۔‘‘ (النحل۔40)۔
ارشاد ربانی ہے: ’’اگر تم شکر گزار بنوگے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا، اوراگر کفرانِ نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم۔7)۔
قرآن کہتا ہے: ’’اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (الزمر۔7)۔
قرآن میں متعدد مقامات پر شکر اور کفر کا موازنہ کیاگیا ہے۔ شکر کرنے والوں کے لیے اللہ کی محبت بہت بڑھ جاتی ہے۔ پہلی گزری ہوئی اقوام میں بھی شکرگزاری کے جذبے کا اللہ رب العزت نے اتنی محبت سے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: ’’حضرت نوح ایک شکرگزار بندے تھے، لہٰذا تم ان کی پیروی میں شکرگزار بنو‘‘ (بنی اسرائیل۔3)۔ حضرت موسیٰؑ کو جب شرفِ کلامی بخشا تو ان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’آپ شکر گزاروں میں سے ہوجائیے‘‘ (الاعراف۔144)۔ حضرت ابراہیمؑ کا امتیازی وصف یہی بتایا کہ ’’وہ اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار تھے‘‘ (النحل۔121)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے شکر گزاری اختیار کرنے کا حکم دیا، فرمایا:’’اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دئیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دئیے، اس لیے کہ تم شکرگزار بنو۔‘‘ (النحل۔78)۔
احادیث میں بھی شکر گزاری کو اختیار کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ بندۂ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور اگر اُسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، اور یہ صبر بھی اُس کے لیے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔(مسلم)۔
دو خصلتیں جس میں ہوتی ہیں اللہ اُسے صابر شاکر لکھتا ہے، اور جس میں یہ دو خصلتیں نہیں ہوتیں اللہ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا: جو شخص اپنے دینی معاملات میں اپنے سے اعلیٰ (زیادہ دیندار) کو دیکھ کر اس کی اقتدا کرلے، اور دنیوی معاملات میں اپنے سے کمتر (غریب) کو دیکھ کر اپنے ساتھ اللہ کے امتیازی فضل کے معاملے پر اللہ کی حمد کرے تو اللہ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے، اور جو اپنے دینی معاملات میں اپنے سے کمتر (کم دیندار) کو دیکھے، اور اپنے دنیوی معاملات میں اپنے سے برتر (زیادہ مالدار) کو دیکھے اور اپنی (کم مالداری والی) حالت پرافسوس کرے تو اللہ اسے صابر وشاکر نہیں لکھتا۔ یعنی دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے اوپر، اپنے سے برتر لوگوں کو دیکھ کر ان سے نصیحت لینی چاہیے، اور دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھنا چاہیے تاکہ دنیا کی رغبت دل میں کم سے کم جگہ پاسکے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان ہے: ’’ایمان کے دو حصے ہیں، ایک حصہ صبر ہے اور دوسرا حصہ شکر ہے۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ کا فرمان ہے: ’’اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، پھر جب نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا جاتا تو اللہ انہیں عذاب سے بدل دیتا ہے۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں اپنی قسمت سے شاکی، اپنے نصیب سے ناخوش، اپنی موجودہ زندگی سے بے زار نظر آتا ہے، جس کے باعث معاشرہ ایک عجیب طرح کی پریشانیوں اور مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ فوزیہ جوگن اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں: ’’ایک حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سب سے زیادہ عورتوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں!
آج کل ہم انجانے میں اپنی خواہش و ہوس کے ہاتھوں ہر حاصل کی ناشکری کرتے ہیں۔ اپنی بیوی یا شوہر کا دوسروں کی بیوی یا شوہر سے موازنہ کرنا تو اتنا نارمل ہوچکا ہے کہ اسے اب ایبنارملٹی کوئی نہیں سمجھتا۔ موازنہ کرنے والے کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں ہمارے ساتھ مسئلہ ہے کہ ہم دوسرے جیسے نہیں، یا فلاں شخص کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے، یا فلاں شخص فلاں کی طرح کیوں نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو پرفیکشنزم کا حامل ہے اس کو اتنی ہی ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے جتنی کہ اسے، جو دوسرے کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اذیت میں ہے۔
محبت آپ کو، جیسے ہیں ویسا تسلیم کرتی ہے۔ آپ اپنی شخصیت میں اللہ کے لیے نکھار پیدا کریں، اپنی زینت اپنے شوہر یا بیوی کے لیے کریں۔ مگر ایسا پُرسکون ذہن تب ہی میسر آتا ہے جب نیت نفس نہیں، نیت اللہ ہو۔ کوئی کسی ذہنی یا روحانی مسئلے میں الجھا ہوا ہے، اس کا فرق اس کے ذہنی سکون سے اندازہ لگا کر کیا جاتا ہے‘‘۔ ہم عورتیں ایک بہت بڑی ذمہ داری پر مامور ہیں۔ خاندان کی آبیاری اور بچوں کی پرورش آسان نہیں۔ اگر ایک خاتون ہائوس وائف ہے تو وہ سب سے اہم عہدے پر فائز ہے۔ اس کو ’’ورکنگ ویمن‘‘ سے اپنے آپ کو کسی بھی طور پر پیچھے نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ عورت تو24 گھنٹے کی نگران ہے۔ اس کی نوکری سال کے 365 دن، مہینے کے پورے 30/31 دن، دن و رات کے پورے 24 گھنٹے کی نوکری ہے۔ اسی لیے اس کا رتبہ بھی مردوں سے افضل ہے۔ مرد کو اس لیے قوّام بنایا گیا کہ نان نفقہ سے لے کر گھر کی ہر طرح کی معاشی ضروریات اس کی ذمہ داری ہیں۔ بدلے میں وہ عورت کی محبت اور اپنی اولاد کی بہترین پرورش و تربیت کا حق دار ہے۔ جبکہ معاش کی ذمہ داری اللہ نے عورت پر نہیں ڈالی، اسے بس شوہر کی شکر گزاری اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’عورت جب پنج وقتہ نماز پڑھے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھے، اپنی عزت وآبروکی حفاظت کرے، اور شوہر کی فرماں برداری کرے تو وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔‘‘ (بیہقی:کتاب النکاح)
آج کی عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی عزت بھی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگتی ہے، محبت بھی اور اپنی حیثیت بھی۔ جب ’دوسرے‘ خدا بن جائیں یا بنا دیئے جائیں تو خواری تو نصیب کا حصہ ہے ناں…! ابلیس تو اپنی ڈیوٹی پر مامور ہے، اور نفس کی چال بازیوں سے جواز گھڑنے میں کیا دیر لگتی ہے بھلا! اور مرد یہ بھول گیا ہے کہ وہ قوّام ہے، نگہبان ہے، اور یہ عطا اس پر امانت کے طور پر اس کے اختیار کی آزمائش ہے۔ مجازی خدا کا درجہ بھی بطور امانت ملا تھا اور وہ نادان اللہ کو فراموش کیے حقیقتاً خدا بننے پر تلا ہوتا ہے۔ اور عورت یہ بھول گئی ہے کہ اطاعت میں اس کی کیا خیر ہے۔ دراصل ہم خود سے منافق ہیں، جس دن ہم خود سے سچے ہوجائیں، اسی دن خود سے اور سب سے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ اسی لیے آج کل کی عورت بیماریوں کا منبع بن گئی ہے۔ جب آپ اپنی زندگی میں موجود چیزوں کے لیے شکر گزار بنتے ہیں تو آپ کے اندر سے غصہ اور چڑچڑاہٹ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کے اندر منفی جذبات پیدا ہوں اپنے آپ کو دستیاب چیزوں پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ دنیا کے کتنے ہی لوگ ان سے محروم ہیں۔
جذبۂ شکر گزاری ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر انسان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ ایک تحقیق کے مطابق شکر گزار اور قسمت پر صبر کرنے والوں میں، کم شکرگزار لوگوں کی نسبت بیماریاں کم ہوتی ہیں، یعنی وہ کم بیمار پڑتے ہیں۔ شکر گزاری ایک ایسی عادت ہے جو انسانی اعصاب کو پُرسکون کرتی ہے۔ شکر گزاری کی عادت جسمانی صحت میں بھی بہتری لاتی ہے۔ یہ ایک طرف تو دماغی طور پر انسان کو پُرسکون کرتی ہے، دوسری جانب ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات ڈالتی ہے، اور انسان کو مختلف اقسام کی تکالیف سے نجات دلاتی ہے۔ یہ دل و دماغ کو مطمئن کرکے حسد اور جلن کے منفی خیالات سے چھٹکارا دلاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر آپ کے اندر شکر گزاری کی عادت ہے تو آپ بے شمار فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ چیزوں کو مثبت انداز سے دیکھنا، ان کی قدر کرنا انسان میں شکر گزاری پیدا کرتا ہے۔
ان تمام نصیحتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صبر و شکر دونوں ایمانی گاڑی کے دو پہیے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے بغیر نہ ایمان معتبر ہوتا ہے اور نہ مکمل۔ ایمان کی تکمیل و ترقی کے لیے صبر و شکر دونوں سے یکساں طور پر آراستہ ہونا بہت ضروری ہے۔

حصہ