قاضی مظہرالدین طارق
حضرتِ انسان اللہ کی اس زمین پر ایک نادر منفرد اور عجیب وغریب مخلوق ہے،اس کے حرکات و سکنات ساری مخلوقات جمادات،نباتات اور حیوانات سب سے مختلف ہیں۔
مگر آج کا پڑھا لکھا ’جاہل‘عجب انسان خود اپنے آپ کو جانوروں میں شامل رکھنا پسند کرتا ہے،بلکہ خود کوجانوروں کے ایک کلاس(خاندان)ممالیہ کا حصّہ بناکر مسرور و مطمئن ہے۔
ہے نہ عجب انسان ! یہ اپنے آپ کو آسمان سے زمین گرا کر اپنی ذلّت محسوس تک نہیں کرتا ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا!
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کیا یہ حیرت انگیز عجوبہ نہیں تو کیا ہے؟
بَھلاجنّت میں پیدا ہونے والے اور زمین پرپیدا ہونے والے برابر ہوسکتے ہیں؟
اللہ ربُّ الحکیم نے سب کو حکم دیا کہ انسان کو سجدہ کروکہا کہ’’ میں اس کو اپنانائب بنا کر زمین پر بھیج رہا ہوں!‘‘ مگر یہ نرا نائب نہیںتھا،مقصدصرف سجدہ کر وانا ،یااشرف قرار دینا نہیں، بلکہ اِس نے عملاً انسان کو اس کائنات میں جو چاہے کرنے کا اختیاردے دیا ہے ، اس حکم میں انسان کے سوا سب کو پابند کیا ہے کہ اِنسان کا ہر حکم مانے ۔
کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ ’’ہم کو کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر کیا کیا!‘‘
حالانکہ’ظَلُوماً جَہُولَا‘ کے سوا سب دیکھ سکتے ہیں کہ اس کائنات میں انسان کے کسی کام میںکوئی مزاحمت نہیں کرتا۔
انسان کواللہ نے کُل علم سکھاکر زمین پربھیجا تھا ، پھر جب زمین پر اس کو مزید ایسے علم کی ضرورت پڑی جو وہ خوددنیا کے کسی ذریعہ سے کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا، اللہ نے ہی اس کی یہ کمی کوانبیاؑ پر وحی کے ذریعہ انسانیّت کو پوری کی۔
البتہ دنیا میں زندہ رہنے کے لوازمات زمین کے انسان کے ساتھ ساتھ ہر جانداد کو بِن مانگے اپنے رب العٰلمین ہونے کے ناطے، اپنے رحم و کرم کی بنا پر خود ہی عطا کر دیا ہے،انسان کو اُس نے ہی ایسی صلاحیّتیں بھی عطا کی ہیں کہ وہ ہر وقت آگے بڑھنے کوشش کی کرتا رہے، دنیا میں ترقی کرتا رہے، اور وہ ترقی حاصل کرتا ہی جا رہا ہے۔
اللہ ربّ العٰلمین نے صرف انسان کو بو لنا سکھایاقرآن کے ذریعہ آگاہ کیا ’عَلّمَہُ الْبَیَانَ‘(رحمٰن نے اِس کو بولنے کا علم دیا)،پھر رحمٰن نے بتدریج اس کو لکھنا سکھایا ۔
مگر جب اس نے لکھنا شروع کیا تو زمین پرایک اور انسان کے لئے مخسوس نئے کام کا آغاز ہو گیا، اپنے اہم واقعات کو اگلی نسل تک پہنچانے کے لئے غاروں کی دیواروں پر اس کی واضح منظر کشی کی، یہ کام اس زمین پر انسان کے سوا کوئی نہ کر سکا، نہ کر سکتا تھا،کہ کسی نے اپنی بات، مشاہدات اور تجربات کو لکھ کراپنی اگلی نسل کو منتقل کیا ہو۔
اس مُنتَقِلی کے نتیجے میں انسان ،اپنے تجرباتی اور علمی ورثہ میں اضافہ کرتا گیا،علم اور تجربے میں ترقی کرتا گیا، یہاں تک ترققی کرگیا کہ اس پر کائنات بہت سے راز آشکار ہوگئے،یقینا! سب نہیں، بلکہ بہت سے سوالوں کے جوابات، اب بھی سائنس اور سائنسدانوں پراُدھار ہیں۔
اس نے تیرا اَرب ستّرکروڑ برس کا حساب تو کر لیا مگر یہ نہ بتا سکاکہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا جواِ س کا باعث اور محرّک بنا،کیا محرّک کے بغیر کوئی کام ہوسکتا ہے ؟حال ہی میں آنجہانی ہونے والے ’اِسٹیفن ہاکینگ ‘نے ایک جگہ لکھا:
’’ہم یہ تو بتا سکتے ہیں کی اِس کائنات نے بگ بینگ کے بعد کیسے اِرتقاء پائی، مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ اِس کی ابتداء کیسے ہوئی؟‘‘
انسان یہ بھی نہیں بتا سکا کہ زندگی کی ابتداء کب ،کیسے اور کہاںہوئی اور یہ کہ کس چیزسے ہوئی،ڈی این اے،آر این اے، آمائینو اوریا نیوکلیو ٹائیدزسے،انسان کبھی اپنی اپنی ناکامیوں سے مایوس نہیں ہوتا۔
اس کی کامیابیاں ناکامیوں سے بہت کم ہیں مگر ’اہم‘ ہیں،اس کی بہت سی ناکامیاں خود اپنی جہالت سے اپنی ہی مُسلّت کردہ ہیں،یہی تو انسان کا عجوبا پن اور جہا لت ہے۔
انسان تحقیق،تگ ودَو اور آگے بڑھنے کی اللہ کی ودیعت کی ہوئی اَندرونی خواہش سے مغلوب ہوکر زیادہ سے زیادہ شفَّاف بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکے ،مگریہ مگر بہت بڑا ہے۔
انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ کسی بھی درست صحیح نتیجہ حاصل کرنے کے لئے انسان کو مکمل غیرجانبداری سے تحقیق و تجربہ کرنا چاہیئے،لیکن یہ اپنے پرانے جاہلانہ نظریات و مفروضات میں دھنسا ہوا پھنسا ہوا ہے،اسی کو درست سائنسی رویّہ گردانتا ہے،اس نے رنگدار شیشوں کی عینک پہن رکھی ہے تو اسے سفید کیسے نظر آئے گا، حاصل ؛پھر وہ کیسے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔
اس رویّے کی سینکڑوں مثالیں ہیں لیکن ہم ایک بنیادی مثال پر اِکتفا کرتے ہیں۔
انسان کے عجائبات کی سب سے اَہم مثال یہ ہے کہ اِس نے یقین کر رکھا ہے ،طے کر رکھا ہے کہ ’’اِس عظیم کائنات کا کوئی خالق ،مالک اور چلانے والا نہیں ، یہ خود آپ ہی آپ بن گئی ہے ، خود ہی چل رہی ہے۔‘‘
اِسی عجوبے کے اَندر اس سے بڑا عجوبہ چِھپا ہوا ہے، انسان نے اپنے علم سے جو خود حساب کتاب کر کے خود دنیا کو بتایا کہ اِس کائنات کے بننے، چلانے اور اختتام تک پہنچانے کے لئے ’بہت باریک بین حساب کے ساتھ مخصوص قیمتیں‘(فکسڈ ویلیوز اور لاکھوں کَونسٹِنٹِنس) مقررہیں،جن کو تبدیل کر دیا جائے تو کائنات کی کوئی شئے نہ بن سکتی تھی نہ چل سکتی تھی جامد قوانین کے ایسے مستصنیات(ایکسیپشنز) ہیں،جو نہ ہوتے تو جہاں میں زندگی نہ ہوتی۔
ایک افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اس حساب کو خود کر کے دریافت کرنے والوں نے ان قیمتوں(وَلیوز)کی حد(لیمیٹس) مقرر کرنے والے (خالق)کو ہی نہیں پہنچانا،جبکہ ان کے اپنے آئینے میں وہ صاف نظر آرہا ہے۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جو خدا کو کسی صورت میںمانتے بھی ہیں: جیسے یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ خالق ہے اور ساتھ اُ ن اصولوں اور قوانین وہ و ضوابط کا بھی خالق ہے اور سوگیا ہے، اب کائنات خود اپنے آپ چل رہا ہے۔
وہ کہتے کہ خدا پاس اورکوئی چوائیس نہیں تھی،اس نے جو کر دیا سو کر دیا اور بس۔حالانکہ ہر طرف کائنات میں جمادات ،نباتات اور حیوانات بہتات کے علاوہ ان کی ایک نسل میں کتناتنوع(ورائیٹیز) ہیں۔
اللہ اکبر!