سیمان کی ڈائری
حصہ دوئم اور آخری
اہلِ ادب کے تاثرات پر مبنی دوسرا اور آخری حصہ قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ پروف کی غلطی کی وجہ سے جناب افتخار عارف صاحب کے تاثرات بارِ دگر اس حصے میں شامل کیے ہیں۔ پہلے اور اس حصے میں شامل لیاقت علی عاصم کے دونوں پورٹریٹ مرشد عارف امام صاحب کی لیاقت علی عاصم سے محبت کا اظہار ہے۔ اس حصے میں محترمہ عشرت آفرین، باصر سلطان کاظمی، خالد معین، اجمل سراج، عرفان ستار، طارق اسد، شاہین عباس، گلناز کوثر، غافر شہزاد، سحرتاب رومانی، محمد مختار علی، سلمان صدیقی، عاطف توقیر، رفاقت حیات، اقبال خورشید، طارق رئیس فروغ، کامران نفیس، طارق جمیل، علی ساحل، سلمان ثروت، اسد قریشی اور سبیلہ انعام صدیقی کے تاثرات شامل ہیں۔
افتخار عارف
لیاقت علی عاصم ہماری شاعری کے عصری منظر نامے میں غزل گو کی حیثیت سے ایک نمایاں مقام کے حامل تھے۔ بیسویں صدی کے اواخر سے بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں غزل روبہ انہطاط ہے مگر ہر پانچ دس برسوں کے بعدمنصہ شہودپرکچھ غزل گو اس موقف کی تردیدکرتے نظر آتے ہیں۔جدین نظم اور نثری نظم کے پرشور زمانے میں بھی جن لوگوں نے غزل کو اعتبار بخشا،لیاقت علی عاصم اُن میں نمایاں نام ہیں۔ وہ صرف کراچی یا پاکستان کے صاحبِ اسلوب شاعر نہیں تھے۔ میں اُن کو اردو دنیا کے ایک مایہ ناز شاعر کے طور میں ان کا احترام کرتا ہوں ۔مجھے مشاعروں میں یا جہانِ تشہیر کے غزل بازوں سے پرخاش نہیں ہے مگر وہ لوگ زیادہ قابلِ قدر ہیںجنھوں نے اپنا تعارف لکھے ہوئے لفظ سے کروایا۔گوشۂ گمنامی میں رہے مگر خلوت گزینی بھی اُن کے ہنرکی شہرت و مقبولیت میں حائل نہیں ہو پائی۔شاید ہی کوئی ایساقاری ہوگاجس کے حافظے میں عاصم کے اشعار محفوظ نہ ہوں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
موت صاحبانِ ہنر کا راستہ روکتی نہیں ۔ہر تخلیق کارایک سطح پر موت کو شکست دیتا اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے ،عاصم یاد رکھے جائیںگے مجھے اس کا پورا یقین ہے۔
عشرت آفرین
لیاقت علی عاصم کے بارے میں جب بھی سوچتی ہوں تو ایک کم آمیز سی شخصیت کا سراپا ذہن میں ابھرتا ہے۔ عاصم شاعر تھے اور بڑے نتھری ستھرے شعر کہنے والے شاعر تھے۔ لیکن میں نے جب بھی دیکھا انہیں خاموشی کے ساتھ پچھلی صفوں میں بیٹھے ہی دیکھا۔ ان کی شخصیت میں ایک طرح کا استغناء تھا، ایک پروقار شائستگی۔ ان کی شاعری طبیعت کی اسی شائستگی اور شستگی کا آمیزہ ہے۔ عاصم کو دھیمے انداز میں گہری بات کہنے کا ہنر آتا تھا۔ پھر چپ رہنے کا ہنر بھی آتا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ شاید قدرت نے انہیں نفس مطمئنہ کی دولت سے بھی مالا مال کر رکھا تھا۔
ایک دیا تو مرقد پر بھی جلتا ہے عاصم آخر
دنیا آس پہ قائم تھی سو آس لگائی میں نے بھی
باصر سلطان کاظمی
ایک نہایت عمدہ شاعر اور نفیس انسان ہم سے جدا ہو گیا۔ لیاقت علی عاصم کلاسیکی مزاج کے جدید شاعر تھے۔ وہ محض نفسِ مضمون کو عروض کا پابند کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ہیئت کے تقاضوں کو بھی ممکن حد تک پورا کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اشعار میں ہر لفظ اپنے وہاں ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ سادگی، بے ساختگی اور تازگی ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان کے نزدیک شعر کا صوتی آہنگ اور اس کی ٖفضا بھی بہت اہم تھے۔۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے اور ان کے کلام کو عام کرے۔آمین
خالد معین
کراچی اورمنوڑہ اس بار ایک ساتھ اداس ہوئے،منوڑہ میں جنم لینے اورکراچی میں اپنا سفر ِ آخرت طے کرنے والے ممتاز شاعر لیاقت علی عاصم کے ناگہاں انتقال پر مجھے سب سے زیادہ مرحوم عزم بہزاد یاد آئے۔عاصم اور عزم کی زندگی اگرچہ یک ساں نہ تھی، تاہم دونوں ایک طویل زمانے تک ساتھ ساتھ رہے۔عزم کی سماجی زندگی اُن کی ذہانت اور معاملہ فہمی کے سبب عاصم سے زیادہ وسیع اور زرخیز رہی۔وہ دبئی اور متحدہ عرب امارات میں اپنی کام یاب حکمت ِ عملی کے سبب وہاں خوب آتے جاتے رہے،جب کہ عاصم کو ایسے مواقع کم کم مسیر آئے مگر عاصم اپنی خالص شاعری اور تازہ کارشعری وفور میں ایک فطری شاعر کی حیثیت سے عزم سمیت اپنے قریبی ہم عصروں سے کہیں زیادہ آگے رہے۔کچھ عرصے قبل عاصم کا کلیات بھی اُن کی زندگی میں شائع ہوا اور انتقال سے چند دن قبل ایک تازہ مجموعہ بھی سامنے آیاجواُن کے مسلسل کلام کرنے کا مظہر ہے۔اُنہیں کراچی اور کراچی سے باہر ایک تہہ دار،معتبر اور سنجیدہ شاعر کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے ۔کلاسیکی روایات کا گہرا اور با معنی شعور رکھنے والے،اس ہمہ وقتی شاعر کوروح ِ عصر اور جدت کا بھی پاس رہا۔ اُنہوں نے مصوری کے ساتھ شوقیہ گائکی بھی کی،لیکن اُن کی تخلیقی شخصیت کا قابل ِ رشک جوہر جدید غزل سے منسلک رہا اور اسی عشق میں اُنہوں نے اپنی ساری زندگی گزار دی،سودو زیاں اور کسی وقتی سودے بازی کے بغیر،وہ مسلسل لکھتے رہے،اپنے دکھ سکھ بھی،اپنے خواب و عذاب بھی اور اپنے عصر کی تلخ و شریں سچائیاں بھی۔لیاقت علی عاصم کی منفرد تخلیقی کاوشوں کو فراموش کرنا ممکن نہ ہوگا،تاہم اُن کے تخلیقی کاموں کے حوالے سے مستقبل میں وقتی قسم کے جذباتی رویوں کے بہ جائے حقیقی تجزیے معاون ثابت ہوں گے اور اس کھٹن کام کے لیے سنجیدہ ناقدین کی ضرورت پڑے گی،سوشل میڈیا کا خراج اپنی جگہ مگر یہاں ہر زور ایک نیا ٹرینڈ جنم لیتا ہے،اس لیے اس کا اثر چند روزہ ہوتا ہے جب کہ دور رس خراج کے لیے زیادہ مستحکم انداز میں لیاقت علی عاصم کو یاد کیا جانا چاہیے۔اس کام کے لیے مخلص احباب ابھی سے ارادہ باندھیں،خدا اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
اجمل سراج
ایک ہوتے ہیں شوقیہ شاعر اور ایک ہوتے ہیں قدرتی شاعر۔لیاقت علی عاصم دوسری طرح کے شاعر ہیں یعنی قدرتی شاعر۔وہ اپنے لڑکپن یعنی تیرہ،چودہ برس کی عمر سے لے کر عمر کے آخری ایام تک مستقل لکھتے رہے۔انھوں نے کبھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھا کہ کچھ اور کریںکہ میں کالم لکھتا ہوں،مضامین لکھتا ہوں یاکچھ بھی اور کرتاہوں نہیں، صرف اور صرف شاعری اوروہ بھی غزل کی شاعری۔ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں غزل اعتبار بخشتی ہے اور ایک وہ شاعر ہوتے ہیں جو اپنے عہد میں غزل کو اعتبار بخشتے ہیں۔یہاں بھی ان کا تعلق دوسرے قبیل کے شاعروں میں سے ہے۔جہاں تک میں جانتا ہوں،وہ بہت صحیح العقیدہ اوردرست فکر کے حامل آدمی تھے۔شاعری تو اُن کا بہت ہی اوڑھنا بچھونا تھی۔انھوں نے اردو غزل کو بہت نواز اہے۔یقینااُن کے اشعاراردو غزل کی روایت میں شامل ہوں گے۔اللہ تعالٰی ان کی مغفرت کرے اور انھیں بلند درجات سے نوازے۔آمین
عرفان ستار
نوے اور دو ہزار کی دہائیوں میں کراچی کی ادبی محفلوں میں عزم بہزاد کے گھر پر ہر سنیچر کی رات کو منعقد ہونے والے نشست ایک خاص اہمیت کی حامل تھی۔ اس کی دو اہم وجوہ تھیں۔ پہلی تو یہ کہ اس کے شرکا بے حد سنجیدہ اور صفِ اوؔل کے عمدہ تخلیق کار تھے۔ باقاعدگی سے شریک ہونے والوں میں نگار صہبائی، خواجہ رضی حیدر، احسن سلیم، صابر وسیم، لیاق علی عاصم، سعید آغا، انورجاویدھاشمی، جاذب ضیائی، محمد امین الدین، راقم الحروف اور نشست کے میزبان عزم بہزادشامل تھے۔ ان کے علاوہ اکثر شریک ہونے والوں میں رسا چغتائی، اجمل سراج، خورشید عالم وغیرہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ بیرون ِ شہر اور بیرون ِ ملک سے تشریف لانے والے اکثر شاعر اور ادیب اس محفل کو رونق بخشتے تھے۔ اس نشست کی وساطت سے میرا لیاقت علی عاصم سے ایک قلبی تعلق قائم ہوا جو آج بھی اتنا ہی گہرا ہے اور اسی وجہ سے لیاقت علی عاصم کی رحلت میرے لیے اتنا ہی بڑا سانحہ ہے جیسے عزم بہزاد، نگار صہبائی اور احسن سلیم کی وفات پر گزرا۔لیاقت علی عاصم سراپا شاعر تھے۔ ہمہ وقت مصرعوں میں کھوئے رہنے والے۔ اپنی دنیا میں مگن۔ شعری سماجیات اور عمومی کرتب بازی سے الگ تھلگ۔ زود گو ضرور تھے مگر اشعار کی زبان، درستی، اور چستی کے معاملے میں بے حد محتاط۔ صاف اور رواں مصرع کہنے اور مضمون کا عمدگی کے ساتھ ابلاغ کرنے کی قدرتی صلاحیت کے سبب ان کی غزلوں میں ایک خاص طرح کی کشش تھی جو سامع اور قاری کو اپنا اسیر کرلیتی ہے۔ گو عاصم نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا اصل میدان غزل ہی ہے۔ اور غزل بھی ایسی کہ بہت اچھے تعداد کی جتنی تعداد لیاقت علی عاصم کے یہاں ملتی ہے اس کی مثال شاید ان کے ہم عصروں میں مشکل ہی سے ملے گی۔ پی آر اور خودنمائی سے دور رہنے والے لیاقت علی عاصم کو یقیناً ویسی پذیرائی نہ ملی جیسا ان کا حق تھا مگر یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ عزت ِنفس اور خودداری کے ساتھ جینے والے ہر تخلیق کار کے ساتھ ہمارے دور میں ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ مگر جس طرح عاصم کے قارئین کی تعداد سوشل میڈیا کے توسط سے ہندوستان اور پاکستان میں روزبروزبڑھ رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیاقت علی عاصم اپنے عہد کے اہم ترین اور مقبول ترین غزل گو شعرا میں نمایاں ہوتے جائیں گے۔
طارق اسد
جنابِ لیاقت علی عاصم سے فیس بک پر تعارف ہوا – میں ان کی شاعری پڑھ کر عجیب حیرت میں مبتلا ہوا – ملتان میں ممتاز اطہر صاحب سے لیاقت علی عاصم کا تذکرہ ہوا تو وہ فرمانے لگے کہ وہ بڑا شاعر ہے – اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم لیاقت علی عاصم نے اپنے آپ کو پوری طرح شاعری کے سپرد کیا ہوا تھا – فیس بک پر اپنی غزلوں پر ان کے کمنٹس دیکھ کر مجھے اپنے ہونے کا یقین ہوتا تھا – بہت سے لوگ، شاعر، ادیب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد روز مرتے ہیں اور انہیں اگلے دن ہی بھلا دیا جاتا ہے، لیاقت علی عاصم جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے، وہ ایک مکان سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں۔
شاہین عباس
لیاقت علی عاصم کے شعری سفر کی ہر جہت ایک نئے جہانِ معانی کی خبر لاتی ہے۔ زندگی کے ساتھ اُن کا رومان محض وصال وہجر کے روایتی تصور تک محدود نہیں۔ بلکہ ذات اور کائنات کے کچھ ناشنیدہ اور کچھ نادیدہ جہانوں کی دریافت اور بازیابی سے بھی عبارت ہے۔اُن کی غزل کے مطالعے سے ایک ایسی مستحکم اور غیر متزلزل تخلیق کار شخصیت کا خاکہ ابھرتا ہے جس کے سماجی اور تاریخی وجود کی کوئی حد مقرر نہیں۔انھوں نے روایت کو محبت کامتبادل اور خود کو زمانوں کا نمائندہ مان کر شاعری کی ہے۔ ظاہر ہے اس منصب کے اپنے تقاضے ہیں جنھیں عاصم بھائی نے مصرع بہ مصرع پورا کیاہے۔ وہ جس شہرآشوب کے ترجمان شاعر ہیں،اُس کی حیثیت مقامی اور علاقائی ترجمانی سے کہیں بڑھ کر شہر شہر کی کہانی ہے۔ یہی وہ کہانی ہے جس کے لکھنے والے کے قدم نشیبِ شہر میں گڑے ہوئے ہیں اور سر آسمان کے ساتھ جالگا ہے۔مجموعہ ہائے غزل کے عنوان قائم کرنے کا معاملہ ہو یا اُن کی اختیار کردہ تازہ تر زمینوں کی بات ہو،ان کے تخلیقی وجود کی اکائی ان ذیلی اکائیوں میں سمٹ آئی ہے یہی وہ اکائی ہے جس کے وجود وعدم کی بازگشت اردو غزل کے ایوانوں میں تادیر سنی جائے گی۔
گلناز کوثر
ہوائو کس دیے کی لو پہ تم نے ہاتھ رکھا ہے!!!۔
کیسے کیسے چراغ ہماری آنکھوں کے سامنے گل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بس آنکھوں میں آنسو اور دل پر بوجھ لیے ہم ایک ایک کر کے سب کو رخصت کر رہے ہیں۔ لیکن دوستو اچھا شاعر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ بس ہم اپنی نظروں سے اسے دیکھ سکتے ہیں نہ ہاتھ سے چھو سکتے ہیں۔ لیاقت علی عاصم اپنے کلام میں دھڑک رہے ہیں۔ میں انہیں نہیں جانتی تھی لیکن پچھلے کچھ ہفتوں سے جب بھی کسی نے ان کا کوئی بھی شعر فیس بک پر پوسٹ کیا وہ مجھے پہلے سے زیادہ قریب لگنے لگے۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے دل دکھ سے بھرے ہیں۔ یہ سب اتنی جلدی ہو گیا کہ سمجھ ہی نہیں آئی۔ ادھر ان کی بیماری کی خبر آئی اور ادھر رخصتی کی۔ بس یہی افسوس رہ گیا کہ اس بے مثال شاعر سے کبھی ملنے کی سعادت نصیب نہیں ہو گی۔ لیکن ان کا کلام ان کی موجودگی کا ہمیشہ احساس دلاتا رہے گا۔
غافر شہزاد
اچھے اور منفرد شعر کی خوشبو ہوا کے دوش پر چاروں طرف پھیلتی ہے اسے کسی سہارے یا بیساکھی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیاقت علی عاصم اس بات سے بخوبی واقف اور پراعتماد تھا۔ وہ اچھے اشعار کہتا رہا اور یہ اشعار سینہ بہ سینہ مشاعروں اور رسالوں کے توسط سے قارئین و سامعین تک پہنچتے رہے۔ اس کی رحلت کے بعد احباب نے روایتی جملے لکھنے کے بجائے اس کے اشعار فیس بک پر لکھے یہ ایک شاعر کی کامیابی ہے۔ لیاقت علی عاصم استعمال شدہ خیالات اپنی شاعری میں دہرانے سے اجتناب کرتا تھا اوراس نے اردو شاعری کے دامن میں بے شمار نئے اشعار ڈالے اور اسے ثروت مند کیا۔ اچھا شعر کہنے کی لگن میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے والے اس جیسے شاعر بہت کم رہ گئے ہیں۔لیاقت علی عاصم نے الفاظ کواپنے انداز میں استعمال کر کے معانی کے دامن کو بھی کشادہ کیاہے۔ ایک شعر میرے کہے پر مہر تصدیق لگانے کے لئے کافی ہو گا اس میں امنگ کے توسیعی معانی پر غور کیجئے۔
ہمیں پسند سہی اب یہ رنگ مت پہنو
پرائے تن پہ ہماری امنگ مت پہنو
سحرتاب رومانی
دعا کو بے اثر جانا ہے آخر
بہت جی کر بھی مر جانا ہے آخر
اردو شاعری کو اپنے بہترین اشعار سے مالا مال کرنے والے شاعر لیاقت علی عاصم بھی چلے گئے کہ مقدر یہی اس زیست کا ہے ۔میری عاصم بھائی سے کئی ملاقاتیں رہیں لیکن یہ سب ملاقاتیں صرف مشاعروں کی حد تک تھیں، ایک بار کسی مشاعرے کے سلسلے میں اندرون سندھ سفر کے دوران مجھے کچھ وقت ان کی قربت میں رہنے کا میسر آیا میں نے انہیں نہایت خاموش طبع اور اپنی ذات میں گم رہنے والا شاعر تصور کیا جبکہ ایسا نہیں تھا کچھ نجی محفلوں میں ان کے ساتھ بیٹھ کر اندازہ ہوا کہ وہ یاروں کے یار اور بہت پر بہار طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنے دوستوں کے بیچ بہت خوش ہوتے تھے دوران گفتگو کبھی کوئی ایسا جملہ کہہ جاتے تھے جس پر میں بڑی سنجیدگی سے مسکراتا تھا۔ان کی وفات اردو شعر و ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ لیاقت علی عاصم اردو شاعری کا ایک ایسا معتبر حوالہ ہیں جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان پر اللہ کی رحمت ہو۔
محمد مختار علی
لیاقت علی عاصم سے عالمی اردو مرکز جدہ میں بطور میزبان ملاقات رہی وہ واقعی سادہ و سچے اور درویشانہ اسلوب کے حامل شاعر تھے ۔جدہ مشاعرہ محض ان کی آمد کے سبب نہایت کامیاب رہا اور انہوں نے مشاعرہ لوٹنے میں بخل سے کا م نہیں لیا۔ گزشتہ ماہ سہ ماہی کارواں کے خصوصی شمارے کے سرورق کے لئے برادرم نوید صادق کے ارشاد کی تعمیل میں لیاقت علی عاصم کے اسم کی خطاطی کا موقع ملا تو جی خوش ہوا کہ اپنے عہد کے ایک زندہ و تابندہ شاعر کو خراج تحسین پیش کیا۔
سلمان صدیقی
کسی نے کہا کہ شاعری پورا آدمی مانگتی ہے،سو اس عہد میں جس شاعر نے اپنا پورا وجود شاعری کو دیا وہ لیاقت علی عاصم ہے۔محبت کے جذبے کو نئے عہد کے سماجی شعور میں آمیز کرکے تسلسل سے اثر انگیز شاعری سامنے لاتے رہنا اور مصورانہ نقش گری اس کی ذات میں تخلیقی اظہار کی پوشیدہ توانائی کامظہر ہے۔ان کا شعری قدو قامت اوربیانیے کا حسن اس طور سامنے آرہا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا پر ان کے شیئر کیے جانے والے اشعار شاعری سے شغف نہ رکھنے والوں کو بھی حیران کر رہے ہیں۔کاش ان کے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اشعار کو یہ پزیرائی ان کی زندگی میں ملتی۔
عاطف توقیر
لیاقت علی عاصم کے قلم کو ایک عجیب کمال حاصل تھا۔ وہ لفظوں سے تصاویر بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ ایک پوری کیفیت جو اپنے اندر ہزار ہا تفصیلات لیے ہوتی، لیاقت علی عاصم کے کسی شعر میں یوں اظہاریہ بن جاتی کہ جیسے اس کیفیت کی اس سے بہتر تصویر کشی ممکن نہیں۔ یہ دوستوں کا دوست اور دوستوں کا استاد، چلا گیا ہے، تو شاید اب بہت سی کیفیتیں تصویر نہ بن پائیں۔ ہم لیاقت علی عاصم کودوبارہ کہاں سے لائیں۔ اللہ لیاقت بھائی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا کرے، وہ پوری قلم قبیل کو ایک سکتے میں مبتلا کر گئے۔
رفاقت حیات
لیاقت علی عاصم اپنے مزاج کے شخص اور اپنے انداز کے شاعر تھے۔ ان کی بیشتر شاعری کا خمیر زندگی کے تلخ و ترش و شیریں تجربات سے اٹھتا ہے۔ ڈھائی تین برس پہلے جب میں حلقہ ارباب ذوق کراچی کا سیکریٹری تھا تو حلقے میں منعقد ہونیوالے ایک سلسلے ادب ستارہ کے لیے میں نے جھجھکتے ڈرتے ہوئے ان سے حلقے کے اجلاس میں شریک ہونے کی درخواست کی تو انہوں نے کمال محبت سے دعوت قبول کی۔ وہ حلقے میں نہ صرف تشریف لائے بلکہ انہوں نے اپنے فنی و شعری سفر کے متعلق دیر تک باتیں کیں۔ گفتگو کے بعد انہوں نے اپنا منتخب کلام بھی سنایا۔ جس کی وجہ سے حلقے میں ایک سماں سا بندھ گیا۔ اس وقت بھی میری سماعت میں ان کی گہری آواز کا تاثر محفوظ ہے۔ وہ بلاشبہ غزل کے مختلف اور منفرد شاعر تھے۔ ہم سب پر واجب ہے کہ ان کی شاعری کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اس پر لکھیں اور ان کے فنی و فکری محاسن پر بات کریں۔
اقبال خورشید
صورت شاعر، درویش صفت انسان۔ زمین سے جڑے ہوئے۔ سادہ، کھرے۔زبان کی درستی کو اہم جانتے تھے، اس معاملے میں رعایت کے قائل نہیں تھے۔ میں نے لسانی بگاڑ پر انھیں بگاڑتے دیکھا ۔ زبان کے معاملے پر جسے درست جانتے، اسے بیان کرتے، قد آوروں سے بھی اختلاف کرتے۔نفیس انسان تھے،چمک دمک سے، تام جھام سے دور رہتے۔ ایسی محفل میں خود کو مطمئن نہ پاتے۔ اپنے فن سے مخلص آدمی تھے۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔
طارق رئیس فروغ
تقریباً دس سال قبل جب میں نے فیس بک استعمال کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے جو شعر پوسٹ کیا تھا وہ لیاقت علی عاصم بھائی کا شعر تھا’ ورنہ سقراط مر گیا ہوتا۔ اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں‘ اور مزے کی بات یہ کہ مجھے اس شعر کے خالق کا نام معلوم نہیں تھا۔ یعنی یہ اس شعر کی طاقت تھی کہ میں نے اسے پوسٹ کیا۔ عاصم بھائی سے چند ہی ملاقاتیں رہیں۔ لیکن وہ اتنی محبت سے ملتے کہ جیسے صدیوں کی شناسائی ہو۔ میں ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ زندگی سے بھرپور شخص ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ عاصم بھائی کی مغفرت فرمائے ۔آمین
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
کامران نفیس
سر تا پا شاعر، اپنی دنیا میں گم، شعری فرقہ بندی سے دور، خوش اخلاق،خوش گو ارو خوش اطوار۔ لیاقت علی عاصم اب ہم میں موجود نہیں۔ چالیس برس سے زیادہ عرصے تک شعر کہنے کے بعد وہ زبان و ادب کو کیا کیا عطا کر گئے اس کا اندازہ ان کی زندگی میں تو احباب نے نہیں لگایا لیکن گزشتہ کئی روز سے ادبی حلقوں، شاعروں اور سوشل میڈیا پر جس انداز میں انہیں یاد کیا جا رہا اس سے ثابت ہوا کہ عاصم بھائی نے زبان اور شاعری کو دیا ہی دیا ہے، لیا کچھ نہیں۔ ان کی زندگی میں ان پر نقد کرنے والے بھی آج ا ن کی شاعری کا دم بھرتے نظر آ رہے ہیں۔ تیس برس اردو لغت میں اعلی عہدے پر فائزرہنے کے بعد لفظ سے عاصم بھائی کی ایسی شناسائی بلکہ دوستی ہوچکی تھی کہ لفظ اپنے تمام تر معنوں کے ساتھ ان کی خدمت میں موجود رہتا تھا، الفاظ کو جس ڈھنگ سے وہ اپنی شاعری میں برتا کئے اس کی مثال عہد رواں میں صرف صف اول کے شعراء کے ہ اں ہی ملتی ہے۔ غالب کی روایت کولے کر آگے بڑھنے والے لیاقت علی عاصم نے جدید لفظیات کے ساتھ اپنی نئی راہ متعین کی جو نوجوان شعراء کے لیے مشعل راہ ہے۔ تغزل ان کی غزل کی بنیاد رہا، انہوں نے نعت اور حمد بھی کہی تو اس میں بھرپور تغزل کارفرما رہا۔ یہ ان کی شاعری کا ایسا وصف تھا جو بہت کم شعراء کے ہاں ملتا ہے۔ نئی نسل کے شعراء کو لیاقت علی عاصم کو پڑھنے اور شاعری میں تغزل اور تخیل کے اعلی ترین استعمال کو سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اردو شاعری کا مستقبل ہی لیاقت علی عاصم کے شعر کا مستقبل ہے۔
طارق جمیل
لیاقت بھائی سے میری ذاتی شناسائی تو کچھ زیادہ پرانی نہیں لیکن ان کی شاعری کے اسیر ہم اس وقت کے ہیں جب غالباََ1996 کے عالمی مشاعرہ میں اپنا یہ مشہور شعر پہلی دفعہ پڑھا:
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
۔2016 میں کچھ دوستوں نے بزم شعر وسخن کی بنیاد رکھی اور شہر میں چھوٹے بڑے مشاعرے بزم کے تحت منعقد ہونا شروع ہوئے تو لیاقت بھائی سے بھی رابطہ مستقل ہونے لگا لیکن یہ میری بد قسمتی رہی کہ ٹیلی فون پر توان سے متعدد بار بات چیت کاشرف حاصل ہوا لیکن بالمشافہ ملاقاتیں دو ہی کر سکا۔ ان مختصر ملاقاتوں میں عاصم بھائی کے بارے میں میراتاثر یہ تھا کہ آپ خاموش طبع تھے مصلحت و خوشامد آپ سے بہت دور تھی، اپنے تجربات، محسوسات ماحول کے اثرات کو تو تمام ہی شعرائے کرام شاعری کا روپ دیتے ہیں لیکن عاصم بھائی نے شعراء کے اس ہجوم میں اپنا رنگ سب سے جدا بنایا شعراکی جتھا بندیوں کے درمیان وہ اگرچہ سب کے لئے قابل قبول رہے لیکن خود کسی جتھ کا حصہ نہیں بنایا۔اس کا نقصان بھی ان کو اٹھانا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم لیاقت بھائی کو وہ مقام نہ دے سکے جو اُن کے شایان شان تھا لیکن آپ اپنی شاعری کا جو سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں وہ آسمانِ اردو پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
علی ساحل
لیاقت علی عاصم کا نام سنتے ہی شعر و ادب سے لگائو رکھنے والا کوئی بھی شخص اچھے اور جدید شعر کی توقع رکھتا ہے اور لیاقت علی عاصم نے اپنے سننے والوں کو کبھی مایوس نہیں کیا،گزشتہ دس سالوں میں میرا ان سیتقریباً روز کا ملنا تھا لیکن مجھے ایسی کوئی ملاقات یاد نہیں جس میں ہم نے شاعری پر بات نہ کی ہو سوائے اس آخری ملاقات کے جو ان کے انتقال سے ایک روز قبل ہوئی تھی ان کی آنکھوں میں میری چند روزہ غیر حاضری کا گلا بھی تھا اور کچھ خاص پیغام بھی جن کا تذکرہ کل پر اٹھا رکھتیہیں، بہر حال وہ بہت نحیف لگ رہے تھے لیکن ان کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح غرورِ عشق سے دمک رہی تھیں، میں نے سنا کہ ان کا نیا مجموعہ کلام بھی شایع ہو چکا ہے”میرے کتبے پہ اس کا نام لکھو” اس مجموعے کے نام پر ہماری بہت لے دے ہوئی تھی اس سے قطع نظران کے کسی بھی مجموعہ کلام کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہمیشہ سرشاری دامن گیر رہتی ہے ان کے اکثر اچھے اشعار میرے حافظے کا حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود جب بھی ان کا کوئی مجموعہ کلام کھولتا ہوں یا تو کسی اچھے شعر کا اضافہ ہوجاتا ہے یا پہلے سے حافظے میں موجود کسی شعر کا کوئی نیا پہلو آنکھوں کے سامنے لہرا جاتا ہے،وہ سراپا عشق تھے ہمیشہ انہیں اپنے عاشق ہونے پر ناز رہا ہے وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ شاعر کو عالم نہیں عاشق ہونا چاہیے، میں ان کے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے عاشق تھے اور انسان تو باکمال تھے ہی جس کا اندازہ دنیا بھر میں موجود اردو شاعروں کی چہ مگوائیوں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
سلمان ثروت
لیاقت علی عاصم بھائی سے میری ملاقات آج سے کوئی دس ایک سال پہلے نعیم سمیر کے توسط سے ہوئی، لیاقت بھائی کی شاعری انسانی رویوں پر بہت دھیمے انداز سے ایک کڑا طنز تھا۔ آپ شاعری میں بے جا ابہام سے گریز کرتے تھے۔ تعقل اور تحیر سے زیادہ تاثر کو اہمیت دیتے تھے۔
اسد قریشی
اس دنیا زمانے نے نہ جانے کتنے گوہرِ نایاب خاک میں ملا دیے پر قدر نہ جانی۔لیاقت علی عاصم بھی ایک ایسی ہی قابلِ قدر و نایاب شخصیت ہیں جن کی قدر زمانے کو نہ آئی۔جناب لیاقت علی عاصم سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی تھی یہ تو اب یاد نہیں اورنہ ہی یہ بات کسی اہمیت کی حامل ہے، اہم بات یہ ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں اس قدر محبت شفقت اور اپنایت سے ملے کہ دل میں گھر کرگئے۔ان کی سب سے خاص بات یہی ہے کہ وہ مقام، منصب و تفاوت سے بلند تر شخصیت کے مالک تھے۔ان کے ساتھ چند شعری نشست کے علاوہ کچھ غیر رسمی ملاقات رہی اور لیکن کبھی بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ یہ وہی لیاقت علی عاصم ہیں جنھیں ایک دنیا عظیم شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے، ہمیشہ ایسے ہی ملے جیسے ہمارے ہم عمر ہوں۔ہم نے ان کے معاصرین بھی دیکھے لیکن جس محبت سے عاصم بھائی ملے کوئی نہ پہنچ سکا۔اکثر ایسا ہوتا کہ دوست ملتے تو یہ طے پاتا کہ عاصم بھائی کی طرف چلتے ہیں اور عاصم بھائی کو فون کیا کہ ہم آرہے ہیں تو کبھی منع نہ کیا۔گھنٹوں ہمارے ساتھ بیٹھتے ڈھیروں قصے ہزاروں قہقہے اور بے پناہ محبت باتوں باتوں میں شعر کہنا، آپس کی گفتگو سے احساس کشید کرنا کبھی ہمیں شعرکہنے کی ترغیب دینا کبھی خود سے کہنا۔زندگی کے دلچسپ واقعات ہم سے کہنا اپنے بچپن کے واقعات بیان کرنا۔جوانی کا قصہ، میں ان سے اکثر کہا کرتا تھا عاصم بھائی جب میں پیدا ہوا تھا تو آپ کا پہلا مجموعہ کلام آیا تھا بہت ہنستے تھے میری اس بات پر یہی وجہ ہے کہ آج دل یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ لیاقت علی عاصم جیسی ملنسار ہر دلعزیز شخصیت آج ہم میں نہیں۔
سبیلہ انعام صدیقی
عہد ِرواں کے نمائندہ، خوبصورت لب و لہجے کے بے مثال اور قابل ِ صد احترام شاعر ”لیاقت علی عاصم” جن کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے اور اسی سبب انھیں آبروئے غزل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔لیاقت علی عاصم اردو ادب اور اس عہد کا وہ ممتاز نام ہیں جو اپنے شعری حوالے کے سبب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔وہ بنیادی طور پر فنی پختہ کار اور زبان جاننے والے شاعر تھے۔ ان جیسے مضبوط، رواں مصرع کہنے والے شعرا کم ہی ہیں۔انھوں نے ذاتی تجربات اور احساسات کی بنیاد پر زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ارشد شاہین صاحب کا یہ شعر اُن پر پورا اترتا ہے جو اُن کے لیے ہی کہا گیا ہے:
کہاں ہر اک کو میسر یہاں شعورِ غزل
غزل غرور تمہارا تھی، تم غرورِ غزل
جہاں تک شخصیت کا تعلق ہے میں نے ہمیشہ نہایت صاف گو اور پیار کرنے والی شخصیت پایا اور میری یہ خوش نصیبی رہی کہ ہمیشہ ان کا دستِ شفقت مجھے حاصل رہا۔
جنت نشیں لیاقت علی عاصم مرحوم
فراست رضوی
قطعہ تاریخِ وفات
شعر لکھنا بیانِ کم نظراں
نہیںآساں، لیاقتِ عاصم
تیری عظمت کو شہر میں نہ ملا
کوئی پرساں، لیاقتِ عاصم
ہر غزل تیری، دلکشی میں تھی
ہجر میں تیرے آنکھ ہے نمناک
دل ہے ویراں، لیاقتِ عاصم
تجھ کو ہر سو تلاش کرتی ہے
چشمِ گریاں، لیاقتِ عاصم
تو نے پیدا کیے تغزل میں
نئے امکاں، لیاقتِ عاصم
آج بھی تیری شاعری کا جمال
ہے فروزاں، لیاقتِ عاصم
کل بھی ہو گا ترا چراغِ سخن
’’نور افشاں، لیاقتِ عاصم‘‘
1440 ہجری
5 جولائی 2019ء
لیاقت علی عاصم
علائو الدین ہمدم خانزادہ