مریم صدیقی
اگرقدرت نے آپ کو لاکھوں لوگوں میں سے منتخب کرکے لکھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے، اگر آپ کو یہ ہنر عطا کیا گیا ہے کہ آپ اپنے قلم کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانے میں معاون کردار ادا کرسکتے ہیں تو اپنے قلم کو معاشرے کی ا صلاح، لوگوں کے مسائل لکھنے اور ان کے حل کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے استعمال کیجیے۔ کوئی بھی تحریر لکھنے سے قبل اس کے مقصد کا تعین کیجیے۔ بنا مقصد کے کچھ بھی لکھنا کاغذ پر چند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنا جیسا ہے۔ بامقصد تحریر قارئین کو نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ پڑھنے والوں کے ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ تحریر لکھنے سے قبل خود سے چند سوالات ضررو کریں۔
1۔ آپ کے لکھنے کا کیا مقصدہے؟ کیوں لکھنا چاہتے ہیں؟
2۔ آپ جس مقصد کے لیے لکھنا چاہتے ہیں وہ زندگی کے کس شعبے سے تعلق رکھتا ہے؟
3۔ جن افراد یا معاشرے کے لیے آپ لکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کس حد تک مفید ہے؟
4۔ آپ جس مقصد کے لیے لکھ رہے ہیں کیا وہ قابل عمل ہے؟
5۔ کیا آپ کی تحریر قاری باآسانی سمجھ سکتے ہیں؟
عموما لکھنے کے درج ذیل مقاصد ہوسکتے ہیں: معاشرے کی اصلاح، معلومات کی فراہمی، د وسروں کی مدد، ان کے مسائل کو اجاگر کرنا، تفریح مہیا کرنا وغیرہ۔ تحریر کے مقصد کا تعین کرنے کے بعد اس کی صنف کا تعیین کیا جانا بھی نہایت ضروری ہے کہ آپ مضمون لکھ رہے ہیں یا فیچر، کالم لکھ رہے ہیں یا افسانہ۔ صنف کا تعین کرنے کے لیے تمام اصناف کے بارے میں بنیادی معلومات کا ہونا لازمی ہے۔ ہم تحریر کی جس صنف کے بارے میں آج بات کریں گے وہ ہے کالم۔
کالم:
کالم ایسی تحریر ہے جس میں حالات حاضرہ پر اظہار خیال کیا جائے۔ کالم مزاحیہ بھی ہوسکتا ہے اور سنجیدہ بھی۔ صحافتی اصطلاح میں کالم ایسی تحریر ہے جس میں موجودہ حالات و واقعات (کرنٹ ایشوز) پر دلائل سے اظہار خیال کیا جائے۔
کالم اور مضمون میں فرق:
مضمون سدا بہار قسم کی تحریر ہوتی ہے، جس پر جب چاہا لکھ لیا جائے اس کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ جیسے تعلیم وتربیت، والدین کا احترام، سوشل میڈیا کے فوائد یا صحت کے حوالے سے چند اہم باتیں۔ یہ موضوع ہمیشہ سے اہم ہیںان پر لکھا جاتا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا اور جب جب لکھا جائے گا وہ لکھا ہوا مضمون کہلائے گا۔ جب کہ کالم ایسی تحریر ہے جو صرف تازہ حالات کو سامنے رکھ کر لکھی جائے۔ جیسے اگر مسئلہ کشمیر پر لکھا جائے گا تو وہ مضمون کہلائے گا لیکن اگر کسی کی شہادت یا حالیہ دہشت گردی پر لکھا جائے گا تو کالم کہلائے گا۔
کالم لکھنے کے لیے وسیع مطالعہ، مشاہدہ، مصدقہ اور تازہ ترین معلومات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں۔
مطالعہ: لکھنے کے لیے مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ ایک بہترین لکھاری مطالعے سے کبھی غافل نہیںہوتا، وہ مطالعے کی عادت کوکبھی ترک نہیں کرتا۔ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لیے اچھا ادب پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ کالم نویس کا وسیع المطالعہ ہونا بے حد اہم ہے۔ اسے ادب، سائنس، نفسیات، فلسفہ، سیاسیات، اقتصادیات غرض یہ کہ ہر شعبے کے متعلق ضروری معلومات ہونی چاہیے۔ مطالعہ کرتے ہوئے طرز تحریرکو بغور دیکھیے، زبان و اسلوب کیسا ہے؟ الفاظ وتراکیب کا استعمال کیسا ہے؟ جملوں کی ساخت کیسی ہے؟ کسی کا طرز تحریر پسند آئے تواس سے متاثر ہوکر اس کی تحاریر کی من و عن نقل نہ کیجیے بلکہ اسے بار بار پڑھ کر اس جیسا اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کریں۔ کثرت مطالعہ اورلکھنے کی مشق کرتے رہنے سے آپ کی تحریرکے معیار میں بہتری آئے گی۔
تحقیق: جب آپ لکھنے کے لیے موضوع کا انتخاب کرلیں تو اب اگلا مرحلہ اس موضوع سے متعلق مواد اور معلومات کے حصول کا آتا ہے۔ کتب، جرائد سے، رسالوں سے اور انسائیکلو پیڈیا سے معلومات کا وسیع ذخیرہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جس قدر مفصل معلومات فراہم ہوں گی، تحریر اس قدر جامع اور مکمل ہو گی۔ ناکافی یا غلط معلومات کی بنیاد پر لکھی جانے والی تحریر ناقص ہوگی۔ اکثر و بیشتر کالم نویس ایک کالم لکھنے کے لیے کئی کئی ہفتے تحقیق اور مصدقہ معلومات کے حصول میں گزار دیتے ہیں۔
مشاہدہ: لکھنے کے لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدے کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ ایک لکھاری حساس دل کا مالک ہوتا ہے جو اپنے ارد گرگرد کے لوگوں کے مسائل اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرتا ہے اور انہیں محسوس کرکے لکھتا ہے۔ مشاہدہ اور تجزیہ اکثر اوقات ان بند گرہوں کو کھولنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے جو سامنے ہونے کے باوجود ان پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
زبان و بیان: لکھتے وقت اس بات کاخصوصی خیال رکھیں کہ اخبار پڑھنے والے عام اور سادہ لوگ ہوتے ہیں، تحریر کا اسلوب نہایت سادہ، آسان اور واضح ہونا چاہیے۔ تحریر کی پیچیدگی قاری کی دلچسپی ختم کر دے گی اور جو پیغام قاری تک پہنچانا مقصود تھا وہ نہیں پہنچ پائے گا۔ کوشش کریں کہ جملے مختصر اور سادہ ہوں، انگریزی زبان کے استعمال سے حتی الامکان گریز کریں۔ جہاں تک ممکن ہو تحریر کو مختصر رکھیں۔
تحریر لکھنے کے بعد نظر ثانی ضرور کریں۔ اپنی تحریر کو قاری اور ناقد کی نظر سے پڑھیں، غلطیاں درست کریں۔ دوبارہ سہہ بارہ پڑھ کر ضروری ترامیم کرکے اسے اشاعت کے لیے بھیج دیں۔