سیدہ عنبرین عالم
سید احمد ملک آج پہلی بار اپنے دفتر آئے تھے۔ 32 سال کی عمر میں کئی ڈگریاں لینے کے بعد، مقابلے کا امتحان بھی شاندار نمبروں سے پاس کیا، اب ساہیوال میں کمشنر لگ گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ نوکری کے معیار کا ہونے کے باوجود کئی جگہ پر مٹھائی کے نام پر بڑی رقمیں کھلائیں تو یہ نوکری ملی۔ شادی تو اب تک کی نہیں تھی، بس ابّا تھے اور ایک چھوٹا بھائی۔ دونوں کی نوکری کراچی میں تھی، وہیں رہتے تھے۔ لہٰذا سرکاری بنگلے میں احمد ملک اکیلے ہی شفٹ ہوگئے۔ جس دن آئے، بنگلے اور دفتر کے ملاکر 24 ملازموں کو مٹھائی کے نام پر پانچ، پانچ سو روپے دینے پڑے۔ اس نوکری پر اتنا خرچا ہوچکا تھا کہ اس خرچے کو پورا کرنے کے لیے کچھ تو بے ایمانی کرنی ہی پڑتی۔ پہلے ہی روز علاقے کے ایک بڑے چودھری صاحب نے دعوت کردی جو علاقے کے ایم پی اے بھی تھے۔ احمد ملک صاحب پہنچے تو الگ ہی قسم کی دعوت تھی۔ حرام مشروب، بھنے ہوئے تیتر سے لے کر ہرن کے گوشت تک ہر چیز کی فراوانی تھی۔ احمد ملک صاحب کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ بیٹھے رہے اور دل ہی دل میں استغفار پڑھتے رہے۔ وہ پہلے ہی دن کسی نئی دشمنی کی بنیاد نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ پھر چند ہی لمحوں میں طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے گھر بھاگے تو چودھری صاحب نے ڈھیروں کھانا ہمراہ کردیا، جسے احمد ملک صاحب نے ہاتھ تک نہ لگایا کہ نہ جانے کس کس غریب کی آہیں اس رزق میں شامل ہوں گی۔
دوسرے دن سے باقاعدہ کام شروع ہوا تو احمد ملک صاحب حیران و پریشان۔ ایسے ایسے ناجائز کام اور ساتھ لاکھوں کی رشوت آفر کی جاتی، نہ مانتے تو جان لینے سے لے کر ہر قسم کی دھمکی دی جاتی۔ کہیں اسکول کھولنا چاہا تو خط میں لپٹی ہوئی پستول کی گولی موصول ہوئی کہ ہمارے علاقے میں اسکول نہ کھولنا ورنہ جان سے جائو گے۔ کہیں پانی کا نظام ٹھیک کرنا چاہتے تو اوپر سے کال آجاتی کہ پانی صرف فلاں چودھری کے کھیتوں تک جائے، آگے نہ جانے پائے، ورنہ اور لوگ بھی ان کے جتنی پیداوار کرکے ان سے بڑے چودھری بن جائیں گے۔ احمد ملک صاحب کی تو راتوں کی نیندیں اُڑ گئیں، ہر وقت فکر مند رہتے کہ ان مسئلوں سے کیسے نمٹوں! کام کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ آخر کار استعفیٰ دے کر کراچی واپس لوٹ گئے۔
رات کا وقت تھا، بجلی گئی ہوئی تھی، احمد ملک صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی اسفر ملک اپنے ابا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’ابا! آج کل کے تو مسلمان ایسے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے، میں تو ایک ماہ بھی نوکری نہ کرسکا‘‘۔ احمد صاحب بولے۔
’’بیٹا! یہ تمام نظام کی خرابی ہے، نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وہ تبدیلی نہیں جیسی آج کل آئی ہوئی ہے، وہی سارے سیاست دان اب تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں جو پہلے دوسری پارٹیوں میں رہ کر حکومتیں کررہے تھے، کوئی اور تبدیلی تو درکنار، چہرے تک تبدیل نہیں ہوئے۔ ایسا لگتا ہے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے‘‘۔ ابا نے کہا۔
’’نظام کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ لوگ تو اللہ کے احکام ماننے کو تیار نہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ اسفر نے کہا۔
ابا مسکرانے لگے ’’بیٹا! نظام کی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنے رسولؐ کا ہی طریقہ اپنانا ہوگا، ہمیں پہلے دلوں کو بدلنا ہوگا۔ جب روحیں پاکی حاصل کرلیں گی تو ہی معاشرہ مثبت تبدیلی کی طرف بڑھے گا، ورنہ آپ لاکھ قوانین بنالیں، کوئی نہ کوئی چور راستہ ہمیشہ موجود رہتا ہے، دل میں اللہ کا خوف نہ ہوگا تو جرائم ہوں گے، بے ایمانی بھی ہوگی، اقربا پروری بھی ہوگی۔ دل میں عشق ہوگا تو ہر ایک بڑھ بڑھ کر نیکی کرے گا‘‘۔ انہوں نے سمجھایا۔
احمد ملک غور سے سن رہے تھے۔’’روح کی تبدیلی تو قرآن سے ہی آسکتی ہے۔ کئی جماعتیں ہیں جو باقاعدہ مدرسے قائم کرکے، گلی محلے کی سطح پر اور خواتین میں بھی قرآن مع تفاسیر پڑھا رہی ہیں، مگر کوئی بہتری آنے کے بجائے ان جماعتوں کے آپس کے اختلافات اور نفرتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مسلمان اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ فیس بُک پر آپ ان کے صفحوں پر نہیں جاسکتے۔ ایک دوسرے کے خلاف آزادانہ گالیاں، الزامات… جب ذہنی پستی کا یہ عالم ہوگا تو روحیں کیسے پاک ہوں گی!‘‘ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا۔
ابا نے اثبات میں سر ہلایا ’’بیٹا! یہ تو قرآن میں بھی لکھا ہوا ہے کہ جب کتاب کو اترے ہوئے بہت عرصہ گزر جاتا ہے تو دل سخت ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر قوم کے ساتھ ہوا ہے۔ جو لوگ پاک ترین تھے اور تمام دنیا کی تباہی کے بعد نوحؑ کی کشتی پر سے اترے، وہ بھی ایک مدت گزرنے کے بعد دوبارہ شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ ہوتا رہا ہے، ایسے مواقع پر میرا رب عام طور پر نئے پیغمبر اتارتا رہا۔ چونکہ اب نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور قرآن ہی آخری کتاب ہے تو اسی میں سے متفق علیہ احکامات کو رائج کیا جاسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے فرمایا۔
’’کون رائج کرے گا؟ امتِ مسلمہ کا کوئی متفقہ قائد تو ہے نہیں، تمام فرقے اپنا اپنا قائد لانے پر آپس میں لڑ پڑیں گے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ حضرت مہدیؑ یہ کام کریں، لیکن ان کا اپنا ایجنڈا ہوگا‘‘۔ احمد صاحب نے اظہارِِ خیال کیا۔
’’یہ تم سے کس نے کہا کہ مہدیؑ کا اپنا ایجنڈا ہوگا؟ دیکھو! میرے محمدؐ کو رحمت للعالمین کہا گیا، مہدی کا کام پیارے محمدؐ کے ایجنڈے کی تکمیل ہے، یعنی محمدؐ کے دین کو تمام عالم پر رائج کرکے ان کے مشن کو مکمل کریں گے۔ مہدیؑ کے لیے بھی ہدایت کا منبع صرف قرآن ہے، وہ بھی پیارے محمدؐ کی سنت کو ہی مشعلِ راہ بناکر چلیں گے۔ ہاں البتہ چونکہ وہ میرے رب کے منتخب کردہ مصلح ہوں گے، تو ظاہر ہے وہ قرآن کو جیسے سمجھیں گے اور سمجھائیں گے، وہ روح کا انقلاب ہوگا جو تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا، اور یوں پوری دنیا پر اسلام نافذ ہوجائے گا‘‘۔ ابا نے احمد صاحب کو سمجھایا۔
’’ابا! نعوذ باللہ، کہنا نہیں چاہیے مگر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل اس قدر توانا میڈیا، کئی پروپیگنڈے مسلسل جاری، ذہن سازی کا کاروبار شیطانوں کے حق میں انتہائی طاقت سے جاری ہے، ایسے میں ایک مہدیؑ بغیر وسائل کے کیا کرلیں گے؟ جب کہ امتِ مسلمہ کے پاس نہ وسائل ہیں نہ ٹیکنالوجی۔‘‘
ابا مسکرائے۔ ’’بیٹا! میں نہیں کہتا کہ مہدیؑ کوئی مافوق الفطرت انسان ہوں گے اور نعوذباللہ جادو کے زور سے حالات کو امتِ مسلمہ کے لیے موافق بنادیں گے۔ مگر بیٹا! میرا رب جس کو بھی نسلِِ انسانی کی ہدایت کے لیے متعین کرتا ہے، اُسے ایک تو تمام انسانوں سے زیادہ ذہین بناتا ہے اور دوسرے اُس سے رابطے میں رہتا ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ کا یہ نمائندہ کئی مسائل سے نبرد آزما ہوجاتا ہے۔ جس کے پیچھے اللہ رب العزت کا ہاتھ ہو، اور وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مخلص ہو تو شکست ممکن نہیں۔ کیا معلوم ٹیکنالوجی کے حامل بہت سے لوگ ہی مہدیؑ کے ساتھ ہوجائیں، کیا پتا میرا رب اُن پر اپنے نادیدہ خزانوں کے منہ کھول دے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ذہانت کے باعث کوئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد کریں اور دنیا ان کا مقابلہ نہ کرسکے‘‘۔ انہوں نے امکانات ظاہر کیے۔
اسفر نے تائید میں سر ہلایا۔ ’’قرآن بھی کوئی معمولی چیز نہیں، یہ تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کرچکا ہے۔ ہوسکتا ہے مہدیؑ قرآن کے ایسے راز ظاہر کریں جو تمام انسانیت کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا پیش خیمہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ موجودہ دنیا کی ضروریات کے مطابق میرے اللہ کی رضا سے نئے مالیاتی، معاشرتی اور حکومتی قوانین مرتب کریں، جو ہوں قرآن کے دائرے میں اور آج کی نئی نسل اور نئے حالات کا احاطہ بھی کریں‘‘۔ اس نے اپنی توقعات پیش کیں۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘ احمد صاحب نے بھی تائید کی۔ ’’اسلامی نظام عالمگیر ہوتا ہے، یہ کسی ایک علاقے سے شروع تو ہوسکتا ہے لیکن پھیلے گا تمام دنیا میں۔ یہ نظام کتنے بھی علاقوں اور ملکوں پر مشتمل ہو، اس کا ہیڈ ایک ہوگا، جسے خلیفۃ اللہ کہا جاتا ہے، یعنی میرے اللہ بادشاہ کا نائب، جو زمین پر اللہ رب العزت کا قانون نافذ کرے۔ خلافت میں ہر شخص خلیفہ کو جواب دہ ہے، اور خلیفہ ذمے دار ہے کہ تمام بنیادی سہولیات بلاتفریق تمام انسانوں کو پہنچائے، اور حُسنِ انتظام سے نسلِ انسانی کی مشکلات میں ہر ممکن کمی کرے، یہ خلافت ہے۔‘‘
اسفر کے چہرے پر الجھن تھی، ’’لیکن کیا ہم نئی دنیا کے حساب سے نئے ادارے اور قوانین بنانے سے اپنے رسولؐ کی نافرمانی کے مرتکب تو نہیں ہوں گے؟ جو پیارے محمدؐ نے نہیں کیا، وہ ہم کیسے کرسکتے ہیں!‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں، اسلام میں ایسی سختی نہیںہے‘‘۔ ابا نے کہا۔ ’’اب دیکھو ناں، حضرت محمدؐ کے وصال کے بعد جب حضرت عمرؓ کا دورِِ خلافت آیا تو انہوں نے کئی اداروں کی بنیاد رکھی۔ سرکاری فوج، پوسٹ آفس، یتیم خانے، شفاخانے، سرائے، عوامی بیت الخلا وغیرہ انہوں نے شروع کیے، اس میں رسولؐ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نہیں۔‘‘
’’درست…‘‘ احمد صاحب نے فرمایا۔ ’’میرے خیال میں آج کل کی دنیا میں تو سب سے پہلے ہر علاقے کا مکمل ڈیٹابیس بنانا ضروری ہوگا… کون کس عمر کا ہے، کیا کرتا ہے، کیا ضروریات ہیں، یہ ڈیٹا بچے کے پید اہوتے ہی شروع ہوجائے، اور ہر ایک کی پہنچ میں ہو۔ اسکول سے، دفتر سے، دکان سے، اسپتال سے، ہر جگہ سے اس ڈیٹا میں مسلسل ذاتی معلومات میں تبدیلی نوٹ کرائی جائے۔ اگر دکان سے کوئی چیز لی تو دکان والا آپ کا ڈیٹا نمبر پوچھ کر آپ کے ڈیٹا میں ان چیزوں کا اندراج کرے جو آپ نے لیں، اسپتال میں آپ کس مرض کے علاج کے لیے گئے، اسپتال سے آپ کے ڈیٹا میں اندراج ہو۔ صرف سرکاری سواریوں کا رواج ہو، اور آپ جہاں جائیں بس یا ٹیکسی والا آپ کے ڈیٹا میں اندراج کرے، اور ہر سال حکومت ہر ایک کا ڈیٹا ایک بار Verify کرے۔ اسی طرح حکومت کو تمام عوام کی ضروریات کا علم ہوگا اور جرائم بھی ختم ہوجائیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
ابا اور اسفر ہنسنے لگے۔ ’’یہ تو بڑا خطرناک نظام ہوگا، بغیر حکومت کی نظروں میں آئے کوئی کچھ کر ہی نہیں سکے گا، کوئی ہفتے میں چار بار آئس کریم کھانے چلا گیا تو حساب ہوجائے گا کہ آپ کی تو اتنی تنخواہ نہیں، آپ نے چار بار آئس کریم کیسے کھالی؟ بھائی تم تو مروائو گے‘‘۔ اسفر نے کہا۔
احمد صاحب بھی ہنسنے لگے۔ ’’یقین کرو جو صحیح انسان ہوگا اُس کے لیے یہ نظام خیر ہی خیر ہے، اُس پر کوئی جھوٹا الزام لگا بھی تو وہ اپنا ڈیٹا پیش کردے گا کہ دیکھ لو جو چاہو۔ سارے عدالتی فیصلے منٹوں میں ہوںگے، پھر یہ بھی تو دیکھو کہ میرے رب نے قیامت کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ ایسی کتابِ اعمال ہوگی کہ لوگ دیکھ کر کہیں گے کہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو… جیسے قیامت کو ’اعمال کی فلم‘ کی بات سن کر پرانے لوگ حیرت کرتے تھے، مگر ہم دن رات فلمیں دیکھ کر یقین کرچکے کہ اللہ کا بھی CCTV کیمرہ ہے جو ہمارے اعمال ریکارڈ کررہا ہے۔ آج گیسیں تُلتی ہوئی دیکھ کر یقین ہوگیا کہ اعمال بھی تولے جائیں گے۔ اسی طرح لکھ کر رکھ لو قیامت کی تمام نشانیاں قیامت سے پہلے پوری ہوں گی، اعمال کی کتاب بھی قیامت سے پہلے ہی شاید سب کو دیکھنی پڑے‘‘۔ انہوں نے فرمایا۔
اسفر نے اپنے کالر کھڑے کیے اور مسکرا کر کہنے لگا ’’ پھر تو بھائی! آپ کا اور میرا ڈیٹا دیکھ کر حکومت کو پتا چل جائے گا کہ ہمارے گھر میں کوئی عورت نہ ہونے کی وجہ سے ہماری شادی نہیں ہورہی۔ کون رشتہ لے کر جائے گا! وہ ہمارے جوڑ کی لڑکی دیکھ کر ہماری شادی بھی کرا دیں گے‘‘۔ اس نے شرما کر کہا۔
’’بالکل کرا دیں گے‘‘۔ ابا نے قہقہہ لگایا۔ ’’اللہ کا نائب ہماری ہر ضرورت پوری کرنے کا ذمے دار ہے، یہی ہے فلاحی مملکت اور میرے رب کی خلافت۔ مگر ہمیں بھی اللہ اور اللہ کے خلیفہ کی تابع داری کرنی ہوگی، جب ہی ہم اس خلافت کے مزے اٹھا سکیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’لیکن معاشی ابتری اور بیرونی سازشوں کا کیا انتظام کیا جائے گا، یہ خطرات ہیں‘‘۔ احمد صاحب نے پوچھا۔
’’بیٹا! صرف پاکستان کا ہی نہیں، پوری دنیا کا معاشی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یونان، انڈونیشیا اور افریقہ کے کئی ممالک مالی بحران کا شکار ہیں، امریکا کے کئی بینک دیوالیہ ہوگئے تھے،حکومتی امداد سے ان کو دوبارہ پائوں پر کھڑا کیا گیا۔ یہ کیپٹل ازم ایک ناکام نظام ہے، میرا خیال ہے کہ خلیفہ کو تمام کاروبار، خدمات اور سرکاری اقدامات کا مالک ہونا چاہیے، وہی سب کو ان کے ڈیٹا کے مطابق گھر بیٹھے نوکریاں فراہم کرے‘‘۔ ابا نے فرمایا۔
احمد صاحب نے انکار میں سر ہلایا ’’یہ تو دوبارہ کنزیومرازم ہوجائے گا، میرے نبیؐ نے جب ذاتی کاروبار سے منع نہیں کیا، نہ ذاتی جائداد سے منع کیا ہے تو مہدیؑ یہ قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں! یہ قبول نہیں ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’درست، لیکن آج ایسے امیر لوگ بھی موجود ہیں کہ کسی پورے ملک کے GDP سے زیادہ اُن کے کاروبار کا حجم ہے، اور جب زیادہ سے زیادہ اثاثے جمع کرنے کی کوئی حد نہیں تو لوگ ہر جائز ناجائز طریقہ استعمال کرکے اپنے اثاثوں میں لامحدود اضافہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا کی 90 فیصد دولت صرف 10 فیصد انسانوں کے ہاتھ میں قید ہوگئی ہے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ جیسے چاہے پیسہ کمائے، حکومت کی کوئی مدد نہیں۔ اب جب خود ہی کچھ کرنا ہے تو لوگ جعلی لیبارٹری کھولنے سے لے کر کتے کا گوشت بریانی میں استعمال کرنے تک ہر کاروبار کررہے ہیں۔ اگر حکومت کا ہی ہر کاروبار ہوگا تو کوئی غلط کام نہیں ہوگا، حکومت معاش کی ذمے دار ہوگی‘‘۔ ابا نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
’’دیکھو بیٹا! پیارے نبیؐ نے پہلے لوگوں کو قومِ شعیب وغیرہ کے واقعات سنا کر کاروبار میں ایمانداری اختیار کرنا سکھایا، پھر رفتہ رفتہ انفاق الی اللہ کی تربیت دی، پھر زکوٰۃ فرض کردی، اس کے آگے حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ کے باب میں جہاد کیا۔ یہ تمام اقدامات ایک کے بعد ایک منصفانہ معاشی نظام کے لیے تھے تاکہ دولت چند ہاتھوں میں جمع نہ ہوجائے اور کوئی انسان بھوکا نہ رہے۔ پھر ظالمانہ نظام میں انتہائی نامناسب ٹیکس لگا کر غریبوں کا خون چوسا گیا۔ جب کوئی کیوں نہ بولا کہ یہ محمدؐ کے نظام سے تجاوز ہے؟ اگر خلیفہ ذاتی محنت سے تمام دنیا میں علاقے کی صلاحیت کے مطابق کاروبار چلائے، نوکریاں دے، منصب کی مناسبت سے رہائش دے تو یہ تو سہولت ہے۔ کاروبار کا فائدہ نقصان خلیفہ کے ذمے، عوام کو اپنی تنخواہ ضرور ملے، پھر سونے چاندی کی کرنسی رائج ہو‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’اب یہ تو مہدیؑ پر ہے کہ وہ کس طرح آج کے معاشی نظام کو دنیا اور انسانوں کے لیے فلاحی بناتے ہیں، کس طرح آج کے فسادات کے مقابلے میں قوانین اور ادارے لاتے ہیں، ہم تو صرف اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں‘‘۔ احمد صاحب نے بات ختم کی۔
’’بالکل، رب کے کھیل رب ہی جانے، اللہ ہمیں حزب اللہ میں رکھے، حزب الشیطان میں نہیں، آمین‘‘۔ ابا نے دعا کی۔