اس ہفتہ بھی سماجی اصلاح کا ایک پرچم اور بلند کیا سوشل میڈیا نے ، اس لیے بات شروع کریں گے اس بار بھی سوشل میڈیا کی بدولت ایک مثبت اصلاحی اقدام سے۔ایریل ڈٹرجنٹ کے متنازعہ ٹی وی اشتہار نے پاکستانی معاشرے کے ایک طبقہ میں کچھ ہلچل مچائی ۔بات یہ ہے کہ جب آپ ماس میڈیا پر کوئی چیز ڈالتے ہیں تو پھر آپ اس کی تعببیر، تشریح کسی خاص کے لیے نہیں کر سکتے ۔اس لیے اشتہار کے تمام تر مواد کو اسی تناظر میں پرکھتے ہوئے رد عمل دیاگیا۔اہل علم و دانش ، کچھ دینی طبقات نے عورتوں کی آزادی کے حوالے سے اس اشتہار میں چھپے ہوئے لیکن واضح پیغام کو نوٹ کیا اور ’بائیکاٹ ایریل‘ کے نعرے کے ساتھ متوجہ کیا۔سورۃ احزاب کی آیت33 کا حوالہ دے کر کئی پوسٹوں میں بتایا گیا کہ ’چار دیواری میں رہنا ‘اللہ کا حکم ہے ۔اتنے واضح حکم کے بعد پھر کیا تھا ، پہلے مرحلے پر تو دین دار طبقات ، نوجوان، مرد خواتین سب نے حصہ ملایا ۔جونہی ٹرینڈ لسٹ میں ہیش ٹیگ نمودار ہوا۔اگلے دو گھنٹے میں ایریل کی جانب سے اشتہار ہٹانے کے ساتھ معذرت بھی سامنے آگئی۔ بات یہ تھی کہ تواتر سے ایسا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کچھ عرصۃ قبل کیو موبائل کا ٹی وی اشتہار جس میں والدین کو ایک طرف کر کے خواتین کی ہر قسم کے فیصلے کی آزادی کو موضوع بنا کر دکھایا گیاتھا۔اس پر خاصی بات ہوئی ۔ اس کے بعد عورت مارچ کے ذریعے ایشوز کو اٹھایا گیاپھرحالیہ دنوں کریم ٹیکسی کا اشتہار ( شادی سے بھاگنا ہو تو کریم بلاؤ) اب ایریل کی جانب سے انہی سلوگن کے ساتھ صرف بیچنے کی کوشش کی گئی۔ایک جانب حالات سے متصادم یعنی پاکستانی معاشرے کی غلط تصویر قرار دیتے ہوئے یہ بھی بیانیہ تھا کہ ’’ایریل کے اشتہار پر اتنا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین ہر جگہ متحرک ہیں۔ بازار تو ان زنانہ خریداروں سے کھچاکھچ بھرے ہی ہیں، ان بازاروں میں سیلز گرلز، سیکیورٹی آفیسرز ، ویٹرسز، دکاندار بھی خواتین نظر آتی ہیں۔ ریستورانوں اور کھانے پینے کی جگہوں پر بھی خواتین بڑی تعداد میں بڑی خوش خوش موجود ہیں۔کئی میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں طالبات کا تناسب طلبہ سے زیادہ ہے۔اسپتال، دفاتر، سارا کا سارا میڈیا، پولیس ، فوج، پارلیمنٹ ، اسکول، کھیت کھلیان، بس ہوسٹس، کہاں خواتین نظر نہیں آتیں؟رنگ اور نور اور ‘‘ سو کالڈ انٹرٹنمنٹ’’ کی دنیا تو یہ عورت ہی کے دم سے چلا رہے ہیں۔فیکٹریوں، بازاروں اور دفاتر میں کم تنخواہ پر سستی ترین لیبر لے کر عورت سے بیگار بھی لیے جارہے ہیں۔اب اور کون سی چہاردیواری سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ اتنی چار دیواری تو بے چارے مرد کو بھی عطا کی گئی ہے۔کسی دن ذرا گھر سے نکلی عورت کے چہرے کی تھکن پر کوئی اشتہار ، فلم اور ڈرامہ بنائیں۔مگر یہ چار دیواری اور مشرقی روایات کے ظلم کے قصے سنا کر ہیرو بننے کے ڈرامے مغربی دنیا کے سامنے کامیاب ہوتے ہیں، جو اب بھی یہ سمجھ کر کہ فلاں ڈرامے کی اداکار اور فلاں ڈانسر پتا نہیں پاکستان کے کون سے زندان کی سلاخیں توڑ کر آج کروڑوں کما رہی ہے، واہ واہ کرتے ہیں۔ اور اس قسم کے لوگ سستی جذباتیت سے عوام کا استیصال کرتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اپنے معاشرے کو چڑیا گھر بنا کر پیش کرنے والے اب یہ گھسی پٹی کہانیاں اور جذباتی نعرے لگانا چھوڑیں اور کچھ نیا لائیں۔‘‘ دوسری جانب پاکستان میں خواتین کی سب سے بڑی سیاسی ونگ جماعت اسلامی خواتین کی جانب سے اس پریہ بیانیہ تھا کہ’’ایریل واشنگ پاؤڈر کے اشتہار نے حد درجہ مایوس کیا۔عورت کے گھر سے باہر نکل کر معاشرے کی بہتری میں حصہ ڈالنے اور معاشرے کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچانے پر کوئی اختلاف نہیں۔دین بھی حدود کے دائرے میں اسکی اجازت دیتا ہے مگر چاردیواری کو داغ کہہ کر ایریل نے اپنے چہرے کو داغدار کردیا ہے۔چار دیواری میں رہنے والی کروڑوں خواتین کی دل شکنی کی ہے۔چار دیواری میں رہنا داغ نہیں۔عورت کا اعزاز ہے کہ وہ نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔چار دیواری میں رہنا داغ نہیں بلکہ اپنے گھر اور بچوں کی رکھوالی ہے جو، ایک عورت کرتی ہے۔آج کی عورت چار دیواری کے تحفظ کے ساتھ بھی معاشرے کی خدمت کررہی ہے اور معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر بیٹھے اپنا حصہ ڈال رہی ہے جیسے کیٹرنگ،ہوم ٹیوشن،،بوتیک،آن لائن جابز وغیرہ یہ سب کام چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے انجام دیے جارہے ہیں۔بلکہ زیادہ احساس تحفظ ،سکون اور اعتماد کے ساتھ عورت کی صلاحیتیں نکھر کر استعمال ہورہی ہیں۔ چاردیواری داغ کیسے ہوسکتی ہے۔عورت کے چاردیواری میں رہنے کو داغ کہہ کر ان محترم خواتین کی توہین کی گئی جو برضا ورغبت کسی دباؤ کے بنا اپنے گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔جو عورت چار دیواری سے باہر کوئی مثبت اور معاشرے کی بہتری کے لیے حصہ ڈالنا چاہے وہ ضرور ڈالے اسکی قدر کرنا چاہئے۔مگر یاد رہے واپس،اسکو بھی اسی چار دیواری میں آنا ہوتا ہے جہاں اس کے بچے،والدین،شوہر ،بہن بھائی اور دیگر پیارے رشتے اسکی توجہ کے منتظر ہوتے ہیں۔تو چار دیواری داغ کیسے ہوسکتی ہے یہ تو پناہ گاہ ہے، تحفظ ہے، سکون ہے اعتماد ہے ایک عورت کا۔‘‘ عبد الباسط کی آئی ڈی سے کوئی 2300شیئرز کے ساتھ سب سے وائرل تبصرہ یہی تھا:’’ایریل کا ایک اشتہار میری نظر سے گزرا کیا میسج ہے آپ خود دیکھ سکتے ہیں تفصیل۔میں لکھ بھی دیتا ہو :ایریل ہو، کریم ہو،یا کوئی اور ملٹی نیشنل ہو ان کا مقصد ہی اسلامی روایات اور پاکستانی ثقافت کو مسخ کرنا ہے اس کا میسج دیکھیں اور فیصلہ فرمائیں ۔’’تم ایک لڑکی ہو۔پڑھ لیا اب گھر سنبھالو ۔لوگ کیا کہیں گے ۔چادر چاردیواری میں رہو ۔آخر میں میسج ۔یہ داغ ہمیں کیا روکیں گے ۔‘‘ذرا تصور کریں !ایک تصور دیا جارہا ہے کہ۔تم لڑکی نہیں ہو جو تم کو لڑکی سمجھتے ہیں وہ ظلم کرتے ہیں۔بھائی پھر یہ ہے کیا ؟ہمیں بھی بتاؤ۔لڑکی میری ماں کی صورت میری جنت ہے ،بیوی ہو گھر کی ملکہ،بہن ہو تو بھائیوں کی عزت، بیٹی ہو جنت جانے کا سبب ،یہ پھر اگر لڑکی نہیں ہو گی تو کیسے ممکن ہے۔بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ،،کون سمجھائے ’’داغ پارٹی‘‘کو۔جو عین فطرت ہے۔تجھے اس کو ماننے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔جس چادر کو سیدہ عائشہ لے تو اس کی عظمت پر جان نچھاور کرنا ایمان کی۔معراج ہو ، جس چادر کے تقدس کو میرا رب بحال کرے تمہیں اس سے نفرت ہے ،ارے یہ چاریواری نہیں یہ میری بیٹی بہن ،ماں کا جائے امان ہے جس کا پہرے دار ہر بیٹا ،بھائی ،اور باپ ہوتا ہے۔یہ چاردیواری اور چادر میرا نہیں میرے رب کا حکم اور میرے آقا منشا ہے اور صحابہ کا مشورہ ہے۔’’یہ داغ ہمیں کیا روکیں گے‘‘او پگلی !یہ داغ نہیں یہ تیرا فخر ہے،تیری زندگی ہے،تیرے باپ کی عفت ہے،تو کیوں ان سے بھاگتی ہے ذرا سوچئے!‘‘۔اسی اشتہار سے ملتی جلتی ایک اور ڈٹرجنٹ کی نقل ہمارے دوست صہیب جمال نے شیئر کر کے بتایا کہ اشتہار ایسے بھی ہو سکتا تھا جس میں ایک اسکارف لیے ہوئی ڈاکٹر کہہ رہی ہے کہ ’’ چاردیواری میں رہیں یا باہر۔ چادر میں داغ ہم سے دور ہوتے ہیں۔بات اتنی نہیں رہی ، سوشل میڈیا کے اس ری ایکشن پر روزنامہ ڈان نے پورا مضمون چھاپ دیا جس کی سرخی یوں تھی :
An Ariel ad about women’s empowerment is exposing misogynists on Twitterگویا واضح لکھا کہ ایریل کا اشتہار عورتوں کے حقوق کے لیے تھا اُس نے ٹوئٹر پرمردوں کے عورتوں پر احساس برتری کو ایکسپوز کر دیا۔اس پر سیکولر بیانیہ نے تضحیک اڑاتے ہوئے کہا ’’ایک واشنگ پاؤڈر مسلم دنیا کو تباہ کر دے گا ، کتنے اندھیرے میں جی رہے ہیں ہم ؟‘‘بہر حال دوسری جانب سے مسلسل یہ اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ سب تنقید ’مردانہ برتریت ‘ کی سوچ کی عکاس ہے ۔چونکہ ممکنہ کاروباری نقصان کے تحت اشتہار ہٹا لیا گیا اس لیے ہم بھی فی الحال بات یہیں ختم کرتے ہیں ۔
موسم کی گرمی اپنی جگہ لیکن باقی ملک میں کرکٹ ورلڈ کپ کی وجہ سے بھی ماحول میں گرما گرمی چھائی ہوئی ہے۔سیاسی پارہ بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے بلکہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔ مہنگائی ، بے روزگاری ودیگر مسائل اپنی جگہ لیکن خان صاحب کی مقبولیت کم نہیں ہو رہی نہ سوشل میڈیا میں اور نہ ہی عوام کے دلوں میں ۔کوئی دس ماہ بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کو احساس ہوا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ’سلیکٹڈ‘ نہیں پکارا جائے، الفاظ ہذف کرانے کے بجائے انہوں نے ایک معمو ل کی بات کو خود موضوع گفتگوبنا دیا۔مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کی عدم شرکت بڑا ہدف نہیں نکال سکی ، جس پر #ڈیفیکٹڈ اپوزیشن کا ٹرینڈ اگلے دن ہی 27ہزار ٹوئیٹس کے ساتھ سر فہرست رہا جس کے جواب میںاپوزیشن نے بھی #سلیکٹڈ ریلوکٹاکا ہیش ٹیگ متعارف کروایا اور خوب بھڑاس نکالی جاتی رہی۔اے پی سی میں بلاول اور مریم نواز کی تصاویر کو اخلاقیات کے دائرے سے نیچے لاکراستعمال کیا جاتا رہا، ویسے حکومتی حمایتی یوتھیو ں نے اس بار صرف تذلیلی بیانیہ استعمال کیا اور تصاویر کا استعمال کر کے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر (میمز کی صورت) کرپشن ، کرپشن، چور چور کی رٹ لگا تے رہے۔اسی طرح ڈالرکے مستقل اوپر جانے اور پاکستانی روپے کی قدر گرنے پر بھی اسی ہیش ٹیگ کے تحت حکومت کو شدید تنقید کیا نشانہ بنایاجاتارہا۔
بات کرتے ہیں کرکٹ کی جس میں پاکستان نے حسن اتفاق سے بالکل 1992کے تاریخی ورلڈ کپ مقابلوں کی ( ہا ر جیت والی)ترتیب قائم رکھی ہوئی ہے ۔یہ بات اور بھی شائقین کرکٹ کو پاکستان کی ممکنہ فتح کا یقین دلا رہی ہے ۔ نیوزی لینڈ بمقابلہ پاکستان کا میچ انتہائی فیصلہ کن اورسنسنی خیز بھی تھا۔ اس سے قبل ساؤتھ افریقہ کے مقابلے پر کیچ چھوڑنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کے باوجود اللہ نے فتح یاب کرایا اور کھیل کے میدان میں ملک کے نام کی عزت رکھ لی۔کپتان کی جماہی نے جو سوشل میڈیا پر معاملہ خراب کیا تھا اگلے دونوں میچوں میں دنیا بھر سے اہل پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والوں نے خوب خراج تحسین پیش کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا ا ورپھر پاکستان کے ساتھ ورلڈ ٹرینڈ لسٹ میں بھی PakvNZکئی گھنٹوں کے لیے نمودار ہوا۔ورلڈ کپ مقابلوں میں اب تک ناقابل شکست رہنے والی نیو زی لینڈ کی ٹیم سے فتح کے بعدcongratulations , TemaPakistan, WestandwithSarfaraz, WehaveWewill, Hafeez, BabarAzam,SarfarazAhmed, ShaheenAfridi, HarisSohailبھی ٹرینڈ لسٹ پر چھائے رہے۔لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ،’’سرفراز کی بیوی کا رو رو کر برا حال ہو گیاہے۔کہتی ہے اگر سب کچھ 1992 کے مطابق ہوا تو میرے شوہر کی تین شادیاں پکی ۔‘‘ وزیر اعظم تو اپنی جگہ لیکن امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے بھی خوشی کااظہار خیال کیا گیاکہ ’’پاکستان کرکٹ ٹیم کو شاندار کھیل پیش کرنے اور اہم میچ جیتنے پر مبارکباد۔ بابراعظم، حارث سہیل، شاہین آفریدی نے بالخصوص بہترین کارکردگی دکھائی۔ اگلے تمام میچ جیتنے کیلیے قوم کی دعائیں ٹیم کے ساتھ ہیں۔‘‘اتفاق سے اسی جیت کے جشن کے دوران بھارتی کرکٹر روہت شرما کی جانب سے ٹوئٹر گیفGaffe ( یعنی غیر ارادی غلطی)نے دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر ان کی گت بنا دی۔یہ ٹھیک ہے کہ پاک بھارت کرکٹ میچوں میں اکثریت میچ بھارت نے ہی جیتے ہیں لیکن پاکستان نے جو چند میچ جیتے وہ اپنی ایک آن بان شان رکھتے ہیں ، جیسا کہ شارجہ کپ میں جاوید میانداد کا یادگار فاتح چھکایا چیمپئنز ٹرافی 2017کی تاریخی فتح ۔اب ہوا یہ کہ معروف بھارتی کرکٹر روہت شرما نے 2013میں انگلینڈ سے مقابلے میں جیتی گئی چیمپئن ٹرافی کی تصویر2017کے کیپشن کے ساتھ لگا دی۔آپ کو تو پتا ہوگا کہ شائقین کرکٹ وہ بھی سوشل میڈیا والے وہ بھی بھارت کے شائقین ،جنکی یادداشت خود کرکٹرز سے بھی تیز ہوتی ہے ۔ یہ غلطی ہوئی اور نیچے (ٹرولنگ)شروع ہو گئی ۔شائقین کرکٹ نے سوشل میڈیا پر اپنے اسٹار کرکٹر کی غلطی پر ان کو چھٹی کا دودھ یا ددلا دیا ، یہاں تک کہ انہوں نے ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر کے تصحیح بھی کر لی لیکن ان کاپیچھا نہیں چھوڑا گیا۔اگلے دن تمام اخبارات میں ویب سائٹس پر اُن کی اس غلطی پر پورا پورا ہاتھ صاف کیا گیا تھا۔