فرہاد احمد فگار
اردو کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اکثر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی کسی کی غلطی سے اور کبھی اپنی غلطی سے۔ میں اس ضمن میں ایسے احباب کا ہمیشہ شکر گزار رہتا ہوں جو کسی بھی حوالے سے میری اصلاح کا باعث بنتے ہیں۔ پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں اردو زبان کو بے شمار لوگ ہریجن سمجھتے ہیں۔ زبان پر توجہ دیئے بغیر غلط بولنا اور غلط لکھنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ کئی پڑھے لکھے فضلا اور علما بھی جب ایسی اغلاط کا ارتکاب کرتے ہیں جن سے لفظ کا معنی ہی یک سر تبدیل ہو کر رہ جائے تو شدید کوفت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک پی ایچ ڈی اردو اسکالر جب کہتی ہے: ’’ان کے کلام میں خوب صورت منظر کُشی کی گئی ہے،‘‘ تو حیران رہ جاتا ہوں کہ دل کو روؤں کہ جگر کو پیٹوں۔ یاد رہے کہ یہاں کَشی کی بہ جائے کُشی ادا کرنے سے معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی ایک پی ایچ ڈی اردو اسکالر جب ’’نظیرؔ اکبر آبادی‘‘ اور اکبرؔ اِلٰہ آبادی کو ملا کر ’’نظیر اکبراَلہ آبادی‘‘ بنا دیتے ہیں تو سخت غصہ آتا ہے۔ یہ چند ایسی چیزیں ہیں جو بہت عام نوعیت کی ہیں۔ اسی طرح بے شمار اغلاط ہیں جن کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کو بہت محتاط ہونا چاہیے جو اسی مضمون سے متعلق ہیں۔
میں ہمیشہ اپنے اَساتذہ کا شکر گزار رہا ہوں جنہوں نے مجھے الفاظ کی حرمت سکھائی۔ میرے اَساتذہ ہی میرا حوصلہ بڑھا کر مجھے مہمیز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ کسی نہ کسی طرح اپنے طلبہ اور دوستوں کی اصلاح کی خاطر سعی کرتا رہتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اگر کسی ایک نے بھی اِصلاح قبول کی تو میری یہ کوشش بارآور ثابت ہوگی۔
عُمرانیات
میری ایم فل ہم جماعت نگہت نورین نے ایک دن فون کیا اور کسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمِرانیات ادا کیا۔ میں نے ٹوکا کہ یہ لفظ عِمرانیات نہیں بل کہ عُمرانیات ہوگا۔ اس پر اس نے ایک اُستاد کا حوالہ دیا کہ میں نے ان کی زبانی عِمرانیات ہی سنا ہے۔ جب کہ ایک لغت ’’فیروز اللغات‘‘ کا حوالہ بھی دے ڈالا۔ چوں کہ میں ایک متجسس طالب علم ہوں، یہ حوالے دیکھ کر بھی میری تشفی نہ ہوئی۔ مصباح اللغات از عبدالحفیظ بلیاوی اور فرہنگ تلفظ از شان الحق حقی سمیت کئی معتبر لغات دیکھے۔ نتیجہ میری توقع کے عین مطابق برآمد ہوا۔ یہ لفظ عُمرانیات ہی ہونا چاہیے اور ہے۔ یہ ’’عُمران‘‘ سے ماخوذ ہے، عُمران کا مطلب ہے آبادی۔ عُمران سے عُمرانیات یعنی آبادی کا علم۔ بالکل جیسے لسان سے لسانیات یا حیات سے حیاتیات وغیرہ۔ عَمران میں ’’ع‘‘ مفتوح ہے اور عَمران سے مراد ’’حلق کا کوا‘‘ ہے۔ ’ع‘ مکسور ہو تو ’’عمِران‘‘ Imran ہوگا۔ بیشتر لوگ اس کو بھی ’’عَمران‘‘ ادا کرتے ہیں۔
الحمدُللہ
ہماری مذہبی کتاب قرآن مجید کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے ہوتا ہے جس کی پہلی آیت ہی ’’الحمد للہ ربّ العالمین‘‘ ہے۔ میں نے اکثریت کو یہ الفاظ غلط لکھتے دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اپنے تشہیری بینروں پر بھی یہی لکھتے ہیں: ’’الحمداللہ اس سال ادارہ کی کارکردگی…‘‘ کچھ لوگوں کو ’’الحمدو للہ‘‘ بھی لکھتے دیکھا، یعنی ’’د‘‘ کے بعد ’’و‘‘ کے ساتھ۔ ہماری نصابی کتب میں بھی ’’الحمد للہ‘‘ میں ’’د‘‘ کے بعد ’’ا‘‘ لگا کر غلط لکھا ہوا پایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس ضمن میں قرآن مجید سے بڑا کوئی حوالہ نہیں۔ یہ قرآن کے الفاظ ہیں، ان کو درست لکھا جانا چاہیے: ’’الحمدللہ رب العالمین۔‘‘
دُکان
یہ لفظ بھی کثرت سے غلط لکھا جاتا ہے۔ اس لفظ میں ’’د‘‘ کے بعد ’’و‘‘ کا استعمال اضافی اور غلط ہے۔ دکان میں ’’و‘‘ کا استعمال نہیں ہوگا۔ کوئی بھی خرید و فروخت کا مرکز ’’دکان‘‘ کہلائے گا۔ اسے ’’دوکان‘‘ کہنا یا لکھنا غلط ہے؛ اور ویسے بھی ہر انسان کے ’’دو کان‘‘ ہوتے ہیں جب کہ جو شخص دُکان پر خرید و فروخت کرتا ہے وہ ’’دُکان دار‘‘ کہلاتا ہے۔ شکیب جلالیؔ کا شعر ہے:
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
چیخ پکار
حال ہی میں ایک اخبارکی ایک شہ سرخی نظر سے گزری: ’’عوامی چیخ و پکار! بے کار مہنگی کتابیں‘‘ یہاں چیخ و پکار کی ترکیب درست نہیں۔ ہمارے بیشتر اہل علم حضرات بھی اس ترکیب کو ایسے ہی استعمال کرتے ہیں جو درست نہیں۔ درست ترکیب ’’چیخ پکار‘‘ ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’سوچ و بچار‘‘ بھی کثیر الاستعمال ترکیب ہے۔ یہاں بھی ’’سوچ و بچار‘‘ کی بہ جائے ’’سوچ بچار‘‘ درست ہے۔ اہلِ زبان کے ہاں یہ تراکیب ’’چیخ پکار‘‘ اور ’’سوچ بچار‘‘ ہی مستعمل ہیں اور ایسے ہی درست تسلیم ہوں گی۔
دغا دیا
ایم اے اردو کی ایک طالبہ نے سوال کیا: ’’دغا دی جاتی ہے یا دیا جاتا ہے؟‘‘ میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق بتایا کہ ’’دغا‘‘ مؤنث ہے تو دی جائے گی۔ اس پر وہ طالبہ ایک اور استاد کے پاس چلی گئی جہاں سے جواب ’’مذکر‘‘ ملا کہ دغا دیا جائے گا۔ بعد ازاں طالبہ نے مجھ سے کہا کہ سر ’’دغا‘‘ مذکر ہے تو دیا جائے گا۔ چوں کہ ہمارے ہاں یہ لفظ مذکر ہی استعمال ہوتا ہے، اس لیے زیادہ تر لوگ اسے مذکر ہی سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ ’’دغا‘‘ لفظ مؤنث ہے۔ اَساتذہ کے ہاں یہ مؤنث ہی استعمال کیا گیا ہے جب کہ ہمارے مستند اردو لغات میں بھی یہ مؤنث ہی بتایا گیا ہے۔ قول سے پھرنے، فریب یا دھوکا دینے، وقت پر ساتھ چھوڑ دینے کو ہم یوں کہیں گے: ’’فلاں نے مجھے دغا دی۔‘‘ استاد قمرؔ جلالوی کا شعر دیکھیے:
میں کون ہوں؟ بتادوں او بھولنے کے عادی
تو نے جسے ستایا، تو نے جسے دغا دی
کچھ مزید الفاظ دیکھیے جن کے تلفظ غلط ادا کیے جاتے ہیں:
عُنصر: ع پر پیش ہے۔ اکثر احباب اس لفظ کو زبر کے ساتھ عَنصر ادا کرتے ہیں۔
حظ: حَظ اٹھانا یعنی محظوظ ہونا۔ کئی دوست اسے ’’ح‘‘ مکسور کے ساتھ حِظ پڑھتے ہیں جو غلط ہے۔
فُلاں: ف پر پیش کے ساتھ یہ لفظ فُلاں ہے جس کو فَلاں ف پر زبر لگا کر غلط پڑھا جاتا ہے۔
کِتاب: ’’ک‘‘ مکسور کے ساتھ لفظ کِتاب ہوتا ہے۔ کئی اردو اَساتذہ بھی اسے ’ک‘ پر زبر لگا کر کَتاب پڑھنے میں یدطولی رکھتے ہیں۔
اب چند الفاظ دیکھیے جن کا دوسرا حرف متحرک ہے لیکن اکثریت اسے ساکن پڑھتی ہے:
صِفَت: اس لفظ میں ’’ف‘‘ پر زبر ہے۔ جو کلمہ اسم سے کوئی خصوصیت منسوب کرے، صِفَت کہلائے گا۔ حوالے کے طور پر اشعار دیکھیے:
پنڈت دیا شنکر نسیمؔ کا شعر:
پتے کی صفت بیان کیا ہو
دم بھر میں بھرے جراحتوں کو
مرزا ہادی رسواؔ کے مطابق:
دبکی ہوئی تھی گُر بہ صِفَت خواہشِ گناہ
چمکارنے سے پھول گئی، شیر ہوگئی
مَرَض: جسمانی، ذہنی یا روحانی بیماری مَرَض کہلاتی ہے۔ اس لفظ کو بھی ’’ر‘‘ ساکن کرکے مَرض پڑھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ شادؔ لکھنوی کے مطابق:
وصال یار سے دونا ہوا عشق
مَرَض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
غَرَض: یہ لفظ ’’ر‘‘ ساکن کر کے ادا کرنا عام ہے۔ یاد رہے یہ لفظ غَرض نہیں بلکہ غرَض ہوگا۔ میرؔ کا شعر دیکھیے:
رہتا ہے غَرَض ہمیشہ سودا
کوچہ کوچہ ہوا ہوں، رسوا
داغؔ دہلوی کا شعر ہے:
بے طلب جو ملا مجھ کو
بے غَرَض جو دیا، دیا تو نے
اس سے ’’غَرَض یہ ہے کہ‘‘ ہوتا ہے جسے عموماً غرضیکہ لکھ دیا جاتا ہے۔
شَرَف: شَرَف میں بھی ’’ش‘‘ اور ’’ر‘‘ مفتوح ہیں۔ اس لفظ کو بھی غلط طور پر ’’ر‘‘ ساکن کرکے شَرف پڑھا جاتا ہے۔ شَرَف عزت، حرمت یا بڑائی کےلیے مستعمل ہے جس سے اسم صفت مُشرَف، شریف ہیں۔ غالبؔ کا شعر ملاحظہ ہو:
میں جو ہوں درپے حصول شرَف
نام عاصی کا ہے غلامِ نجَف
میرؔ کا شعر دیکھیے:
اس کی جرأت کا کس کو ہے انکار
یہ شَرَف کس میں جمع ہوئے ہیں٭
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی