ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی
سورۃ الاعراف آیت 158 میں ارشاد ہوا:۔ اے محمدؐ، کہو کہ ’’اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سِوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہِ راست پالو گے۔‘‘
یہ حضورؐ کا شرف و عظمت ہے کہ آپؐ خاتم الانبیا ہیں اور آپؐ کی رسالت تما م دنیا کے لیے ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو حکم دیا ہے کہ تمام عرب و عجم۔۔۔ سر خ و سفید۔۔۔ گوروں اور کالوں سے کہہ دیں کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں (یہی حکم آپؐ کے بعد امت مسلمہ کو ہے کہ وہ تمام دنیا کے انسانوں کو یہ بات بتا دیں کہ دنیا میں ان کی فلاح اور آخرت میں اللہ کے حضور کامیابی حضرت محمدؐ پر ایمان اور ان کی اطاعت پر منحصر ہے)۔ سورالانعام آیت 19 میں ارشاد ہوا:۔ کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بہ ذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبّہ کردوں۔ یعنی یہ اعلان کر دوں کہ مجھ میں تم میں اللہ گواہ ہے۔ میری جانب قران اس لیے وحی کیا جاتا ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے ہوشیار کر دوں اور سورۃ ہود آیت 17 میں ارشاد ہوا:۔ پھر بھلا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اِس شہادت کی تائید میں) آگیا، اور پہلے موسیٰ (کی کتا ب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی) کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے؟ ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی (آپؐ کی دعوت خیر و فلاح) اِس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبرؐ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ قرآن مجید میں اس مضمون کی آیات کثرت سے ہیں، آپؐ نے اس بات کو کثرت سے اپنے خطبات میں دہرایا ہے، جو احادیث کی مستند کتابوں میں موجود ہیں اور اسلام کی ابتدائی تعلیم کا حصہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جودینِ اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ اور علم رکھتا ہے اس کا پختہ ایمان ہے کہ آپؐ تمام جہان کے لوگوں کی طرف اللہ کے رسول ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ناراض کردیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ آپ مجھے معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لیے بخشش چاہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ راضی نہ ہوئے بلکہ دروازہ بند کر لیا، جب حضورؐ کو معلوم ہوا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئے۔ اِرشاد فرمایا کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے نہیں چھوڑتے؟ سنو! جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لو گوں میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کے بھیجا گیا ہوں تو تم نے تو کہا جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپؐ سچے ہیں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، مسند امام احمد میں مستند حوالوں سے اس عنوان سے احادیث نقل ہوئی ہیں انہیں تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا گیا ہے۔ ان کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا مجھے چھ باتوں کی وجہ سے انبیا پر برتری عطا فرمائی گئی اور میں اسے فخر کے طور پر بیان نہیں کرتا (بلکہ حقیقت کا اظہار مطلوب ہے) 1۔ مجھے جامع الفاظ اد ا کیے گئے (یعنی مختصر ترین الفاظ میں کثیر معانی کو ادا کرنے والے مختصر الفاظ بولنے کا ملکہ عطاکیا گیا) 2۔ میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی (گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں۔) 3۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ (حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے) 4۔ میرے لیے تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور پاک کر دیا گیا۔ (جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آ جائے وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لیے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے) 5۔ مجھے سب مخلوق کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا۔ (مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے) 6۔ مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔ اور آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ میری اس امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔
نویدِ مسیحا:۔
سورۃ الصف آیت 6۔ میں اِرشاد ہوا:۔ اور یاد کرو عیسی ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ “اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تصدیق کر نے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمدؐ ہو گا۔ حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اِس قول کا اِشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسولؐ اللہ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ یہ توراۃ کی واضح پیشن گوئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے لیے ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں: “خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ میں۔۔۔ ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے… تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ (استثناء، باب18۔ آیات 15۔19)
(اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا) اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے۔ احمد کے دو معنی ہیں۔ ایک، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ دوسرے، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضورؐ کا ایک نام ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:۔ ’’میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں۔ انجیل میں حضرت عیسیٰؑ کی یہ خوش خبری موجود تھی اور اس بات کو اس وقت کے عیسائی جانتے تھے اس کی قدیم تر ین تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا، اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا:۔ ’’مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی‘‘ (مسند احمد)۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفرؓ اور حضرت ام سلمہؓ سے بھی منقول ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی کی پیش گوئی کر گئے ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشان دہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی وہ نبی ہیں۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰؑ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا۔ سوال یہ ہے کہ حضورؐ سے متعلق حضرت عیسیٰؑ کی خوش خبری کو ہم کہاں تلاش کریں؟
اللہ سبٰحانہٗ و تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔