نعیم الرحمن
نامور ادیب، افسانہ نگار، محقق اور دانش ور سید قاسم محمود نے 1970ء کی دہائی میں ’’شاہکار‘‘ کے ذریعے اردوکی اشاعتی دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا۔ شاہکار نے اردو میں جریدی کتب کا اجرا کیا اور دنیا بھر کی بہترین ادبی کتب انتہائی ارزاں قیمتوں پر شائع کرکے مطالعے کے شوق کو عام کیا۔ انہوں نے مختار مسعود کی ’’آواز ِدوست‘‘، ابن انشا کے سفرنامے، ایرچ سیگل کے عالمی شہرت یافتہ ناول ’’لو اسٹوری اور اولیور اسٹوری‘‘، ابوالحسن اصفہانی کی ’’قائداعظم میری نظر میں‘‘ جیسی بے شمارکتابیں جریدی شکل میں شائع کیں۔کئی قسط وار انسائیکلوپیڈیا بھی کم قیمت جریدی صورت میں اشاعت پذیرہوئے۔ شاہکار کی مقبولیت کے بعد یہ کتب پاکٹ بکس، پیپر بیک، حتیٰ کہ اخباری صورت میں بھی شائع کیں۔ شاہکار کتب کی مقبولیت کے بعد کئی اور پبلشرز نے بھی جریدی کتب کی اشاعت شروع کی جو قارئین کو دو سے دس روپے تک میسر آنے لگیں۔ سید قاسم محمود کے مرتب کردہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا، انسائیکلوپیڈیا سائنس اور کئی موضوعات پر انسائیکلو پیڈیا اب تک مختلف پبلشر شائع کررہے ہیں۔ سید قاسم محمود نے قرآن کریم کے تیس پارے ’’علم القرآن‘‘ کے عنوان سے شائع کیے جس میں علامہ عبداللہ یوسف کا انگریزی ترجمہ، مولانا فتح محمد جالندھری کا اردو ترجمہ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ترجمہ اور تفاسیرکا مختصر انتخاب شامل کیا گیا۔ صحیح بخاری کو بھی اسی انداز میں’’علم الحدیث‘‘ کے نام سے مرتب کررہے تھے، جو بوجوہ مکمل نہ ہوسکا۔
انجینئر راشد اشرف نے شاہکارکی اشاعت کے نصف صدی بعد ’’زندہ کتابیں‘‘ کے زیرِ عنوان اردو کی نایاب اور شاہکار کتب کی اشاعت کا ڈول ڈالا۔ ابتدا میں زندہ کتابیں پیپر بیک پر شائع کی گئیں، لیکن پھر رفتہ رفتہ مزید ساتھی راشد اشرف کے ساتھ شامل ہونے لگے اور ان کی کتب اعلیٰ کاغذ پرمجلّد شائع ہونے لگیں، لیکن ان کی قیمت انتہائی کم ہی رہی۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں زندہ کتابیں کے تحت پانچ انتہائی شاندار کتابیں منظرِعام پرآئیں جن میں سید انیس شاہ جیلانی کی خاکوں پر مبنی دو کتب ایک ہی جلد میں ’’آدمی غنیمت ہے‘‘ اور ’’آدمی آدمی انتر‘‘ کے نام سے شائع کی گئیں۔ ادیب، صحافی اور براڈ کاسٹر اخلاق احمد دہلوی کی خاکوںکی تین کتب ایک ہی جلد میں ’’اور پھر بیاں اپنا، پھر وہی بیاں اپنا اور میرابیان‘‘ شائع ہوئیں۔ مشہور صحافی مولوی محمد سعید کی آپ بیتی ’’آہنگ بازگشت‘‘، صوفیہ انجم تاج کی خودنوشت ’’یادوں کی دستک‘‘، اور نامور صحافی مجاہد بریلوی کی حبیب جالب کے بارے میں کتاب ’’جالب جالب‘‘ شائع ہوئیں۔ زندہ کتابیں بہت تیزی سے نصف سنچری مکمل کرنے کی جانب رواں ہے۔ دورِحاضر میں اردو ادب کی اس سے بہتر خدمت اور فروغِ مطالعہ کی کوشش کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ۔
مولوی محمد سعید کی آپ بیتی ’’آہنگ بازگشت‘‘ بلاشبہ اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں شامل کی جاسکتی ہے۔ دورانِ مطالعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسی تحریر پڑھ رہے ہیں جس کا اثر دیرپا ہے۔ یہ کتاب ایک سے زائد مرتبہ پڑھنے کے قابل ہے۔ ہر مرتبہ کوئی نیا پہلو قاری کے سامنے آشکار ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں، سادہ اور پرکار۔ بات اختصار سے کہی گئی ہے مگر قاری کے دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے، پاکستان کی تاریخ، صحافت کی تاریخ۔ مصنف نے اپنے دلکش اندازِ تحریر سے ایک جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ مولوی محمد سعیدکا اسلوب ہے۔ 510 صفحات کی بہترین کاغذ پر شائع مجلّد کتاب کو فضلی بک اردو بازار کراچی نے شائع کیا ہے اور اس کی پانچ سو روپے قیمت موجودہ دور میں انتہائی کم ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ طویل مدت بعدکوئی کتاب ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی ہے۔
مولوی محمد سعید معتبر صحافی، انگریزی اور اردوکے ادیب، تحریک احرار اور خاکسار کے رکن بھی رہے۔ وہ پاکستان ٹائمز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی تھے۔ اس کے علاوہ معاصر ڈان و دیگراخبارات سے بھی وابستہ رہے۔ وہ 23 اکتوبر1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 8 ستمبر1990ء کو اسلام آباد میں انتقال کیا۔ مولوی محمد سعید کی پنجابی زبان میں لکھی قرآن کریم کی تفسیر پسِ مرگ شائع ہوئی۔ ان کی خودنوشت کو پڑھ کر ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا قیام کیوں ناگزیر تھا۔ سعید صاحب نے جس طرح ان عوامل کا تجزیہ کیا ہے شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ یاد رکھیے، پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ مگر اس ملک کو نوچ کر کھانے والوں کا کڑا احتساب انتہائی ضروری ہے۔ ادھر موجود کمزور قانون میں نرم سزاؤں کو سخت کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہوگا تو پھر یاد رکھیے قدرت بھی ہماری مدد نہیں کرے گی۔
آپ بیتی میں بہت سے ایسے حقائق محمد سعید صاحب نے بیان کیے ہیں جو بطور صحافی اُن کے علم میں آئے اور جن سے کتاب کی دل چسپی صفحہ اوّل سے آخر تک قائم رہتی ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری اردو کے نامور شاعر اور براڈ کاسٹر تھے، اُن کے حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ سعید صاحب نے لکھا ہے: ’’حفیظ کا کلام بڑے احترام سے سُناجاتا۔ غزل بڑی بے پناہ کہتے۔ اُن کا اسلوبِ گفتگو جو دھیما اور درد بھرا تھا، جب غزل میں ڈھلتا تو اکثر سہل ممتنع ہوجاتا۔ اُنہوں نے ترکِ محبت کے موضوع کو کئی رنگوں میں پیش کیا، اور ہر بار احباب سے خوب داد پائی ہے۔ ایک روز ایک غزل پڑھ رہے تھے، اشعار میں جب دو تین بار ’’جانِ تمنا‘‘ آیا تو مسکرا کے کہنے لگے: حضرات کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیے گا۔ میں نے عرض کیا: ایسا کوئی اندیشہ نہیں۔ غلط فہمی تو جب ہوگی جب جان ِ تمنا کے بجائے تمنا جان سُنیں گے۔ حفیظ ہوشیارپوری کو تاریخ کہنے میں کمال حاصل تھا۔ وہ قریب قریب چھ ماہ ہمارے ہاں ٹھیرے۔ ایک روزکہنے لگے کہ مولوی عبدالحق سے ملنے گیا تھا، وہ گھر پر نہیں تھے۔ دوجملوں کا رقعہ چھوڑ آیا ہوں، لیکن دل چسپ بات یہ ہوئی کہ رقعہ لکھنے کے بعد سوچا ذرا اس کے اعداد تو شمارکروں۔ دیکھا کہ دونوں جملوں سے اس روزکی تاریخ نکلتی تھی۔‘‘
اردو ادب کے قارئین کے لیے عطیہ فیضی کا نام انجانا نہیں ہے۔ علامہ اقبال اور شبلی نعمانی کے علاوہ دیگر کئی ادیب و شعرا سے اُن کی وابستگی کی داستانیں مشہور ہیں، لکھتے ہیں: ’’ایک صبح غلام حسین تھاور کی طرف سے پیغام آیا کہ کوئی آپ سے ملنا چاہتا ہے، میری طرف ہی آجائیے۔ میں اُن کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا ایک خاتون بیٹھی ہیں۔ سر پر رومال، چہرہ جھریوں کی وجہ سے شکن در شکن، کندھے جھکے ہوئے۔ اُس نے یک لخت دو ایسی متحرک آنکھیں، جو کبھی آفت کی پرکالہ رہ چکی ہوں گی، مجھ پرجما دیں اور پکاریں’’اُف یہ خوف ناک داڑھی‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’محترمہ! یہ پہلی داڑھی نہیں جس سے آپ کو سابقہ پڑا ہو‘‘۔ جملہ سُنتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، یہاں تک کہ کانوں کی مرجھائی ہوئی لویں تک تمتما اٹھیں۔ ہر جھری رگِ جاں بن گئی۔ تھاور نے یہ کیفیت دیکھی تو پوچھنے لگے آپ انہیں جانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ میں اُنہیں جانتا ہوں مطمئن رہیے، تعارف ہوچکا ہے۔‘‘
ڈان اخبارکے بارے میں محمد سعید صاحب نے ایک ایسا انکشاف کیا ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے: ’’ڈان جب چل نکلا اور اس کی سیاسی حیثیت مسلّم ہوگئی تو ہیرالڈ پبلی کیشنز نے جو دلّی سے ڈان کے کراچی آجانے کے بعد اس اخبارکے مالک بنے، یہ چاہا کہ اس کا نام بدل کر ’’ہیرالڈ‘‘ رکھ دیا جائے۔ ڈان اگرچہ عالمی صحافت میں خاصا معروف ہوچکا تھا تاہم ان کا خیال تھا کہ اس تعارف اور شہرت کو نئے نام پر قربان کیا جاسکتا ہے تاکہ جہاں تک حقِ ملکیت کا تعلق ہے ڈان کو ماضی سے لاتعلق کیا جاسکے۔ نام بدلنے کا منصوبہ گو خفیہ رکھا گیا تھا، پھر بھی مخصوص حلقوں میں یہ راز برملا گردش کرنے لگا تھا۔ جس رات اُسے عملی جامہ پہنانا مقصود تھا، ریڈیو پاکستان میں ایک مشاعرہ منعقد ہورہا تھا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ رازطشت ازبام ہوچکا ہے۔ جہاں ہم بیٹھے تھے اُس سے اگلی صف میں ڈاکٹر تاثیر بیٹھے تھے۔ ہمیں دیکھا تو کہنے لگے ’’اگر ایسا کیا تو بہت برا کرو گے۔ یہ نام نہیں مٹنا چاہیے‘‘۔ لیکن اخبار کے دفتر میں جذبات کی حلاوتوں یا تلخیوںکے لیے رکنا محال ہے۔ چناں چہ ورکس منیجر مسٹر ڈرائیر نے آکے کہا آخری صفحہ تیار ہے۔ اخبار کے کارخانے میں آخری صفحہ پہلا صفحہ ہوتا ہے اور یہی وقت نام بدلنے کا تھا۔ الطاف آگئے۔ ڈرائیر نے اسے کس کسا کر مشین پر ڈال دیا اور پھر اپنی جیب سے تانبے کی تختی نکال کر جما دی جس پر ’’ہیرالڈ‘‘ کندہ تھا۔ اخباردھڑا دھڑ چھپنے لگا اور ڈان صبح صادق کے پھیلتے اجالے میں ڈوب گیا۔ برابر والے کمرے میں اردو ڈان کا نام ہیرالڈ کی رعایت سے ’’نقیب‘‘ رکھا جا چکا تھا۔ نام کی تبدیلی نے کراچی کے سیاسی حلقوں میں ہارون برادرزکے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔ لوگوں نے اُن کی حرکت کو تجارتی منفعت کے علاوہ قائداعظم کے نام کو مٹانے کی سازش قرار دیا۔ ہیرالڈ کا ایک اور پرچہ نکلا اور یہ مسئلہ اخباروں کے کالموں سے نکل کر سیاسی پلیٹ فارم پر آگیا۔ الطاف صاحب گھبرا اٹھے۔ اس سے اگلا پرچہ پھر ڈان تھا اور اُس کے پہلے صفحے پر اُن کا اعلان تھا کہ ’’میں قوم کو اُن کا ڈان واپس دیتا ہوں‘‘۔ محترمہ فاطمہ جناح نے طنز میں ڈوبا بیان دیا کہ ’’الطاف بڑے کرم خسروانہ سے وہ شے قوم کو واپس لوٹا رہے ہیں جو اُن کی نہیں۔‘‘
ایسے بے حد دل چسپ اور چشم کشا حقائق کتاب کے ہر صفحے پر موجود ہیں۔ اقتدار کی اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’بالآخر غلام محمد کی باری بھی آگئی۔ 6 اگست 1955ء کو انہیں بیماری کے بہانے رخصت کیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس کے عالی شان محل کی آخری سیڑھی اُن کے لیے قبر کا پہلا زینہ ثابت ہوئی۔ چند ہی دنوں بعد گنتی کے کچھ لوگ غمگین و جنازہ بردوش ایک غیر معروف قبرستان کو جاتے دیکھے گئے۔ یہ غلام محمد کا آخری سفر تھا۔ غلام محمد رخصت ہوئے تو اسکندر مرزا آئے۔ ایک ماہ بعد اسکندر مرزا کی حلف برداری کی تقریب میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ اتفاق سے اُن دنوں الطاف، سلہری اور میر خلیل الرحمن تینوں ملک سے باہر تھے۔ ان کے نیوز ایڈیٹرز اُن کی نمائندگی کررہے تھے۔ برآمدے میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ اُن میں سے اکثر ہمارے ایڈیٹرز کی خیریت پوچھ رہے تھے۔ اسی خیریت طلبی میں ایک آواز یوں بھی سنائی دی کہ ’’جب سے ایڈیٹر باہر گئے ہیں، اخبار بہتر ہوگئے ہیں‘‘۔ بات دراصل یوں تھی کہ ہم میں جرأت اور جانب داری دونوں کا فقدان تھا۔ ہر لَے دھیمے سُروں میں اُٹھائی جارہی تھی۔‘‘
صحافتی دنیا کے کتنے حقائق اس ایک جملے ’جرأت اورجانب داری کی کمی‘ میں شامل ہیں۔ یہ سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک اور اقتباس دیکھیں: ’’چودھری محمد علی 13 ماہ وزیراعظم رہے۔ ملک کودستور بھی دیا اور نظم و نسق بھی، لیکن اس کے باوجود وہ جلد ہی اپنی جماعت میں غیر مقبول ہوگئے۔ بہرکیف چودھری محمد علی ایک دستور بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کارنامہ واقعی قابلِ داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم دس برس سے نکلی ہوئی تھی وہ اُن کے عہد میں دستیاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ دستور ایک کشتی میں سجا کر اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔ انہوں نے دستخط کردیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن اُن کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے توکراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہرکی دیواریں پکار اُٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔ یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروںکی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاجداروں سے جو جگہ بچ گئی وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کرلی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ’ظل اللہ‘ کی منتظر ہے۔‘‘
ایسے ہی حقائق اور انکشافات سے بھرپور ’’آہنگ بازگشت‘‘ انتہائی دل چسپ آپ بیتی ہے، جسے شروع کرنے والا قاری چھوڑ نہیں سکتا۔