مریم صدیقی
جہاد کی ایک قسم جہاد بالقلم بھی ہے کہ جب انسان میدان کارزار میں ہتھیاروں سے لیس دشمن کے مد مقابل حق کے لیے نہ لڑ سکے تو اپنے قلم سے حق کا پرچار کرکے اپنے قلم کا اور قلم کا ر ہونے کا حق ادا کرے۔ ’’قلم کا قرض‘‘ بھی ایسے ہی چند قلم کاروں کی کتاب ہے جنہوں نے اپنی جانب سے قلم کا قرض ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ کتاب کے عنوان کی بات کی جائے تو تین الفاظ پر مشتمل یہ عنوان ’’ قلم کا قرض‘‘ چند الفاظ نہیں بلکہ ایک سوچ اور مقصد کو واضح کر رہا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کو کسی صلاحیت سے نوازتا ہے تو اس کا مثبت استعمال اس انسان پر لازم ہوجاتا ہے۔ آج کے اس دور میں جہاں جھوٹ کی فراوانی ہے، جہاں سچ کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں، جہاں مظلوم کو کوئی انصاف دلانے والا نہیں ایسے وقت میں اپنے قلم کا مثبت استعمال یعنی سچ اور حق بات بیان کرنا، درست معلومات فراہم کرنا اور اصلاح معاشرہ کے لیے لکھنا ہی دراصل قلم کا قرض ہے جس کا ادا کرنا ہر قلم کار پر لازم ہے۔یہ کتاب ایک ادبی پلیٹ فارم رائٹرز کلب پاکستان کے اراکین کی اخبارات میں شائع شدہ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ جسے بطور سالنامہ 2018 رائٹرز کلب پاکستان کی انتظامیہ نے حال ہی میں کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
یہ کتاب دیگر کتب سے کئی لحاظ سے منفرد ہے، اس کتاب کو گلستان ادب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کسی گلستان میں کھلے خوش رنگ اور خوش نما پھولوں کی مانند اس کتاب میں بھی نو آموز اور کہنہ مشق لکھاریوں کی تحریریں خوشبوئیں بکھیرتی دکھائی دیں گی۔ کہیں مسکراتے شگوفے بکھیرتی تحریریں پڑھ کر لب مسکرا اٹھیں گے تو کہیں درد و الم سے مزین داستانیں آنکھیں نم کردیں گی۔ کہیں بچوں کی کہانیاں پڑھ کر محظوظ ہونے کا موقع ملے گا تو کہیں سیاسی و مذہبی کالم پڑھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہے گا۔ اس کتاب میں کم و بیش 60 لکھاریوں کی نہ صرف تحاریر موجود ہیں بلکہ ان کا مختصر تعارف بھی شامل ہے۔ کتاب کے شروع میں پیش لفظ میں محترم عارف رمضان جتوئی صاحب نے رائٹرز کلب کے آغاز سے لے کر اس کتاب کی اشاعت تک کے مراحل کا مختصر الفاظ میں کا ذکر کیا۔
اس کے بعدکتاب میں رائٹرز کلب کا مفصل اور جامع تعارف موجود ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر محترم اطہر ہاشمی (چیف ایڈیٹر، روزنامہ جسارت)، محترم علیم احمد (مدیر اعلی، ماہنامہ گلوبل سائنس)، محترمہ سلمیٰ اسد (میگزین انچارج، روزنامہ اوصاف)، محترمہ طیبہ بخاری (میگزین انچارج، روزنامہ دنیا نیوز)، محترمہ حمیرا اطہر صاحبہ کے تاثرات رقم ہیں جو کتاب کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث ہیں۔ علیم احمد صاحب کی تجاویز، طیبہ بخاری و سلمیٰ اسد صاحبہ کا قلم کے مجاہدوں کو خراج تحسین اور حمیرا اطہر صاحبہ کی ادارت اس کتاب اور اس کتاب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کا سبب ہیں۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے لکھاریوںکی تحاریر مع مختصر تعارف شامل ہیں۔
عارف رمضان جتوئی کی ہر تحریر ان کے وسعت خیالی اور ان کی حساس طبیعت کی عکاس ہے۔ معاشرے میں پھیلتی بے حیائی، اولاد کی نافرمانی، تربیت کے فقدان کو ان کے قلم نے جس انداز سے الفاظ کے پیرائے میں پیش کیا ہے، قاری کو جھنجھوڑ کر رکھنے کے لیے کافی ہے۔
رقیہ فاروقی کی تحاریر پڑھ کر ایک منجھے ہوئے لکھاری کا گمان ہوتا ہے۔ ان کے قلم میں روانی، پختگی اور شائستگی پائی جاتی ہے۔ تحریر ہم پریشان کیوں؟ صفحہ 87 پر لکھتی ہیں، ’’انسان بھی عجب حیوان ہے کمی کی لکیر کو پیٹتے ہوئے نعمتوں کے انبار کو بھول جاتا ہے‘‘۔ عاصمہ عزیز نے زعم زدہ نفس میں ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی جو اولاد نرینہ کے زعم میں آکر اپنی بیٹی کو گھر سے نکال دیتا ہے اور جب وہی اولاد نرینہ اس بوڑھے باپ کو اولڈ ہوم میں چھوڑ دیتی ہے تو اسے حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ اس نے ہیر ے کے عوض اپنے دامن میں سنگریزے سمیٹ کر کس قدر خسارے کا سودا کیا ہے۔
دیا خان نے اپنی تحریر ماڈل یا رول ماڈل میں دور حاضر کے اساتذہ کے رویے، نسل نو کے بگاڑ کی وجوہات اور سد باب کی طرف توجہ دلائی ہے۔ عظمی ظفر نے جہاد بالقلم میں ایک حساس موضوع کو قلم بند کیا ہے کہ ایک قلم کار جب ہمت ہار جاتا ہے، اپنے قلم کے سفر کو خیر آباد کہہ دیتا ہے تو اس کا قلم اسے جھنجھوڑتا ہے اور اسے لکھنے پر اکسا تا ہے۔ ہر لکھاری کی تحریر اپنی جگہ عمدہ شاہکارہے۔ چاہے وہ ام عبد اللہ کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں ہوں یا شافعہ افضل، ساحر مرزا اور آمنہ وزیر کے افسانے۔ آسیہ عبد الحمید کی شاعری ہو یا مفتی عثمان الدین کے قلم سے لکھے گئے اسلامی مضامین۔ غرض اپنی جانب سے ہر ایک نے قلم کا قرض ادا کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ کتاب کے آخری صفحات پر رائٹرز کلب کے دیگر اراکین کی ایک ایک تحریر شائع کی گئی ہے۔
دیدہ زیب، خوش رنگ سرورق پہلی نظر میں توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس دور میں جب کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لکھاری اور پبلشر دونوں پریشان نظر آرہے ہیں ڈبل کور اور اعلیٰ معیار کی کتاب کی اشاعت یقیناً قابل تعریف ہے۔ہر کتاب میں یقیناً بے شمار خوبیوں کے ساتھ چند خامیاں بھی ہوتی ہیں، اس کتاب میں بھی چند ایک خامیاں موجود ہیں جنہیں نظر ثانی کے بعد آئندہ ایڈیشن میں دور کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی تحریر میں املاء و رموزاوقاف کی غلطیوں سے تحریر کا حسن ماند پڑجاتا ہے۔ اس کتاب میں بھی چند ایسی ہی غلطیاں موجود ہیں۔ اسی طرح فہرست میں اعداد و شمار پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے صفحہ اول پر کتاب و ناشر کا نام لکھا ہونا چاہیے۔
کتاب کی کوالٹی کے حساب سے اس کی قیمت نہایت مناسب ہے۔500 صفحات کی کتاب قلم کا قرض 700 روپے میں دستیاب ہے جب کہ اس کی رعایتی قیمت 500 روپے ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’جمعیت الفلاح اکبر روڈ ریگل چوک صدر کراچی‘‘۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں: 03017886719
اختتام پر یہ کہنا چاہوں گی کہ اس کتاب میں اکثریت چونکہ نئے لکھنے والوں کی ہے تو غلطیوں کی گنجائش رہتی ہے لیکن یہ کتاب ان تمام نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی اور مستقبل میں انہیں یہ سفر جاری رکھنے پر آمادہ کرے گی۔ اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر ان میں ہر بار ایک نیا جذبہ، نئی امید اور حوصلہ جنم لے گا جو انہیں لکھتے رہنے اور دیے سے دیا جلائے رکھنے کی ہمت دے گا۔