بارش زندگی ہے

1000

فاطمہ خان
مولوی صاحب کی اذان کے ساتھ جب صبح کا آغاز ہوا تو آج کے دن کی شروعات معمول سے ذرا ہٹ کر تھی کیوں کے آج بادلوں نے آسمان کو اپنی سیاہ پوشاک عطا کی تھی۔ بادل کی سیاہ و سفید ٹکڑیاں آسمان پر محوِ رقص تھیں۔ مرغانِ سحر اپنی سریلی اور مدھر آواز میں سبحان اللہ کی تسبیح کر رہے تھے۔ بادل مسلسل آسمان پر اٹھکلیاں کر رہے تھے، جیسے سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہو۔ سورج بادلوں کو چیرتا ہوا باہر نکلنے کی حسرت میں تڑپ رہا تھا لیکن آج بادلوں نے بھی ٹھان رکھی تھی کے آج وہ برسیں گے۔ سورج سے جیسے کہہ رہے ہوں کے آج تم خوابِ خرگوش کے مزے لینا۔ قراقرم کی برف پوش چٹانوں سے چلتی ہوئی یخ بستہ ہوائیں آج ہم گرمی کے ماروں کے جگر کو راحت بخشنے کے لیے تیار تھیں۔ موسم ہر لمحہ حسین سے حسین تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ہوا میں خنکی بھی بڑھ رہی تھی۔ ہر دل منتظر تھا کہ کب مینہ برسے اور امیدیں بر آئیں۔
شہروں میں مینہ کی ضرورت اور خوشی موسم میں بدلاؤ کے لیے ہوتی ہے۔ یا پھر کسی شاعر نے اپنی ادھوری غزل کو فرحت بخشنے کے لیے مینہ برسنے کی دعا ایسے دلخراش انداز میں مانگی ہوتی ہے کہ ابر بِن برسے جا ہی نہیں سکتا، یا کسی ننھے نے اپنی ناؤ بارش کے پانی میں چلانی ہوتی ہے۔ جب کہ دیہات میں مینہ کی ضرورت کسانوں کی پل پل بندھتی امید کو ہوتی ہے۔ ان جنگلی حیات کو ہوتی ہے، جو گرمی سے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ ان بارانی فصلوں کو ہوتی ہے، جو پل پل ایک ایک بوند گِرنے کی منتظر رہتی ہیں۔ پرندے پیاس کی شدت سے پانی کی اِک اِک بوند کو ترس رہے ہیں۔ ننھے منے بچے گھونسلوں میں ماؤں کے منتظر ہیں کہ کب ایک قطرہ ان کے جگر کو ٹھنڈک بخشے گا۔
لیکن یہ کیا؟ بادل چھٹنے لگے اور سورج کو راہ دے دی گئی۔ سب کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ سب کے ہونٹ پیاس کی شدت بتانے سے قاصر تھے مگر وہ خشک، تڑپتیں دم توڑتی ہوئیں چڑیاں۔ ہائے مظلوم ہوں جیسے۔ یا ربِ کریم ان کے درد کا مداوی کر دے۔ کپکپاتے ہونٹوں سے بوڑھے رحمتِ الہی کے طلبگار تھے۔ جیسے کہہ رہے ہوں۔ الہی رحم۔ یا اللہ کرم کر دے، مولا تو مشکل کشا ہے، تو مالکِ کل جہاں ہے۔ ہم پر سے اس گرمی کی شدت کو ختم کر دے، تیری رحمت کے طلبگار ہیں اللہ، تو خطائیں معاف کردے۔ مالکِ دوجہاں پچھلے تین ماہ سے تیری رحمت کے منتظر ہیں۔ کرم کر الہی۔ ہمارے گناہ معاف فرمادے۔
دیکھتے ہی دیکھتے سورج سر پہ آ گیا۔ ہر طرف جیسے آگ لگ گئی۔ درخت تپش سے جھلس گئے۔ ننھی کونپلیں مرجھا کے قافلوں کی صورت موت کی وادی کی جانب روانہ ہوئیں۔ کسان پل پل انتظار میں رہتے رہتے ناامید ہو گئے۔ سب ختم ہو گیا۔ میں، میرے سال کی محنت کا پھل نہ پا سکوں گا، میرے بچے اسکول جانے سے ڈریں گے کے ان کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہ ہوں گے۔ ان کے قلم، کتاب اور بستے کو میں کہاں سے لاؤں گا۔ یا الہی رحم۔ یا الہی رحم۔ میری بیٹی چوکھٹ پہ کسی شہزادے کی آمد کے خواب بنتی ہے۔ وہ خواب کہیں اس کے بالوں میں چاندی بن کہ نہ رہ جائیں۔ یا الہی کرم۔ اک نظرِ کرم۔ یا الہی کرم۔
اچانک کہیں سے بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور سورج کو اپنے دامن لے لیا۔ ہاں سورج کو چھپا لیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان بادلوں سے ڈھک دیا گیا۔ وہ ربِ کریم کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے مانگ کیا مانگنا چاہتا ہے۔ میں نے تیرے لیے کائنات کو طرح طرح کی نعمتوں سے سجایا ہے۔ تو اِس میں اللہ کا فضل تلاش کر۔ تو مانگ کہ مانگنے کے طریقے سے۔ اللہ اپنے بندے کی عاجزی و انکساری سے مانگی دعا کبھی رد نہیں کرتا۔ یہی عقیدہ ہے مردِ مومن کا۔ کبھی مایوس نہ ہونا کیونکہ تمہارا رب بڑا مہربان ہے۔
بادلوں کے آنے سے سب خوش تھے کہ مینہ برسے گا۔ اب کی بار پہلے سے زیادہ خوشی چہروں سے ٹپکنے لگی۔ ہوائیں سائیں سائیں چلنے لگیں۔ درخت خوشی میں ربِ ذوالجلال کے سامنے سجدہ ریز ہونے لگے کہ اچانک مینہ چھم چھم برسنے لگا۔ پرندے چہچہانے لگے۔ جیسے اک نئی زندگی مل گئی۔ اک نئی روح پھونک دی گئی ہو۔ درخت اک نئے خوبصورت پیرہن میں حسن کا شاہکار معلوم ہو رہے تھے۔ کونپلیں معصومیت سے پودے کی ہری ہری گود میں مچلنے لگیں۔

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کہ صاحب پرے پرے

گل و لالہ مستی میں جھوم رہے تھے۔ مینہ برسنے کے بعد اب ہر جانب اک سحر انگیز خوشبو دلوں کو معطر کیے جا رہی تھی۔ اب مٹی اپنی خوشبو سے زمین کو جنت کا گوشہ بنا چکی تھی۔ پھول ٹہنیوں سے جھول رہے تھے۔ قدرت کے اس تحفے سے زمیں مسکرا رہی تھی۔
آفتاب اب پھر سے بادلوں سے نکلنے کی کوشش میں تھا اور اس بار اس کی ایک جھلک دیکھنے کو سب ہی بیتاب تھے۔ دھنک کے رنگ ان کی بے قراری کی وجہ تھی۔ سورج کی ایک جھلک سے آسمان پہ دھنک نمودار ہوئی۔ واللہ قدرت کا ایک اور حسین شاہکار سامنے تھا۔ جیسے دنیا میں ہی جنت پا لی ہو۔ خوش کن احساس اللہ کی پاکی بیان کرنے کا خوبصورت موقع تھا۔ وہ رب عظیم ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا۔ ہمیں نعمتوں سے مالا مال کیا۔ ہمیں عاجزی اور انکساری سکھا دے مولا کہ تیری بندگی میں سر ہر وقت سجدہ ریز ہو۔

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

یہی وہ لمحے ہیں اللہ پاک کہ جس میں ہم تیری بنائی رحمتوں میں ہم تیری قدرت کا عکس دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس پہ ہمیشہ قائم رکھ کہ ہم سب تری رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ ہمیں اپنی ذات کا عرفان نصیب فرما اور ہمارے اصل سے جوڑے رکھنا‘ آمین۔

حصہ