عشرت زاہد
پتا نہیں کہاں چلا گیا؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہال سے نکلتے وقت بریسلٹ میرے ہاتھ میں ہی تھا۔ میں نے دلہن کا غرارہ تھوڑا اونچا کیا تھا تب تک بھی میرے ہاتھ میں تھا بلکہ دوپٹے میں اس کا کنڈا اٹک بھی گیا تھا۔ اور لوگوں کے جمگھٹے میں کچھ اندھیرا سا ہوگیا تھا تو نظر ہی نہیں آرہا تھا، اس لیے ذرا کھینچ کر نکالا تھا۔ شاید دوپٹے کا تار بھی کھنچ گیا تھا۔ ہاں اسی وقت نکل کر گرا ہوگا، کیوں کہ گاڑی بھی اچھی طرح چیک کرلی ہے، اور گیٹ سے لے کر دلہن کے کمرے تک ایک ایک انچ جگہ بھی کئی بار دیکھ چکی ہوں، لیکن بریسلٹ ندارد۔ بہت ہی پریشانی ہوگئی… یا اللہ کیا کروں؟ تھکن سے چُور چُور ہورہی ہوں، جسم کا ایک ایک حصہ ایسا درد کررہا ہے کہ کہیں بس تھوڑی سی ٹکنے کی جگہ مل جائے اور گھوڑے بیچ کر سوجاؤں۔ آہ…! لیکن جب تک کھویا ہوا بریسلٹ نہیں مل جاتا، نیند کیسے آئے گی؟ ایسا کرتی ہوں عامر کو ہال کا ایک چکر لگانے کا کہتی ہوں۔ اللہ کرے مان جائے۔ اگر دلہن کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے کہیں گرا ہوگا تو مل جائے گا۔
’’میرے اچھے بھائی مان جائو ناں، دیکھو اگر نہیں ملا تو بہت برا ہوگا۔‘‘ عامر میرا چھوٹا بھائی ہے۔ اس کو اتنی مشکل سے منایا۔ ظاہر ہے وہ بھی دن بھر کا تھکا ہوا تھا۔ خیر، ہال میں جا کر دیکھا لیکن بریسلٹ نہ ملنا تھا، نہ ملا۔
اسی میں رات کے ساڑھے تین بج گئے۔ تقریباً ہر کوئی سوچکا۔ آخر تھک ہار کر میں بھی لیٹ گئی۔ بے بسی، تھکن اور نیند سے بوجھل آنکھیں بری طرح جلنے لگیں۔ آخر میرے صبر کا بند ٹوٹ گیا۔ رات کے سناٹے میں سسکیاں گونجنے لگیں۔ افسوس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ جو بریسلٹ تھا وہ میرا اپنا نہیں تھا بلکہ میری دیورانی کا تھا۔ اس نے زبردستی مجھے پہنایا تھا کہ ’’بھابھی آپ اپنی چوڑیاں ولیمے میں پہننا۔ آج بارات میں یہ میرا بریسلٹ پہن لیں، یہ زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔ یہ پرلز اور نگینے بالکل آپ کے سیٹ کے ساتھ میچ ہورہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے منع بھی کیا تھا لیکن اس کے اصرار پر مجھے پہننا پڑا۔
واقعہ یہ ہے کہ میرے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کی تقریبات چل رہی ہیں۔ گھر کی آخری شادی ہونے کی وجہ سے خوب دھوم دھام اور ہلا گلا بھی ساتھ ہورہا تھا۔ کئی دن سے دعوتوں کے سلسلے میں جانا پڑرہا ہے۔ ہر بار مختلف کپڑے اور میچنگ کی جیولری میں افورڈ نہیں کرسکتی اور نہ ہی میرا مزاج اس طرح کا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ اتنا مہنگا سونے چاندی کا زیور بنوائیں، پھر اس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ چوری کا ڈر الگ… ویسے بھی بازار میں ہر طرح کی آرٹیفشل جیولری مل جاتی ہے… کاش میں وہی لے لیتی۔ لیکن خیر… اب تو ہونے والی بات ہوچکی تھی۔ میں اپنی دیورانی کرن کا بریسلٹ پہن کر اپنی لاپروائی سے کھو چکی تھی۔
اب جب سعد کو یعنی میرے میاں کو پتا چلے گا تو کتنا ناراض ہوں گے۔ ایک تو مالی نقصان، ساتھ میں یہ بھی کہیں گے کہ کیا ضرورت تھی کسی کی چیز لے کر پہننے کی؟ کیا میں نے کچھ کمی کی ہے جو یہ نوبت آگئی! تم نے تو مجھے بے عزت کردیا۔‘‘
میری سسکیوں کی آواز سے امی کی آنکھ کھل گئی تھی۔ جب اُن کو پتا چلا کہ میرا بریسلٹ کھوگیا ہے تو انہوں نے خوب ڈانٹا: ’’بیٹا! ہمیشہ تمہیں منع کیا ہے میں نے، تمہارے ابّا کو بھی یہ بات سخت ناپسند تھی کہ کسی اور کی چیز لے کر پہننا اور اس کی تعریف کوئی کرے تو خوش ہونا۔ ارے بھئی پرائی چیز پر کیا اترانا…! کیا کروگی اب؟ اب بالکل ویسا ہی نیا بنواکر دینا پڑے گا۔ اچھا، ذرا ایک بات تو بتائو، کیا سعد مان جائے گا؟ سو باتیں سنائے گا۔ بی بی اپنے میاں کی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا تھا ناں… دیکھو سونا بھی تو 72 ہزار روپے تولہ ہوگیا ہے… پہننے سے پہلے سوچنا تھا ناں۔ اچھا اب اس طرح رونے سے کیا ہوگا! کل ہی میں اپنے سنار سے بات کرتی ہوں، لیکن اس کا ڈیزائن بھی تو دینا ہوگا۔ تم کرن سے پوچھو ،کہاں سے بنوایا تھا؟ اچھا اب چپ ہوجاؤ، صبح دیکھتے ہیں۔‘‘ امی نے گلے لگا لیا اور میری سسکیاں زار و قطار رونے میں تبدیل ہوگئیں۔
’’دو بچوں کی ماں ہوگئی ہو لیکن حرکتیں وہی بچپنے کی ہیں۔ اب آئندہ کے لیے قسم کھا لو کہ پرائی چیز کبھی نہیں پہنوگی۔ میری جان، یہ دکھاوا کیوںکریں ہم؟
اللہ نے جو اور جتنا ہمیں دیا ہے اسی پر راضی رہنا چاہیے۔ قناعت کرنے سے بہت سے مسائل آسان ہوجاتے ہیں۔ بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ انسان کو شکرگزاری کی عادت اپنانی چاہیے۔ شکر کرتے ہیں تو اللہ اور دیتا ہے، اور اگر ہم ناشکری کرتے ہیں تو پھر اللہ نے جو دیا ہے وہ چھن نہ جائے۔ اچھا چپ ہوجائو…‘‘ روتے ہوئے نہ جانے کب آنکھ لگی تھی۔
شادی کا گھر تھا۔ پھر صبح سے ہی ہنگامے جاگ اٹھے تھے۔ دلہن والے ناشتا لے کر آنے والے تھے۔ امی نے بہت منع کیا تھا لیکن وہ لوگ بضد تھے۔ ہر رسم نبھانا چاہتے تھے۔ سارے کام ہوتے ہوتے دوپہر ہوچکی تھی۔
ولیمہ اگلے دن تھا اس لیے میں نے اپنے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ میں تین چار دن کے لیے آئی تھی، لیکن اب میرا دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔ بریسلٹ میرے حواسوں پر چھا چکا تھا۔ ایک پل بھی چین نہیں آرہا تھا۔ پہلے سوچا اپنا کوئی زیور توڑ کر ویسا ہی بریسلیٹ بنوا لوں، لیکن ظاہر ہے اس کے لیے دیورانی کو بتانا ضروری تھا، کیوں کہ وہی ڈیزائن بتاتی۔
جب گھر پہنچی تو کرن بہت خوش اخلاقی سے ملی اور میں شرمندہ ہوتی رہی اور اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔
’’سب خیریت تو ہے ناں بھابھی؟ آپ تو ولیمے کے بعد آنے والی تھیں۔ جلدی کیوں آگئیں، بتائیں ناں…؟‘‘
مجھ سے زیادہ صبر نہ ہوسکا۔ اُس کو ساری بات بتا دی، اور پوچھا کہ ’’بریسلٹ کہاں سے بنوایا ہے، تاکہ ایسا دوسرا بنایا جاسکے۔‘‘
کرن جو اب تک خاموشی سے میری بات سن رہی تھی، اچانک خوب کھلکھلا کر ہنس دی ’’ایسا ہی بناکر دیں گی آپ؟‘‘
میں ہونق بنی اس کو دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں پھر سے برسنے کو تیار تھیں۔ میں بے بسی سے اپنی انگلیاں موڑنے لگی۔
جب اُس نے میری یہ حالت دیکھی تو بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا ’’ارے بھابھی اس میں رونے والی کیا بات ہے؟ بس اتنی سی بات…! اس کے لیے آپ اتنی پریشان ہوئیں کہ اتنے قیمتی آنسو بہا لیے…! اللہ کی بندی رات کو ہی مجھے فون کرلیتیں تو میں بتادیتی۔‘‘
’’کیا؟ کیا بتادیتیں…؟‘‘
’’یہی کہ وہ کون سا اصلی ہے؟ وہ کوئی سونے کا نہیں ہے۔ وہ تو آرٹیفیشل ہے۔ بازار میں بھرے پڑے ہیں ایسے ہزاروں بریسلٹ۔ بالکل اصلی لگتا ہے ناں؟ تھوڑا مہنگا ضرور ہے لیکن سونے کا نہیں ہے۔‘‘
اب ہنسنے کی باری میری تھی، میں بھی کھل کر مسکرائی اور اُس کے گلے لگ گئی… لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد میں بہت دیر تک روتی رہی۔ کیوں کہ میرے سر سے بہت بڑا بوجھ اتر چکا تھا۔ میں جلدی سے موبائل نکال کر امی کا نمبر ملانے لگی۔ اور میں نے پھر اپنے آپ سے عہد کیا کہ زندگی میں کبھی پرائی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھوںگی بھی نہیں۔