سیمان کی ڈائری
ڈاکٹر نثار احمدنثار کا تعلق کراچی کے اس دبستان سے ہے جہاں محترم رسا چغتائی،محترم شاہدالوری،صہبااختر، جمال احسانی،جوہرسعید، خالد علیگ،ساجد امجد،عارف امام اورسلیم کوثرجیسے بڑے شعرا نے زندگی گزاری ۔ ان میں عارف امام جو اب امریکا میں جا بسے ،سلیم کوثرلانڈھی میں اوریہ دونوں صاحبان حیات ہیں۔ کورنگی کے اس دبستان کا اپنے زمانے میں اردو شاعری میں اہم کردار اورمقام رہا ہے اور ان کے بعد بھی آنے والوں نے اس دبستان کی آبیاری کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
ڈاکٹر نثار احمد تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے ۔اس سے قبل اُن کا ایک نعت کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ان سے میری ملاقات اجمل سراج بھائی کے توسط انھی کی ایک ادبی تنظیم بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام ایک مشاعرے میں اور بہ طور کالم نگار ان سے ملاقات جسارت کے آفس میں ہوئی،جب جسارت اخبارکا دفتر آئی ۔آئی چندری گڑھ روڈپر واقع تھا۔ وہاں اجمل سراج بھائی نے بتایا کہ نثار صاحب اب ہمارے ہاں کالم بھی لکھا کریں گے۔ اس کے بعد ہماری ملاقاتوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا ۔متعدد مشاعروںمیں کبھی ہم نے تو کبھی نثار صاحب نے ہمیں مدعو کیا۔ پچھلے دنوں نثار بھائی کا فون آیا ہے کہ میرا شعری مجموعہ’’آئنوں کے درمیان‘‘ شائع ہوچکا ہے اوربیس جون کو کتاب کی تقریب رونمائی ہے ، آپ نے لازمی شرکت کرنی ہے۔ چنانچہ مقررہ وقت پرمَیں آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں پہنچا جہاں اکثرو بیشتر ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ اس وسیع و عریض ہال کے بجائے کتاب کی تقریب نیچے ہی ہوتی ۔ ایک تو یہ کہ لوگ ادبی تقریبات میں بہت کم ہی شرکت کرتے ہیں اور بالائی منزل پر ہونے کی وجہ سے بہت سے ادیب ،شاعر نیچے ہی گل رنگ میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ میرا خیال اس تقریب کے حوالے سے غلط ثابت ہوا۔تقریب ابھی شروع نہیں ہوئی تھی لیکن ہال میں موجود افراد سے اندازہ ہوا کہ کرسیاں کم پڑ سکتی ہیں۔ نہ آنے والوں کا سلسلہ رکا اور نہ کرسیوں میں کوئی کمی تھی۔یہ اس تقریب کا پہلا وہ مثبت اور کامیاب تاثر تھا کہ اس سے پہلے سوائے اردو کانفرنس کے میں نے کم از کم کہیں اور کسی تقریب میں نہیں دیکھاتھاکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوں۔
آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی(شعروسخن ) کے زیر اہتمام ’’آئنوں کے درمیان‘‘ کی تقریبِ اجرا کی صدارت قابلِ احترام جناب پیر زادہ قاسم رضا صدیقی صاحب نے کی جبکہ مہمان خصوصی پروفیسر انوار احمد زئی تھے۔اظہارِ خیال میں ڈاکٹر رخسانہ صبا،اجمل سراج اور ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر صاحبہ موجود تھیں۔ اختر سعیدی صاحب نے منظوم پیش کیا۔ تقریب کی نظامت سلمان صدیقی نے کی ۔تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد تقریب باقاعدہ شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ناظمِ تقریب سلمان صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نثار احمد نثار محبتوں کے آدمی ہیں۔وضع داری ان کی سرشت میں شامل ہے۔ اُن کے بعد چیئرپرسن ادبی کمیٹی(شعروسخن) آرٹس کونسل ڈاکٹرعنبرین حسیب عنبرنے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ نثار احمد صاحب نے اپنی محنت سے لمبا سفر طے کیا ہے اور اپنے پیروں کی رفتار سے اِس مقام تک پہنچے۔نئے لکھنے والوں میں اسٹریٹ لینگویج کا استعمال نظر آتا ہے لیکن نثار صاحب نے اپنی شاعری میں نیاذائقہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے ایسی زندگی گزاری جس میں انھیں کوئی پچھتاوا نہیں۔اُن کی شاعری میں کوئی تلخی نظر نہیں آتی بلکہ ان کی شاعری پڑھنے کواکساتی ہے۔اتنی اچھی کتاب کی تقریب سے آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کی قدروقیمت اَور بڑھ گئی ہے۔ محترمہ ڈاکٹر رخسانہ صبانے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ نثار احمد نثار نے اپنے عالمِ تغیر میں گم ہو کر اشعار کہے ہیں۔ان کی غزلوں میں آئنے کا استعمال روایت کا اثر ہے۔اس مجموعے کی غزلیں دبستان کراچی سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔معروف شاعراجمل سراج نے کہا کہ نثار صاحب سے میرا تعلق ایسا ہے کہ ممکن ہی نہیں تھا کہ میں ان کی تقریب میںنہ آتا۔عنبرین حسیب عنبر نے نثار کی شاعری کے حوالے سے جو باتیں کیں ہیں مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بات رہ گئی ہو۔نثاراحمد نثاربہت قابل قدر آدمی ہیں۔خال خال ہی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اندر باہر ایک سے ہوں۔ اپنی اہلیہ سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سے جڑی ہوئی ایک ایک چیز کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ان کی شاعری بالکل اُن کی شخصیت جیسی ہے۔اپنی تکمیل،تشکیل ،ترتیب نثار صاحب نے خود کی۔تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر انوار زئی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب کا اگر کوئی سرنامہ ہو سکتا ہے تو وہ سچائی کی یکجائی ہے ۔ہر زباں انھیں خراج تحسین پیش کررہی ہے۔صاحب صدر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا کہ آج کی تقریب بڑے بڑے ادبی اجتماعات پر بھاری ہے۔ تقریب میں شعر کی پرکھ رکھنے والے موجود ہیں۔ انھوں نے کہاکسی بھی تخلیق کار کے پاس لفظوں کاا تنا ہی ذخیرہ ہوتا ہے جتنا کسی دوسرے کے پاس لیکن نشست و برخاست،تخلیق کاری کے عمل سے گزرتے ہوئے بیان کرنے میںاس میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔اسٹیٹمنٹ نہیں ہوتی۔جہاں نثر میں بات نہ کی جاسکے وہاں شاعری کی ضرورت پیش آتی ہے۔نثار احمد کے ہاں اجزائے ترکیبی روایتی ہیں۔ ان کے ہاں فکری مہاجرت ہے اوروہ تازہ کاری کی لہر اس میں ہر دم بیدار رکھتے ہیں۔انھوں نے ہوش مندی کے ساتھ زندگی کے اصلی خدو خال کی عکس بندی کی ہے۔’’آئنوں کے درمیان‘‘ میں سب سے پہلے انھوں نے ترتیب ذات کی پھر ان کے درمیان نئے منظر نامے پیش کیے۔نثار صاحب کی کتاب دیر سے چھپی۔ان کی شاعری پڑھ کر کیف محسوس ہوتا ہے۔ان سے قبل نثار احمد نثار نے اپنے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں کہ میں کیا لکھ رہا ہوں ۔اس کا فیصلہ قارئین کریں گے۔ آج کی اس تقریب میں مقررین کا شکر گزار ہوں۔حاضرین محفل اور ادبی تنظیمیوں نے مجھے پھول پیش کیے میری حوصلہ افزائی کی ۔مختصر گفتگو کے بعد انھوں نے اپنے اشعار سنائے ۔اسی دوران ہماری سب کی جانی پہچانی شخصیت بزمِ شعروسخن کے صدر طارق جمیل نے ڈاکٹرنثار احمد نثار کی پچاس کتابیں خریدنے کا اعلان کیا۔
بلاشبہ ڈاکٹر نثار احمد نثار کی کتاب ’’آئنوں کے درمیان‘‘کی تقریب اجرا ایک کامیاب اور یادگار تقریب تھی۔اس سے قبل بھی بہت سی ادبی تقاریب منعقد ہوتی رہی ہیں جیسے ہمارے دوست جناب شرجیل شہزاد صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ،اسی ہال میں ان کے ساتھ بھی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن شرکا کی تعداد دیکھ کر نہایت دکھ ہوا۔بہر حال یہ افسوس ناک صورت حال تو ہے ۔اگر ہم ادب سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی مصروفیت سے کچھ وقت کسی تقریب میں بیٹھ کر صرف کریں تو کوئی ہرج نہیں۔ ایک توجس شاعرادیب کی تقریب ہوتی ہے اس کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے دوسرا مقررین کی گفتگو سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔
ایک بات اورجو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ میڈیا سیل یاجو بھی تقریبات کی رپورٹنگ کرتا ہے اسے تقریب میں موجود ہونا چاہیے۔ تاکہ اس تقریب کی صحیح روداد پریس ریلیز کے ذریعے متعلقین کو موصول ہو کیوں کہ یہ رپورٹ یا رودادمحض خبر نہیں ہوتی،اس تقریب کی لفظی عکاس ہوتی ہے جو اپنے عہدکی دستاویز بنتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرٹس کونسل کراچی میں مختلف فنون سے تعلق رکھنے والی کمیٹیاں اپنا کام نہایت محنت اور لگن سے کرتی ہیں۔ان کمیٹیوں کے عہدیداران کو اس طرف بھی نظر کرنی چاہیے۔
روح فرسا ہے میری تنہائی
بعد میرے مرا زمانہ ہے
نظام امینی