بی بی سی رپورٹ
برصغیر میں گرمی پڑنا شروع ہوگئی ہے اور بعض علاقوں میں اس کی شدت بہت زیادہ ہے۔ انڈیا کے مرکزی علاقے سمیت شمالی خطے اور پاکستان کے چند شہروں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انڈیا میں گرم ترین شہر چُورُو قرار پایا ہے جہاں محکمہ موسمیات نے گزشتہ اتوار درجہ حرارت 50.8 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا ہے۔
لیکن اتنی شدید گرمی کے باوجود وہاں زندگی کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور گلیوں میں خوانچے لگانے والے، ٹریفک پولیس، رکشا ڈرائیور وغیرہ جن کے پاس باہر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، یہ سب معمول کے مطابق کام کرتے رہے۔
بعض دیہی علاقوں میں مرد اور عورتیں کم از کم اتنا کام کرنے پر مجبور ہیں جس سے ان کو ضرورت کی غذا اور پانی ملتا رہے۔ یہاں تک کہ جن افراد کے پاس اپنے گھروں کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی انتظام نہیں، انھیں گھر کے اندر بھی راحت میسر نہیں تھی۔ اب اس شدید گرمی کے اثرات صاف نظر آرہے ہیں۔
لُو سے واقع ہونے والی اموات کی اطلاعات انڈیا بھر سے آرہی ہیں، تاہم ان کی تعداد میں تضاد ہے۔ ان میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شامل ہیں۔ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ آسمان میں پرندے بھی جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے پرواز کرتے کرتے زمین پر گر پڑے۔
خاموش قاتل
2018ء میں دنیا بھر کے ممالک میں موسمِ گرما میں بہت زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ان میں کچھ مقامات پر تو وہاں کے اوسط سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مثال کے طور پر برطانیہ، ناروے، سویڈن، مشرقی کینیڈا، مشرقی سائیبیریا کے کچھ علاقے، جاپان اور بحیرۂ کیسپین کے علاقوں میں درجہ حرارت ان علاقوں کے اوسط درجہ حرارت سے زیادہ تھا۔
ان میں سے صرف جاپان نے ہزاروں لوگوں کے متاثر ہونے کے بعد گرمی کی اس لہر کو قدرتی آفت قرار دیا تھا، تاہم دیگر ممالک میں شدید گرمی ایک خاموش قاتل ہے۔
اگر آپ سیلاب، طوفان یا زلزلے جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوں تو اس کا اثر فوری طور پر نظر آتا ہے۔ آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی موسمیاتی تبدیلی کے علوم کی ماہر سارا پرکِن کِرک پیٹرک کہتی ہیں کہ ’’چیزیں بہہ جاتی ہیں، لوگ ڈوب جاتے ہیں، لیکن گرمی کی لہر (یا لُو) ایک خاموش قاتل بن جاتی ہے۔‘‘
گرمی کے برے اثرات پر تحقیقی کتاب لکھنے والے مصنف جِسنگ پارک کہتے ہیں کہ ’’اب ہر برس امیر ممالک میں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ (گرمی کی شدت سے) ہلاک ہورہے ہیں۔‘‘
ماضی میں یورپ اور امریکا جیسے ممالک میں بھی گرمی کی لہروں سے کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن ہلاکتوں کی تعداد غریب ممالک میں کئی گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
ایسا ہی انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک میں ہورہا ہے جہاں لُو کا چلنا ایک معمول ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ لُو کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے دعوے پر کوئی یقین نہیں کرتا۔
امریکی تحقیقی ادارے ’رینڈ‘ کے گلریز شاہ اظہر کا کہنا ہے کہ ’’اگلی چند دہائیوں میں اگر صنعتوں سے گرم ہواؤں کا اخراج جاری رہتا ہے تو جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہر میں اس حد تک اضافے کا امکان ہے جو کہ انسان کی برداشت سے بہت زیادہ ہوگی۔‘‘
لُو کے متاثرین
اس وقت کئی اور ممالک میں بھی لُو کو قدرتی آفت نہیں قرار دیا جاتا۔ یہ ایک ہوا کی طرح چلتی ہے اور اس کی تباہی زیادہ نظر نہیں آتی۔
اگر آپ کے گھر میں یا آپ کی گاڑی میں ائرکنڈیشنر لگا ہوا ہے تو شاید آپ کے دل میں اس خطرناک لُو کے متاثرین سے زیادہ ہمدردی پیدا نہ ہو۔
کئی تحقیقی مقالوں میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی ایسی لہر جسمانی صحت اور دیگر معاملات کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ لُو کی وجہ سے طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دفتروں کے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ غریب اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو اپنے حالات سے نمٹنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سائنس دان اور ٹیک کمپنیز بہتر اور مؤثر قسم کے ائرکنڈیشنر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
گلریز اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ماریہ طوفان کی مثال دیتے ہیں جو 2017ء میں ستمبر کے مہینے میں پورٹوریکو کے جزیرے سے ٹکرایا تھا۔
اس طوفان کی تباہی کے کچھ عرصے بعد حکومت نے تسلیم کیا کہ 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد پہلے کی سرکاری تعداد سے بیس گنا زیادہ تھی۔
اس میں ہلاک ہونے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو جراثیم کی وجہ سے ہلاک ہوئے، علاج کی سہولتیں نہ ہونے سے مرے، اور وہ بھی جنھوں نے خودکشیاں کیں۔
گلریز شاہ کا کہنا ہے کہ ’’جب لُو چلتی ہے تو صرف انھی اموات کو گنا جاتا ہے جو براہِ راست گرم ہواؤں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس گنتی سے تباہی کی صحیح تصویر نظر نہیں آتی۔
اگر کوئی بوڑھا شخص دل کے کسی مرض کی وجہ سے گرمی میں ہلاک ہوجاتا ہے تو سرکاری اعداد و شمار میں اسے عموماً دل کے مرض سے ہلاک ہونے والے اشخاص کی فہرست میں درج کیا جائے گا۔ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ اس کی موت کی وجہ گرم ہوا بنی ہو۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ بہر حال اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اموات کو کس طرح گنتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 2003ء میں گرمی کی لہر سے یورپ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں اب بھی ایک تنازع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ کچھ دیگر اندازوں کے مطابق ستّر ہزار افراد موت کا شکار ہوئے تھے۔
موسمیاتی تبدیلی کے مطابق طرزِ زندگی بدلنا
لُو کے خطرات سے بچنے کے لیے ائرکنڈیشنر کا استعمال تو سب کے علم میں ہے۔ سنگاپور کے سابق وزیر اعظم لی کوان یو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ائرکنڈیشنر کا ان کے ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ہے۔
’’ائرکنڈیشنر انسانی تاریخ کی ایک کلیدی ایجاد ہے۔ اس کے بغیر گرم مرطوب علاقوں میں ترقی ناممکن ہوتی۔ وزیراعظم بننے کے بعد جو چیز میں نے سب سے پہلے کی تھی وہ یہ تھی کہ جن عمارتوں میں دفتری کام ہوتے تھے ان میں ائرکنڈیشنرز لگوائے۔‘‘
لیکن اس میں ایک تلخ حقیقت بھی ہے، وہ یہ کہ آپ عمارتوں کو اندر سے ٹھنڈا کرنے کے لیے عمارتوں کے باہر گرمی پیدا کرتے ہیں۔ پھر ائرکنڈیشنر چلانے کے لیے جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ بھی گیس یا کوئلہ جلانے سے بنتی ہے۔ پھر ائرکنڈیشنر چلانے میں جو سردی پیدا کرنے والی گیس استعمال کی جاتی ہے یعنی کولینٹ، وہ لیک ہونے کی صورت میں ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہوتی ہے۔
سائنس دان اور ٹیک کمپنیز اب زیادہ مؤثر اور زیادہ بہتر قسم کے ائرکنڈیشنر بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اس دوران کئی ممالک نقصان دہ اور زہریلی گیسوں کو کم کرنے کے اقدامات لے رہے ہیں۔
وہ اب گھر گھر جاکر لوگوں کو چیک کررہے ہیں، وقت پر خطرے سے آگاہ کررہے ہیں، چھتوں پر سفید رنگ لگا رہے ہیں، یہاں تک کہ عمارتوں کا میٹریل بھی بدل رہے ہیں۔
اس وقت کرۂ ارض پر انسان کی بقا سب بڑا چیلنج ہے، اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بدترین تباہی سے بچنے کے لیے ہم عالمی سطح پر درجہ حرارت میں 1.5 سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ ہونے دیں۔
جسنگ کا کہنا ہے کہ ’’ہم میں سے بہت سارے لوگ گرم ہواؤں کی لہر (یعنی لُو) کو ایک معمول کی قدرتی گرمی قرار دے کر سمجھتے ہیں کہ اسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں انسانی مداخلت کی وجہ سے جن گرم ہواؤں کی لہروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ قدرتی نہیں ہیں۔‘‘
بڑے بڑے شہری علاقوں میں گرم ترین ہواؤں کے جزیرے بن جانے کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔گرمیوں میں ایک طویل عرصے تک درجہ حرارت میں اضافے، پھر اس میں ہزاروں افراد کے رہنے کی وجہ سے، ایک چھوٹے سے خطے میں لوگوں کے سفر کرنے اوروہاں ائر کنڈیشنرز کی گرم ہواؤں کے شامل ہونے کے بعد شہر اتنے گرم ہو جاتے ہیں کہ وہ رات بھر میں ٹھنڈے نہیں ہو پاتے۔
جسنگ کہتے ہیں کہ ’’یہ تمام باتیں اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ازسرِ نو مرتب کرنے کی ضرورت پر عوامی سطح پر بحث ہونی چاہیے، خاص طور پر دنیا بھر میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کی ضرورت ہے جو ہماری مداخلت کی وجہ سے ایک تندور بن چکا ہے۔‘‘