زندگی منفی اعتقادات کے ساتھ

586

محمد سلیم/شانتو چائنا
کولمبیا کی ایک یونیورسٹی میں ریاضیات کے لیکچر کے دوران کلاس میں حاضر ایک لڑکا بوریت کی وجہ سے سارا وقت پچھلی بینچوں پر مزے سے سویا رہا، لیکچر کے اختتام پر طلبہ کے باہر جاتے ہوئے شور مچنے پر اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پروفیسر نے تختہ سیاہ پر دو سوال لکھے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے انہی دو سوالوں کو اہم کام سمجھ کر جلدی جلدی اپنی نوٹ بک میں لکھا اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ ہی کلاس سے نکل گیا۔ گھر جاکر لڑکا ان دو سوالوں کےحل سوچنے بیٹھا۔ سوال ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوئے۔ ریاضیات کا اگلا سیشن چار دن کے بعد تھا، اس لیے لڑکے نے سوالوں کو حل کرنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور وہ چار دن کے بعد ایک سوال کو حل کرچکا تھا۔
اگلی کلاس میں لڑکے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پروفیسر نے آتے ہی بجائے دیئے ہوئے سوالوں کے حل پوچھنے کے، نئے موضوع پر پڑھانا شروع کردیا تھا۔ لڑکا اُٹھ کر پروفیسر کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ اُستاد صاحب، میں نے چار دن لگا کر ان چار صفحات پر آپ کے دیئے ہوئے دو سوالوں میں سے ایک حل کیا ہے اور آپ ہیں کہ کسی سے اس کے بارے میں پوچھ ہی نہیں رہے؟
اُستاد نے حیرت سے لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کوئی کام نہیں دیا تھا۔ ہاں مگر میں نے تختہ سیاہ پر دو ایسے سوال ضرور لکھے تھے جن کو حل کرنے میں اس دُنیا کے سارے لوگ ناکام ہوچکے ہیں۔
جی ہاں، یہی منفی اعتقادات ہیں جنہوں نے اس دُنیا کے اکثر علماء کو ان مسائل کے حل سے ہی باز رکھا ہوا تھا کہ ان کا کوئی جواب دے ہی نہیں سکتا تو کوئی اور کیوں کر ان کو حل کرنے کے لیے محنت کرے! اور اگر یہی طالب علم عین اُس وقت جبکہ پروفیسر تختہ سیاہ پر یہ دونوں سوال لکھ رہا تھا، جاگ رہا ہوتا اور پروفیسر کی یہ بات بھی سن رہا ہوتا کہ ان دو مسائل کو حل کرنے میں دنیا ناکام ہوچکی ہے تو وہ بھی یقیناً اس بات کو تسلیم کرتا اور ان مسائل کو حل کرنے کی قطعی کوشش ہی نہ کرتا۔ مگر قدرتی طور ہر اُس کا سو جانا اُن دو مسائل میں سے ایک کے حل کا سبب بن گیا۔ اس مسئلے کا چار صفحات پر لکھا ہوا حل آج بھی کولمبیا کی اُس یونیورسٹی میں موجود ہے۔
تیز دوڑنےسے متعلق غلط اعتقادات
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک دوڑنے کی مشق کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پایا جاتا تھا کہ کوئی بھی انسان چار منٹ سے کم وقت میں دوڑ کر ایک میل کی مسافت طے نہیں کرسکتا۔ اگر کسی شخص نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اُس کا دل پھٹ جائے گا۔
ایک کھلاڑی نے اس بارے میں پوچھ گچھ شروع کی کہ اب تک کسی نے چار منٹ سے کم میں یہ مسافت طے کرنے کی کوشش بھی کی ہے یا نہیں؟ یا کتنے ایسے لوگ ہیں جن کا دل ایسا کرنے سے پھٹ گیا ہو؟ مگر اس بات کا کوئی بھی ثبوت نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس بات کی حقیقت کو جانتا تھا کہ کسی فردِ واحد کا آج تک دل پھٹا بھی تھا یا نہیں!
اس کھلاڑی نے چار منٹ سے کم وقت میں ایک میل کا سفر کرنے کے لیے کوشش شروع کی اور ایک دن اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔ جب لوگوں نے اُس کے منہ سے ایسا سنا کہ وہ ایک میل کا سفر چار منٹ سے بھی کم وقت میں دوڑ کر طے کرسکتا ہے تو شروع شروع میں لوگوں نے اُسے پاگل اور جھوٹا سمجھا، اور بعد میں یہ شک کیا کہ اُس کی گھڑی غلط ہوگی۔ لیکن بعد میں اُس شخص کے مسلسل اصرار پر لوگوں نے خود جاکر اُسے دیکھا کہ وہ واقعی ایک میل کی مسافت چار منٹ سے کم وقت میں دوڑ کر طے کرسکتا ہے۔ اس کے بعد صرف اسی شخص نے نہیں، دنیا بھر سے 100 سے زیادہ لوگوں نے یہی کارنامہ سر انجام دے کر ایک ایسے عقیدے کو جھوٹا ثابت کیا جس کے ساتھ لوگ ازل سے جی رہے تھے۔ ان 100 سے زیادہ لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ کوشش کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔
ایک اور واقعہ سنیے:
کہتے ہیں کہ کسی غذائی مواد کو اسٹور اور فروخت کرنے والی کمپنی کے ایک کولڈ اسٹور میں، وہاں کام کرنے والا ایک شخص اسٹور میں موجود اسٹاک کے معائنے اور سامان کی گنتی کے لیے گیا۔ وہ جیسے ہی کولڈ اسٹور میں داخل ہوا تو پیچھے سے دروازہ بند ہوگیا۔ اس شخص نے شروع میں خود دروازہ کھولنے اور پھر بعد میں دروازہ پیٹ کر باہر سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر دونوں صورتوں میں ناکام رہا۔ بدقسمتی سے اُس وقت ہفتے کے اختتامی لمحات چل رہے تھے اور اگلے دو دن ہفتہ وار چھٹیاں تھیں۔ اس شخص نے جان لیا کہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور نہ ہی وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے تو یقینی بات ہے کہ اُس کی ہلاکت کا وقت آچکا ہے۔ تھک ہار کر وہ بیٹھ کر اپنے انجام کا انتظار کرنے لگا۔ اور دو دن بعد جب یہ کولڈ اسٹور دوبارہ کھولا گیا تو واقعی یہ شخص مرا ہوا پایا گیا تھا۔
لوگوں نے اُس کے قریب ہی پڑے ہوئے کاغذات اٹھا کر دیکھے جن پر وہ شخص اپنے مرنے سے پہلے اپنے محسوسات لکھتا رہا تھا۔ کاغذوں پر لکھا ہوا تھا کہ ”میں اس کولڈ اسٹور میں مکمل طور پر قید ہوچکا ہوں۔۔۔۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میرے آس پاس برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔۔۔۔ میں سردی سے ٹھٹھر رہا ہوں۔۔۔۔ اب تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں حرکت بھی نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں سردی سے مر ہی جاؤں گا۔۔۔۔“ لکھائی ہر جملے کے ساتھ ضعیف سے ضعیف تر ہوتی گئی تھی، یہاں تک کہ لکھنے کا سلسلہ ہی منقطع ہوگیا تھا۔
ان سب باتوں میں جو سب سے عجیب بات دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ کولڈ اسٹور میں کولنگ سسٹم کی تو بجلی ہی بند تھی اور وہ تو چل ہی نہیں رہا تھا۔
کیا خیال ہے آپ کا؟ کس نے قتل کیا تھا اس شخص کو؟ جی ہاں، اس شخص کو اُس کے وہم نے مار ڈالا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ کولڈ اسٹور چل رہا ہے اور یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے ہے جس سے ہر چیز جم جائے گی اور وہ مر جائے گا۔
اسی وجہ سے تو کہا جاتا ہے کہ منفی افکار اور عقائد سے بندھ کر اپنی زندگی کو کنٹرول کرنا بند کردیا جائے۔ ہزاروں لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں اپنی ذات پر بھروسہ ہی نہیں تھا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں آئے ہوئے کاموں اور موقعوں کو یہ سوچ کر چھوڑ دیا تھا کہ یہ کام اُن کے بس کا نہیں۔ جبکہ حقیقت میں معاملہ اس کے بالکل ہی برعکس تھا۔
ہاتھی اور اُس کی رسی کا واقعہ:
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک چھوٹی سی رسی سے ایک عظیم الجثہ ہاتھی کو اگلے پاؤں کے ذریعے بندھا ہوا دیکھا تو بہت حیرت ہوئی تھی۔ ہاتھی رسی کے ساتھ بندھا ہوا کھڑا تھا اور ایک محدود دائرے میں گھوم رہا تھا۔ جسامت کے اعتبار سے تو ہاتھی کو کسی مضبوط زنجیر اور فولادی کڑے سے باندھا جانا چاہیے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہاتھی کسی بھی لمحے اپنے پاؤں کی معمولی جنبش سے اس رسی کو تڑا کر آزادی حاصل کرسکتا تھا، مگر وہ ایسا نہیں کررہا تھا۔
مجھے جیسے ہی ہاتھی کا رکھوالا نظر آیا، میں نے اُسے اپنے پاس بلا کر پوچھا: یہ اتنا بڑا ہاتھی کس طرح ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا ہوا کھڑا ہے اور یہ کیوں اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگ نہیں جاتا؟
ہاتھی کے رکھوالے نے بتایا کہ اس طرح کے بڑے جانور جب پیدا ہوتے ہیں تو یقینی بات ہے کہ اس سے کہیں چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو باندھنے کے لیے اس قسم کی چھوٹی سی رسی ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس قسم کی چھوٹی سی رسی اس وقت اُن کی عمر اور جسم کے لحاظ سے باندھنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جانور تو بڑے ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی سوچ وہی رہتی ہے کہ ابھی بھی وہ اس رسی کو نہیں توڑ سکتے۔
یہ جان کر مجھے بہت حیرت ہورہی تھی کہ اتنے بڑے جانور جو اپنی طاقت سے بڑی بڑی وزنی چیزوں کو اٹھا کر اِدھر اُدھر کرسکتے ہیں، مگر ان کا دماغ اسی پرانی سوچ سے بندھا رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس رسی کی قید سے کبھی بھی نجات نہیں پا سکتے۔
بعض اوقات ہماری مثال بھی تو بالکل ایسی ہی ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ہم کچھ نہیں کرپائیں گے، یا کچھ کیا تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، یا یہ کام ہمارے بس اور ہمارے روگ کا ہی نہیں، ہم قناعت کے ساتھ ایک لگے بندھے مفاد کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی ذات، مفاد اور رہن سہن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
کوشش کرکے نئے وسائل اور نئے راستوں کو اپنائیے اور اپنی زندگی میں مثبت طریقے سے اور مثبت تبدیلیاں لاکر بہتری کی طرف قدم بڑھائیے۔ ہمارے ماحول اور معاشرے میں تو کئی ایسے جھوٹے اعتقادات اور وہمی افکار موجود ہیں جو ہمیں کامیابی کی طرف قدم ہی نہیں اُٹھانے دیتے، کامیابی تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ہمارا واسطہ اکثر ”یہ تو ناممکن ہے“، ”یہ تو بہت مشکل کام ہے“، ”یہ تو مجھ سے نہیں ہوپائے گا“ وغیرہ جیسے کلمات سے پڑتا ہے۔ یقین جانیے یہ سب کچھ جھوٹ اور بنی ہوئی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پُرعزم، بلند حوصلے اور اللہ پر توکل رکھنے والا انسان ان سب کہاوتوں کا انکار کرتے ہوئے ان رکاوٹوں کو عبور کرلیا کرتا ہے۔
تو پھر آپ ان جھوٹے افکار و عقائد کے خلاف ایک آہنی ارادے کے ساتھ کیوں نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے؟ ایک پختہ عزم اور پکے ارادے کے ساتھ اور کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے؟

حصہ