عابد علی جوکھیو
ازل سے ہی انسانوں کے دو گروہ ہیں، ایک وہ جو نیک راہ کے راہی ہیں اور دوسرے بدی کے، جنہیں مسلمان اور کافر سے پہچانا جاتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ تیسرے گروہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ بھی کافروں ہی میں سے ہیں، جو اپنی اصل شناخت چھپاتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کا الگ الگ فلسفۂ حیات ہے، جس پر ان کی پوری زندگی کا انحصار ہے۔ انسان جو بھی عمل کرتا ہے وہ درحقیقت اس کے نظریۂ حیات کا مظہر ہوتا ہے۔ کوئی نیکی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو کوئی بدی کا… لامحالہ نیکی کا راستہ اختیار کرنے والے کا نظریۂ حیات ایک خدا کے وجود سے شروع ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے، جبکہ بدی کا راستہ اختیار کرنے والا بھی اسی ایک خدا کے انکار سے اپنا فلسفہ وجود میں لاتا اور اسی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ ہمارے تمام اعمال کسی نہ کسی اساس اور بنیاد پر ہی ہوتے ہیں جس کو عرفِ عام میں عقیدہ کہتے ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دو مختلف لوگ ایک ہی کام کررہے ہوں لیکن ان کا اس کام کے ذریعے مطمح نظر یکسر مختلف ہو۔ مثلاً دو لوگ غریبوں ، مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، بے سہارا افراد کی دادرسی کرتے ہیں، لیکن ایک شخص اس کے ذریعے جنت کے حصول کا خواہش مند ہوتا ہے جبکہ دوسرا صرف لوگوں کی مدد کرکے انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہے، اُس کے سامنے اس خدمت کے بدلے کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا، یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے نیک نامی چاہتا ہو، یا اس کام کے ذریعے اسے قلبی سکون ملتا ہو۔ ان دونوں اشخاص کا عمل ایک جیسا ہونے کے باوجود منزلیں یکسر جدا ہیں، ایک جنت کا متلاشی اور دوسرا نام و نمود یا صرف دنیوی فائدے کا… نظریۂ حیات کا یہی بنیادی فرق ہے ۔ یہی نظریۂ حیات انسان کے سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کا رخ متعین کرتا ہے۔ اسی بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کے افعال اور رویوں کو دیکھیں تو ہمیں واضح طور پر سمجھ میں آجائے گا کہ لوگوں کے رویوں اور اعمال میں اتنا تفاوت کیوں ہے۔
یہاں پر کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایک ہی نظریۂ حیات رکھنے والے افراد کے اعمال اور رویّے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے اور ایسا ہونا بعید بھی نہیں… ہر انسان اپنی شخصیت کے لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہے، اسی لیے فروعی معاملات میں اس کی سوچ مختلف بھی ہوسکتی ہے، جیسے ایک ہی اجتماعیت کے افراد کی مختلف سوچ اور اس کے نتیجے میں مختلف آراء کا ہونا… لیکن یہ فروعی اختلافات ان کے حتمی اور اصل مقصد کو ذرا بھی متاثر نہیں کرتے، ان اختلافات کے باوجود بھی ان کا اصل مقصد اور منزل ایک ہی ہوتی ہے جو ان کے نظریۂ حیات سے وجود میں آتی ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک ہی نظریۂ حیات رکھنے والے افراد کے اعمال میں اسلام اور کفر کی حد کا اختلاف ہو۔ ایسے میں یہی ہوسکتا ہے کہ وہ جس نظریۂ حیات کا اقرار کررہے ہیں وہ اسے ٹھیک سے سمجھے ہی نہ ہوں۔ اس کو بھی مثال سے سمجھیں کہ دو مسلمان ہیں، دونوں مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے، دونوں کے نام بھی مسلمان ہیں، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں، لیکن دونوں کے اعمال یکسر مختلف ہیں… ایک پکا مسلمان اور دوسرا ایسا کہ جسے دیکھ کہ شرمائیں یہود… یہ اختلاف بھی سمجھنا چاہیے کہ اسلام صرف زبان سے کلمہ پڑھنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے اپنے کئی تقاضے ہیں، جن کو پورا کیے بغیر مسلمان ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے آج مغرب مسلمانوں کے لیے دو اصطلاحات استعمال کررہا ہے، ایک صرف مسلم، اور دوسری Practicing Muslim۔ یعنی ایک وہ جو صرف نام کے مسلمان ہیں اور دوسرے وہ جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ اور مغرب انہی عملی مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی نظریہ بجائے خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک کہ اس پر عمل کرکے اس کی عملی صورت کا اظہار نہ کیا جائے۔ اس لیے مغرب کو اُس اسلام اور مسلمان سے دشمنی ہے جو اس نظریۂ حیات کے احیاء کا سبب بن رہا ہے، وگرنہ اُسے اسلام سے کوئی دشمنی نہیں، اور اس بات کا وہ اظہار بھی کرچکا ہے۔
کوئی بھی عمل کرنے سے قبل انسان کے دل میں اس عمل کے لیے ابھارنے والے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ جذبات انسانی فکر اور سوچ کی مرہونِ منت ہوتے ہیں، اور سوچ انسان کے نظریۂ حیات کا ہی دوسرا نام ہے۔ اسی لیے ہر عمل کے پیچھے اصل میں وہ سوچ اور فکر کارفرما ہوتی ہے اور اسے اس عمل تک پہنچا دیتی ہے۔ اگر اسلامی نظریۂ حیات کو دیکھیں تو ہمیں دیگر مذاہب کے مقابلے میں سب سے زیادہ وسعت اسلام میں ہی ملتی ہے۔ اسلام نہ کلی سرمایہ داریت کا حامی ہے اور نہ اشتراکیت کا۔ بلکہ اسلام دینِ فطرت ہونے کی حیثیت سے فرد اور ریاست دونوں کے حقوق کا محافظ ہے، کیونکہ اسلام کسی سوچ یا طرزِعمل کے ردعمل میں وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ مکمل الہامی مذہب ہے جو انسانی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔ اسی لیے آج دنیا میں کفریہ ریاستیں بھی اسلامی قوانین کو اپناکر مثالی حکومت کا دعویٰ کرر ہی ہیں۔
اسی طرح فرد کی مثال لیں، تو اسلامی نظامِ زندگی کو ماننے والے فرد کی زندگی میں بھی اتنی ہی وسعت اور کشادگی ہونی چاہیے جتنی اسلام کے مکمل نظام میں ہے۔ اسلام حالتِ جنگ میں بھی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور معذوروں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، بستی کو اجاڑنے سے منع کرتا ہے، عزت دار کی عزت کا احترم کرتا ہے… اسلامی ریاست غیر مسلموں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی ضمانت دیتی ہے، حتیٰ کہ اسلام اپنے غیر مسلم رشتے داروں سے بھی صلۂ رحمی کی تعلیم دیتا ہے۔ درحقیقت اسلام تو خیر خواہی کا دوسرا نام ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام تو سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کس کی خیر خواہی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی ، مسلم حکمرانوں کی، حتیٰ کہ عام مسلمانوں کی۔ (مسلم)
دینِ اسلام کی وسعت کا اندازہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے، ایک اس کے بندوں کا اور دوسرا اس کی اپنی ذات کا۔ ان دونوں حقوق کا تعین بھی کیا اور ان میں حق تلفی یا کوتاہی کی صورت میں اس کی تلافی کی تدبیر بھی بتائی۔ اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ہے، انسان کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے، وہ بھی اپنے حقوق کی معافی کا اعلان کرتا ہے، اور بندوں کو بھی تعلیم دیتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کی کمی کوتاہیوں کو معاف کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق میں کوتاہی اور اس کی معافی کی بھی حدود متعین کی ہیں، یعنی کچھ ایسے گناہ ہیں، جو صرف نیک اعمال سے ہی معاف کردیتا ہے، اور کچھ ایسے ہیں جن کے لیے سچی توبہ کو لازم قرار دیا ہے۔ اسی طرح بندوں کے حقوق کے متعلق بھی فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی کوتاہیوں کو معاف کردو۔ کبھی ہم نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی وسعت کا اندازہ لگایا ہے… جو اپنے نافرمان اور باغی بندوں کو بھی معاف کردیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ مجھے تو وہ بندے پسند ہیں جو بشری تقاضے کے مطابق کچھ غلطی کر بیٹھیں تو فوراً میرے سامنے حاضر ہوکر معافی کے طلبگار ہوتے ہیں… اور فرمایا کہ میں انہیں معاف بھی کردیتا ہوں۔ اسی طرح اللہ کی اپنی رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اس دنیا میں کوئی بھی انسان اس طرح چل پھر نہ سکتا، ہر کوئی اپنے گناہوں کی سزا میں مبتلا ہوتا، یا اس دنیا سے ہی اٹھالیا گیا ہوتا… اللہ تعالیٰ اپنی اس صفتِ غفاریت کے ذریعے ہم انسانوں کو بھی تعلیم دے رہے ہیں کہ تم بھی وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو معاف کرنا سیکھو، ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں بار بار نہ ٹوکو، بلکہ ان کی بھلے انداز میں تربیت کرو، انہیں نصیحت کرو، اس کے باوجود بھی معاملہ حل نہ ہو تو سرزنش کرو… لیکن اس فرد سے نفرت نہ کرو۔
اگر ہم اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے گھروں یا دفتروں کے ماحول کو دیکھیں اور اپنا جائزہ لیں کہ ہم کس حد تک لوگوں کو اُن کی غلطیوں پر معاف کرتے ہیں، اُن کی تربیت کا انتظام کرتے ہیں، انہیں کتنی نصیحت کرتے ہیں، انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا کتنا موقع دیتے ہیں… یا ہمارے ماتحت افراد کے مابین کچھ معاملات ہوجائیں تو انہیں ایک دوسرے سے مل کر معاملہ حل کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ حقوق العباد کے معاملات کو خود ہی معافی تلافی کے ذریعے حل کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو ہمیں بھی بحیثیت سربراہ ایک چھوٹے سے معاملے کو ہوّا بنانے کے بجائے نچلی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم اسلام کے نظریۂ حیات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے تو یقینا ہمیں ہر مسئلے کا خاطر خواہ حل ضرور ملے گا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم احکاماتِ خداوندی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔