سندھ جسے دھرتی مہران بھی کہا جاتا ہے، کرپشن کا سیلاب نہیں بلکہ پورا صوبہ کرپشن کے کینسر میں مبتلا لگتا ہے۔ یہ مرض سندھ میں 2008ء میں اُس وقت تیزی سے پھیلنے لگا جب یہاں دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت مکمل طور پر آصف علی زرداری کے کنٹرول آنے کے بعد پارٹی کی حکومت تقریباً 12 سال بعد دوبارہ اقتدار میں آئی۔
2008ء سے آج تک ملک میں ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں سندھ میں گزشتہ تین ادوار سے پیپلز پارٹی ہی کی حکومت قائم ہورہی ہے، جو کہ آج بھی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ قائم ہے۔
ملک میں جمہوریت کی موجودگی میں ہونے والے نقصان کی ایک بڑی وجہ سندھ میں جاری بدعنوانی، بے قاعدگی، اختیارات کا ناجائز استعمال، اربوں روپے کے فنڈز کا غلط استعمال اور ہیر پھیر ہے۔
صوبے میں کرپشن کی صورتِ حال پر 20 جون2019ء کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ کو یہ ریمارکس دینے پڑے کہ ’’سندھ پوری طرح سے کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے اور بجٹ کا ایک پیسہ بھی صوبے میں خرچ نہیں ہوتا‘‘۔ یہ ریمارکس عدالتِ عظمیٰ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سکھر میں اراضی کیس کی سماعت کے دوران دیے تھے۔ دورانِ سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’لاڑکانہ میں ایچ آئی وی نے برا حال کردیا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، اب یہ اتنا بڑھے گا کہ پورا لاڑکانہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا شہر نہیں جہاں 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے باوجود کثیرالمنزلہ عمارتیں ہوں، لیکن سکھر جیسے گرم شہر میں کثیرالمنزلہ عمارتیں بنادی گئیں اور سہولیات نہیں، لوگوں کو پانی میسر نہیں اور رات کو بجلی کے بغیر سوتے ہیں۔ بنیادی ضروریات سے محروم لوگ تشدد پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کرائم ریٹ بڑھتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے میئر سکھر سے مکالمہ کیا کہ آپ بھی جاگ جائیں۔ جس پر میئر نے جواب دیا کہ ہم نے ماسٹر پلان مرتب کیا ہے۔ اس پر معزز جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے ماسٹر پلان کی ایسی کی تیسی، آپ سب لوگ سسٹم کا حصہ ہیں اور جانتے ہیں کہ سسٹم کیا ہے۔‘‘
ملک اور صوبے میں جاری لاقانونیت اور کرپشن پر عدلیہ ہی حتمی کارروائیاں کرسکتی ہے جو وہ کر بھی رہی ہے۔ لیکن سزا کے لیے عدالتوں کو بھی گواہ اور شواہد کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں جرائم پیشہ اور بدعنوان عناصر ایک خطرناک مافیا کی شکل میں موجود ہیں۔ سندھ دھرتی کی بدقسمتی ہے کہ اسے اس کے اپنے سندھی حکمران لوٹ رہے ہیں۔ چند روز قبل حروں کے روحانی پیشوا اورگرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے سربراہ پیرصبغت اللہ شاہ راشدی پیرپگارا نے سندھ کی تباہی کا ذمہ دار پیپلزپارٹی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب بدعنوانی کے دفاع کے لیے سندھ کارڈ نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں کرپشن اور زرعی تباہی کی ذمہ دار پیپلزپارٹی حکومت ہے۔ سندھ کے حکمرانوں اور افسروں کو کرپشن کا حساب دینا ہوگا۔ پیر پگارا نے عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ میں جرائم، ناقص حکمرانی اور کرپشن کا نوٹس لے۔ جی ڈی اے کے سیکریٹری جنرل ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ تھر اور بدین میں بچے مرتے رہے لیکن ہمارے وزراء صرف اجلاس کرتے رہے۔ کسانوں کو روٹی اور پانی نہ دینے والے جمہوریت کے چیمپئن بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ گوکہ پورا سندھ اور اس کے وہ سب رہنما جن کا پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں ہے، کرپشن کے واقعات سے پریشان ہیں۔
کرپشن کے حوالے سے آڈیٹر جنرل پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے کرپشن اور بے قاعدگیوں کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ مالی سال 2016-17ء میں 272 ارب کی کرپشن کی گئی، جو مالی سال 2017-18ء میں 292 ارب تک پہنچ گئی ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سخت احتسابی عمل اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کے باوجود بے قاعدگیوں اور فنڈز کے بے جا استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔
حال ہی میں جسارت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتِ سندھ نے اربوں روپے کے خسارے کے باوجود ختم ہونے والے مالی سال میں وزیراعلیٰ ہائوس کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ گزشتہ سال کھڑے ہیلی کاپٹر کی مرمت سمیت دیگر غیر ضروری اور غیر ترقیاتی کاموں کی مد میں مجموعی طور پر 45 کروڑ 51 لاکھ 13 ہزار 250 روپے خرچ کردیے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کے لیے مخصوص ہیلی کاپٹر کی مرمت و دیکھ بھال پر 29 کروڑ 17 لاکھ 48 ہزار 250 روپے خرچ کیے گئے۔ حیرت انگیز امر تو یہ بھی ہے کہ اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر اب بھی قابلِ مرمت ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے یارڈ میں ہی کھڑا رہتا ہے، اسے اب بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر اس ہیلی کاپٹر پر بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ ہیلی کاپٹر 2006ء میں خریدا گیا تھا۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق ہیلی کاپٹر پر یہ رقم مالی سال 2018-19ء کے بجٹ سے خرچ کی گئی تھی۔ اسی سال کی بجٹ دستاویزات میں جن دیگر غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی ہورہی ہے اُن میں سی ایم سیکریٹریٹ کے ملازمین کو ہوناریم اعزازیہ کے نام پر 7 کروڑ 16 لاکھ 86 ہزار روپے ادا کیے گئے۔ سی ایم ہائوس کے ملازمین کی مجموعی تعداد 536 ہے جن میں 131 گریڈ 17 تا 22 کے افسران ہیں۔ یہ اعزازیہ فی کس ایک لاکھ تا 5 لاکھ روپے اضافی رقم پر مشتمل تھا۔ وزیراعلیٰ ہائوس نے مختلف گاڑیوں وغیرہ کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کی مد میں 5 کروڑ 97 لاکھ 90 ہزار روپے کے اخراجات کیے۔ دستاویزات سے علم ہوا کہ کنٹریکٹ پر افسران و ملازمین کے تقرر پر پابندی کے باوجود وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھی لوگ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے کنٹریکٹ پر کسی کو بھی ملازمت دینے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے، اس کے باوجود کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افسران پر گزشتہ سال کے بجٹ سے 1 کروڑ 14 لاکھ 59 ہزار روپے، اور نان آفیسرز ملازمین پر 6 کروڑ 56 لاکھ 3 ہزار روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ کیے گئے، اور کاروں کی مرمت پر 13 کروڑ 86 لاکھ 7 ہزار روپے خرچ کردیے گئے۔ ان غیر ترقیاتی کاموں پر غیر معمولی رقوم خرچ کیے جانے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ حکومت نے اعلان کے باوجود غیرضروری و غیر ترقیاتی اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ایم ہائوس میں متعدد ایسے افسران اور دیگر لوگ سرکاری کاریں رکھے ہوئے ہیں جو ان کا استحقاق بھی نہیں رکھے۔ یادرہے کہ سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ میں خسارے کا تخمینہ20 ارب 45 کروڑ 75 لاکھ روپے رکھا گیا ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔
اسی طرح ایک دوسری رپورٹ میں روزنامہ جسارت نے بتایا ہے کہ وزیراعلیٰ ہائوس کے بعد صوبے کے مختلف محکموں میں بھی گزشتہ مالی سال میں اربوں روپے کے بے جا اخراجات کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق صرف محکمہ سروسز جنرل اینڈ کوآرڈی نیشن ڈپارٹمنٹ (ایس جی اینڈ سی اے ڈی) میں ان غیر ضروری اور غیر ترقیاتی امور پر ایک ارب 70 کروڑ 48 لاکھ 30 ہزار 826 روپے سال 2018-19ء کے بجٹ سے خرچ کردیے گئے۔ دستاویزات کے مطابق افسران سمیت محکمے کے تمام عملے کو بہتر کارکردگی کے نام پر اعزازیہ دیا گیا جس پر مجموعی طور پر 14 کروڑ 85 لاکھ 34 ہزار 980 روپے خرچ کیے گئے۔ حالانکہ مالی بحران کی وجہ سے اس طرح کے مالی انعامات روکے جاسکتے تھے۔ محکمے کی گاڑیوں کا کوئی ریکارڈ بھی محفوظ نہیں ہے، اور یہ بھی نہیں پتا کہ کون سی گاڑی کس افسر کے پاس اور کس استعمال میں ہے۔ اس کے باوجود صرف پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 5 کروڑ 97 لاکھ 90 ہزار روپے اخراجات کیے گئے۔ دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایس جی اینڈ سی اے ڈی میں بھی عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے خلاف کنٹریکٹ پر افسران اور ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں، اور ان کنٹریکٹ افسران پر 4 کروڑ 68 لاکھ 46 ہزار، اور کنٹریکٹ پر چھوٹے ملازمین پر 15 لاکھ روپے سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ مذکورہ محکمے کے زیراستعمال کاروں کی مرمت و دیکھ بھال پر 8 کروڑ 75 ہزار روپے خرچ کیے گئے جو ایک تشویش ناک امر ہے۔ ایس جی اینڈ سی اے ڈی کے محکمے میں نظر نہ آنے والے اخراجات کی مد میں 3 کروڑ 73 لاکھ 10 ہزار روپے خرچ کردیے گئے۔ جبکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر نظر نہ آنے والے اخراجات کی مد میں بھی 8 کروڑ 53 لاکھ 64 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ مذکورہ محکمے کے جنریٹر کو چلانے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 2 کروڑ 23 لاکھ 34 ہزار روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ وزیراعلیٰ ہائوس بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہے، اس محکمے میں اخراجات کے لیے ’’جنرل اَدر‘‘ (General other) کے نام سے بھی ایک خانہ سامنے آیا ہے جس پر گزشتہ مالی سال میں 66 کروڑ 26 لاکھ 38 ہزار روپے کے اخراجات ظاہر کیے گئے ہیں۔ حکومتِ سندھ کے ایک سابق بیوروکریٹ نے بتایا ہے کہ ’’ان فورسین اخراجات‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اخراجات جن کا حساب نہ دیا جاسکے۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ اخراجات زیادہ سے زیادہ ہزاروں میں ہوا کرتے تھے، مگر اب کروڑوں میں ہورہے ہیں تو تشویش کی بات ہے، اس پر تحقیقات ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ سندھ حکومت گزشتہ 8 برسوں سے مالی بحران کا سامنا کررہی ہے، اس کا بجٹ خسارہ 26 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ صوبہ سندھ کو اربوں روپے کے خسارے کے باوجود شاہ خرچیوں، بے جا فنڈز اور غیر ضروری اخراجات کرکے کہاں لے جایا جارہا ہے؟ پیپلز پارٹی ایسا کرکے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے تحت کہیں صوبے کے عوام سے تو انتقام نہیں لینا چاہتی؟
حیرت انگیز اور قابلِ ذکر بات تو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اپنے’’لوگوں‘‘کو نیب کے شکنجے سے بچانے کے لیے 2016ء میں نیب کو صوبہ سندھ میں کارروائیوں سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کرچکی۔ مگر اس کے باوجود نیب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر کو گرفتار کرچکا ہے۔ خیال رہے کہ جن مقدمات میں مذکورہ رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، وہ یہ ہیں ہی نہیں جن کی روک تھام کے لیے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے 2015ء اور 2016ء میں مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔ سندھ حکومت ملک کی وہ واحد حکومت ہے جس کے اسپیکر آغا سراج درانی، سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن اور سابق وزیر ڈاکٹر عاصم حسین مختلف مقدمات میں گرفت میں آچکے ہیں۔ اس قدر گرفتاریوں اور الزامات کے باوجود پیپلز پارٹی بلاجھجھک کس طرح حکومت کررہی ہے؟ یہ بھی ایک فکر انگیز سوال ہے۔
کرپشن کی شکایات کے لیے حکومت کے خلوص پر بھی سوال ہے
سندھ کے حکمراں کرپشن کے خاتمے میں کس حد تک مخلص ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو ماہ قبل کرپشن کی شکایات سننے کے لیے ہر ڈپارٹمنٹ میں خصوصی ’’شکایتی سیل‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا سربراہ ایک سینئر افسر کو بنایا جانا تھا، جو روزانہ کی بنیاد پر موصول ہونے والی تمام شکایات کا جائزہ لے گا اور ہر یومِ کار ( ورکنگ ڈے) کی صبح سیکریٹری کو تمام شکایات اور بالخصوص وہ شکایات پیش کرے گا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے فوری توجہ اور کارروائی کی متقاضی ہوں، ایسی شکایات جن میں آفیشلز پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہوں انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے کمپلینٹ سیل کو قواعد و قوانین کے تحت مزید کارروائی کی سفارش کے ساتھ بھیجی جانی تھیں، مگر دو ماہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی محکمے میں کوئی کمپلینٹ سیل نہیں بنایا گیا۔