کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

1294

قدسیہ ملک
میں ان واقعات کا جائزہ لے رہی تھی جو میں نے بچپن سے لے کر اب تک کچھ سنے کچھ پڑھے،جن میں انفاق فی سبیل اللہ سے مال میں فراوانی پیدا ہوگئی۔
یہ فیصل آباد کی گارمنٹ انڈسٹری کے مالک رب نواز کا واقعہ ہے۔جسے میں آج بھی سنوں تو ایمان تازہ ہوجاتاہے۔یہ صاحب کوئی جدی پشتی امیر نہیں تھے انہوں نے اپنی آپ بیتی لکھی تھی۔جو میں انہی کی زبانی سناتی ہوں۔پہلے میں والدین کے ساتھ رہتا تھا۔بیوی اور بچوں کے ساتھ گھر چھوٹا پڑنے لگا۔تو ساتھ میں قریب ہی ایک چھوٹی سی زمین پر چھپر ڈال لیا۔6 بچوں اور بیوی کے ساتھ میرابھی کھانا پینا،یہ اتنا ہوجاتا تھا کہ میری مزدوری کے پیسے کم پڑ جاتے تھے۔روز روز گھر میں فاقے ہوتے۔بیوی بہت اچھی تھی لیکن وہ بھی بچوں کے آگے مجبور تھی۔اس کا مزاج بھی بہت بدل گیاتھا۔وہ بچوں کے لیے تقاضہ کرتی میرے پاس جو تھا اسی کاتھا۔وہ سب جانتی تھی لیکن کیا کرسکتی تھی۔مجھے کبھی مزدوری ملتی کبھی نہیں ملتی تھی جب ملتی اس شام میں مزدوری کے پیسوں سے ضرورت کا کچھ سامان لے کر گھرچلا جاتا۔جہاں میرے سامان کی اہمیت آٹے میں نمک کے برابر ہوتی۔ بچوں کی تعلیم رک گئی تھی۔بعض اوقات دوا ئی دودھ تک کے پیسے نا ہوتے۔سب رشتہ داروں نے ناطہ توڑ لیا تھا۔غرض یہ کہ زندگی میں آزمائش ہی آزمائش تھی۔ میرے کسی دوست نے میرے حالات سنے تو بولا “تم صدقہ دو”میں اسکی طرف حیرت سے دیکھے جارہا تھا کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ غریب بس میں اپنے آپ ہی کو سمجھتاتھا۔وہ کہنے لگا روز جتنی کمائی ہو گھر کے خرچ کے نکال کر باقی دس بیس روپیہ خیرات کردو۔خیر بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک دن مزدوری کر کے آرہا تھا۔راستے میں ایک بوڑھیا بیٹھی تھی۔جیب میں ہاتھ ڈالا تو دس روپے کامڑاتڑا نوٹ تھا۔وہ میں نے اس بوڑھیا کودیا اور گھر کی راہ لی۔وہ بوڑھیا مجھے دور تک دعا دیتی رہی۔اگلے روز پھر میں نے اسی طرح کیا۔بچے ہوئے پیسوں کو خیرات کرنے لگا۔اب میں نے خیرات کو اپنا معمول بنالیا تھا۔رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ جب سے میں نے خیرات دینی شروع کی مجھے روز مزدوری ملنے لگی ہے۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا مزدوری کے پیسوں سے گھر کا دوا دارو بچوں کے خرچے گھر میں کھانا لانا شروع کیا۔میری محنت کو دیکھتے ہوئے مجھے گارمنٹس انڈسٹری والوں نے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھانے کی مستقل اجازت دے دی۔اب میں اس انڈسٹری کا مستقل کارکن تھا۔لیکن روزانہ کی اجرت پر ملازم تھا۔میری محنت کو دیکھتے ہوئے انڈسٹری کے مالک نے مجھے اپنے دوسرے انڈسٹریل ایریا میںمنتقل کردیا لیکن میں صرف مال لانے لے جانے کاکام کرتاتھا۔میں خیرات اورصدقہ دینا نہیں بھولا تھاشاید اللہ کو میری کیا ادا پسند آگئی کہ انڈسٹری کے مالک نے میری ایمانداری سے متاثر ہوکر اپنی نئی فیبرک انڈسٹری کا انچارج مجھے بنادیا۔مجھے اب مستقل طور پر کپڑے کے کام میں جانا جانے لگا۔لوگوں سے جان پہچان ہونے لگی۔بچوں کو بھی اچھے اسکول میں داخل کروایا۔گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔وہ عزیز رشتہ دار جو مجھے غربت میں میراساتھ چھوڑ گئے تھے۔اب ہمارے گھر میں آنے جانے لگے۔میں سب کا خیال رکھتا لیکن میں صدقات و خیرات کرنا نہیں بھولا تھا۔میں اپنے مال میں سے ایک مستقل حصہ غریب ناداروں اور یتیموں کے لیے مختص کردیا کرتا تھا۔جس پر میری فیملی اور میرا کوئی حق نہ ہوتا تھا۔دن بدن اللہ کے حکم سے میں جس چیز میں ہاتھ ڈالتا وہ سونابن جاتی۔ بالآخر مالک کی اجازت سے میں نے اپنا کام شروع کیا۔جسے اللہ نے بہت ترقی دی۔ایک کے بعد دوسری کے بعد تیسری فیکٹری کا مالک بن گیا۔بچے بھی اب بڑے ہوگئے تھے وہ بھی میرے کام میں میراہاتھ بٹاتے۔ہم نے اپنا گھر شہر کی سب سے بہترین جگہ بنوایا۔جس میں روز بیواؤں‘ یتیموں‘ مسکینوں کو مہینے بھر کا راشن دیا جاتا۔ان سے فارم بھروایا جاتا۔ ضروری کوائف کے بعد انہیں راشن بچوں کی تعلیم کے لیے خرچ دیا جاتا۔رب نواز صاحب کہتے ہیں لوگ مجھے دیکھتے تو یہی کہتے کہ تم اسم بامسمیٰ ہو۔اللہ نے تمہیں بہت دیا ہے۔لیکن یہ راز اب راز نہیں کہ یہ سب دولت نعمتیں مجھے اللہ کے بندوں کے کام آنے پر انعام کے طور پر ملیں اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں نے اپنے بچوں کو بھی یہی وصیت کی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ کو کبھی مت کو روکنا۔ جب تک تم خرچ کرو گے اللہ تمہیں مزید نوازے گا۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ مال داروں، طاقت وروں کو رزق ان کے کمزوروں کی بدولت عطا ہوتا ہے۔
قرآن میں بھی بارہا ایسے واقعات اور آیات نازل ہوئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والوں کو مزید نوازتے ہیں۔ ہم نے بچپن سے وہ قرآنی واقعہ سنا ہے کہ چند بھائی اپنے باپ کے انتقال کے بعد باغ کے مالک بن گئے تھے لیکن انہوں نے سوچاکہ ہمارے والد صاحب جس طرح غریبوں پر دولت لٹاتے تھے۔ ہم اس طرح دولت کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ وہ اپنی دانست میں بہت عقل مندی کا کام کررہے تھے۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہاتھا۔ اس قصے کو قرآن ہی کی زبانی پڑھیے تو زیادہ سمجھ آئے گا۔ ’’ہم نے ان کو اسی طرح آزمائش میں ڈالاجس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ کوئی استثنا نہیں کررہے تھے۔ رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ پر پھر گئی اور اس کا ایسا حال ہوگیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔ صبح ان لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف چلو۔چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے کہ آج کوئی مسکین ہمارے باغ میں نہ آنے پائے۔ وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ پھل توڑنے پر قادر ہوں۔ مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ’’ہم راستہ بھول گئے ہیں،نہیں بلکہ ہم محروم رہ گئے ہیں۔‘‘(سورہ القلم)
قرآن میں بھی بارہا انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید کی گئی ہے۔ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے اس دن سے پہلے خرچ کرو جب نہ خرید وفروخت ہوگی نہ دوستی کام آسکے گی۔ قرآن میں سورۃ البقرۃکی ابتدائی آیات میں سچے مومنوں کی جو 6 نشانیاں بتائی گئی ہیں ان میں سب سے پہلے پرہیزگاری کی شرط ہے دوسری شرط غیب پر ایمان‘ تیسری شرط نماز کو قائم کرنے والے اور چوتھی شرط جو اللہ نے انہیں رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘ پانچویں شرط جو کتاب پر ایمان لانے والے اور چھٹی شرط جو آخرت پر یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ان چھ صفات سے متصف مومن کو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ کہا گیا اور فلاح کی ضمانت دی گئی ہے۔
ان آیات کا بنیادی مقصد بہت واضح ہے۔اپنے حلال مال میں سے سائل، یتیموں، مسکینوں، محتاجوں اورضرورت مندوں پر خرچ کرنا اور بدلے کی کوئی امید بھی نہ رکھنا آسان بات نہیں ہوتی اس کے لیے ایک مومن میں کچھ بنیادی صفات کا ہونا لازمی ہے۔ اس عمل کے لیے سب سے پہلے آپ کے اندر تقویٰ کی صفت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ رمضان المبارک جس کے فیوض و برکات سے ابھی میں اور آپ مستفید ہوئے ہیں میں تقویٰ کا حصول انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں لوگوں پر خرچ کرنا بوجھ نہیں لگتا۔ آنحضورؐ رمضان المبارک میں چلتی ہوا سے زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے۔ دوسرے نمبر پر اللہ پر عالم الغیب ہونے پر ایمان ہوگا تبھی تو خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا جب ہمارے دل میں یہ امید ہوگی کہ میں نے اس اللہ کے بندے/بندی کی چھپ کر مدد کی ہے مجھے دنیا سے اس کا بدلہ نہیں چاہیے کہ لوگ میری واہ واہ کریں بلکہ میرا اجر تو اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ تیسری بات رب سے ملاقات کا شوق اور اسی شوق میں ہم نماز پڑھتے ہیں۔ اگر ایک انسان میں یہ تمام خصوصیات موجود ہیں تب اس کے اندر انفاق کی خصوصیت ہوگی ورنہ صرف ظاہری ٹپ ٹاپ اور دکھاوا جس کو خدانے اپنی کتاب میں چٹیل میدان سے تشبیہ دی ہے۔ جبکہ صدقات فطرات کو لہلہاتی کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
لوگ آپ کو مال خرچ کرنے سے روکتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیجیے۔ قیامت کے دن کوئی آپ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ آپ کی وہی نیکیاں کام آئیں گی جو آپ نے صدقات خیرات کھلے اور چھپے لوگوں کو دیے ہوں گے۔ آپ کا معاملہ آپ کے رب کے ساتھ ہے اپنے مالوں میں سے سائل، غریب رشتے داروں، مسکینوں قرابت داروں اور محتاجوں کا ایک حصہ مقرر کرلیجیے۔کھلے اور چھپے ہر طریقے سے لوگوں کی مدد کو اپنا شعار بنالیجیے۔ لوگوں کی مالی پریشانیوں کو اپنے ذمے لے لیجیے۔پھر دیکھیے میرا رب آپ کو کیسے نوازتا ہے۔ مال کی محبت انسانی فطرت ہے انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو میری محنت کی کمائی ہے میں اسے دوسروں پر کیوں خرچ کروں۔ جب کہ آپ کی زندگی،آپ کی کمائی،آپ کی قابلیت، آپ کی محنت آپ کا اپنارزق سب اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کی فطرت میں بخل اور کنجوسی ودیعت کردی گئی ہے۔ لیکن اللہ کے وہی نیک بندے دونوں جہانوں میں کامیاب ہیں جنھیں اپنے مالوں کی کمی کا خوف نہیں ہوتا ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ’’اے نبیؐ ان سے کہو، اگر کہیں میرے رب کے رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضروران کو روک رکھتے۔ واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل)
آپ میں سے بہت سے قارئین نے البیک کانام تو سنا ہی ہوگا۔ میری دعا ہے میرا مضمون پڑھنے والے تمام قارئین کو عمرہ و حج کی سعادت نصیب ہو۔ ہم میں سے بہت سے لوگ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ گئے ہیں۔ وہاں آپ نے البیک فوڈ چین کا رش دیکھا ہوگا۔ ہم میں بہت سے اس سے مستفید بھی ہوئے ہوں گے۔ میں آپ کو بتاؤں میں وہاں دو سال قبل گئی تھی۔ عام دنوں میں یہاں 24 گھنٹے رش رہتا ہے آپ رات 12 بجے چلے جائیں یا دن 12 بجے آپ کو یہی کیفیت نظر آئے گی۔ رمضان کے دنوں میں بھی سحری ہو یا افطاری البیک کی ہر شاخ پر ایسا رش ہوتا ہے کہ گھنٹوں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد آپ کی باری آتی ہے۔
البیک کے مالک کی انفاق فی سبیل اللہ کی کہانی بھی بڑی زبردست ہے۔ وہ اپنی ہر فی کس آمدنی میں سے ایک ریال فلسطین کے مسلمانوں اور مختلف غرباء و مساکین کے لیے خرچ کرتے تھے یہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں وہاں سعودیہ میں لوگ ایسے ہی خرچ کرتے ہیں۔ وہ بھی کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے یہ اعلان کیا کہ اب ہم 2 ریال اپنی تمام آمدنیوں میں سے خرچ کریں گے۔ کہنے کو یہ بہت چھوٹی سی بات ہے لیکن جو خرچ کرتا ہے اللہ اس کا رزق بڑھاتا ہے کم نہیں کرتا۔ یہ میرے رب کا وعدہ ہے جو اس نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے۔اللہ ہمیں بھی اپنے ان بندوں میں شامل کرلے جن سے انعامات کے وعدے اور جنھیں جنتوں کی بشارتیں دی گئی ہیں۔اگر ہم مالدار ہیں تو اس مال میں سے اپنے والدین، غریب رشتہ داروں ،مسکین ،محتاجوں اور مستحق قرابت داروں پر خرچ کرنے والا بنادے۔اور اگر ہم غریب ہیں تو بھی اللہ کی راہ میں اپنی استطاعت کے مطابق مال خرچ کرنیوالابنائے۔اگر اللہ نے چاہاتو وہ اپنے فضل سے آپکو اتنا دے گا کہ آپ لوگوں کو دے دے کر تھک جائیں گے لیکن آپ کا مال کم نہیں ہوگا۔یہ میرے رب کا وعدہ ہے اور میرا رب وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

حصہ